السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
آیات قرآنی سے تعویذ گلے میں ڈالنا یا بازو پرباندھنا جائز ہے یا نہیں ؟جواز یا عدم جواز پر قرآن وحدیث سے کیا دلیل ہے! السائل:۔ حاجی ابراہیم حسین سیٹھ بنگلور مورخہ ۲۳/۱۲/۴۰
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مشکوۃ میں ہے:۔ عن عمروبن شعيب عن ابيه جده ان رسول الله صلي الله عليه وسلم قال اذافزع احدكم فى النوم فليقل اعوذ بكلمات الله التامات من غضبه وعقابه وشر عباده ومن همزات الشياطين وان يحضرون فانها لن تضره وكان عبدالله بن عمرويعلمها من بلخ من ولده ومن لم يبلخ منهم كتبها فى صك ثم علقها فى عقه رواه ابوداودوالترمذىوهذالفظه (مشکوۃ باب الا ستعاذہ ص ۲۱۷ ) عمرو بن شعیب اپنے باپ وہ اپنے دادے سے (عبداللہ بن عمرؓ) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، جواپنی نیند میں گھبرائے وہ یہ کلمات پڑھے اعوذ الخ یعنی میں خدا کے پورے کلمات کے ساتھ پناہ پکڑتا ہوں اس کے غضب سے اس کے عذاب سے اس کے بندو ں کے شر سے اور شیاطین کے وسوسوں سے اور اس سے کہ میرے پاس حاظر ہوں۔ پس وہ خواب اس کو بالکل نقصان نہیں دے گی۔ اور عبداللہ بن عمرؓ کی اولاد سے جو بالغ کوجاتا، عبداللہ بن عمروؓاس کو یہ کلمات سکھادیتے۔ اور نا بالغ (1) ہوتاکاغذ پر لکھ کر اس کے گلے میں دال دیتے۔ اس کو ابوداود اور ترمذی نے روایت کیا ۔ عموما جواز کے لئے یہ دلیل پیش کی جاتی ہے مگر اس پر اعتراض ہوتا ہے کہ یہ صحابی کا فعل ہے اور صحابہ ؓدوسری طرف بھی ہیں تو پھر فیصلہ کیا ہوا؟نواب صدیق حسن خاں مرحوم نے دین خالص ۔ میں پہلے یہ حدیث ذکر کی ہے۔
عن ابن مسعودؓ قال سمعت رسول الله صلي الله عليه وسلم ان الرتى والتمائم واتولته شرك رواه احمد وابوداود ـ
ابن مسعودؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا دم۔ تعویذ، عمل سب یہ شرک ہے۔ اس کے بعد اس کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:۔ اقول ان العلماءمن الصحابة والتابعين فمن بعدهم اختلفوافى جواز تعليق التمائم التى من القران واسماء الله تعالى وصفاته فقالت طائفة يجوز ذلك وهو قول ابن عمروبن العاص وهو ظاهر ماروى عن عائشة وبه قال ابو جعفرن الباقرواحمدفى رواية وحملواالحديث على التمائم التى فيها شرك وقالت طائفة لايجوز ذلك وبه قال اين مسعودؓ وابن عباس ؓ وهوظاهر قول جذيفة وعقبة بن عامروابن عليم وبه قال جماعة من التابعين منهم اصحاب ابن مسعودواحمدفى رواية واختارهاكثيرمن اصحابه وجزم به المتاخرون واحتجوابهذاالحديث ومانى معناه ـ (دین خالص حصہ اول ص ۳۴۴ )
صحابہ تابعین اور ان کے بعد کے علماء میں قرآن مجید اور اسماءاور صفات الہی کے تعویذوں کے متعلق اختلاف ہے۔ ایک جماعت جواز کی قائل ہے ان سے عبداللہ بن عمروبن العاصؓ اور حضرت عائشہؓ کے قول سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہےاور ابو جعفرباقرؒبھی اسی کے قائل ہیں ۔ اور امام احمد ؒسے بھی ایک روایت اسی کے موافق ہے اور حدیث مذکور کو شرکیہ تعویذوں پر محمول کرتے ہیں ۔ اور ایک جماعت عدم جواز کی قائل ہے اور عبداللہ بن مسعودؓ اور عبداللہ بن عاس ؓ کا بھی یہی مذہب ہے !اور حذیفہؓ اورعقبہ بن عامرؓ اور ابن حکیمؓ کے قول سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے اور ایک جماعت تابعین سے بھی اسی کی قائل ہے ان سے اصحاب ابن مسعودؓہیں۔ اور ایک روایت امام احمد سے بھی اسی کے موافق ہے امام احمد ؒ کے بہت سے اصحاب نے اسی کو اختیار کیا ہے اور متاخرین کا بھی یہی مذہب ہے اور دلیل اس کی حدیث مذکور اور اس کے ہم معنی دیگر روائتیں (2) پیش کرتے ہیں ۔ اس سے معلوم ہوا کہ مسئلہ مختلف فیہا ہے اور دونوں طرف صحابہؓ ہیں تو اب فیصلہ کسی اور دلیل سے ہونا چاہیے صرف کسی صحابیؓ کا قول وفعل پیش کردینا کافی نہیں ۔ پس اب سنیے:۔ حدیث مذکور میں تین چیزیں ذکر ہوئی ہیں ۔ رقیہ۱ ۔ تمیمہ۲ ۔ تولہ۳ ۔ یعنی دم۱ ۔ تعویذ۲ ۔ اورعمل حب۳ حدیث میں ان تینوں پر شرک کا حکم لگایا گیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ نفس ان تینوں کا شرک ہے یا ان کی قسمیں ہیں جیسے بعض شرک ہیں بعض غیر شرک ہیں ۔ کچھ شک نہیں کہ نفس دم یعنی ذات دم کی یا ذات تعویذ یا ذات عمل حب کی شرک نہیں بلکہ ان کی بعض قسمیں شرک ہیں اور اس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جو مشکوۃ میں ہے:۔ عن عوف بن مالك الاشجعى قال كنا فرقى فى الجاهلية فقلنا يا رسول الله كيف ترى فى ذلك فقال اعرضوارقا كم لاباس بالزقى مالم يكن فيه شرك (مشکوۃ کتاب الطب ص ۳۸۸ ) عوف بن مالک سے روایت ہے کہ ہم جاہلیت میں دم کیا کرتے تھے ۔ رسول اللہ ﷺ سے ہم نے اس کی بابت دریافت کیا تو فرمایا اپنے دم مجھ پر پیش کرو۔ جب دم میں شرک نہ ہو تو کوئی حرج نہیں ۔ اس کی ہم معنی اور بھی کئی احادیث ہیں جو مشکوۃ وغیرہ میں موجود ہیں ۔ اور یہ صرف جاہلیت کے دموں کے متعلق ہیں اور جو دم قرآن وحدیث کے ہیں وہ ان کے علاوہ ہیں ۔ ان سے معلوم ہوا کہ نفس دم مراد نہیں بلکہ اس کی بعض قسیمں (کلمات شرکیہ) مراد ہیں ۔ اور جب اس کی بعض قسیمں مراد ہوئیں تو باقی دو میں بھی بعض مراد ہوں گی کیونکہ جیسے دم کی بعض قسمیں شرکیہ ہیں بعض غیر شرکیہ اسی طرح باقی دو کا حال ہے ۔ پس تفریق کی کوئی وجہ نہیں ۔ اسی لئے جواز کے قائل ہیں، انہوں نے حدیث مذکورہ کو شرکیہ تعویذوں پر محمول کیا ہے جیسے نوب صاحبؒ کی عبادت مذکورہ میں اس کی تصریح ہے۔ اور تمیمہ اور تولہ کی تفسیر بھی اسی کی موید ہے چنانچہ فیل الاوطارجلد ۸ کتاب الطب باب ماجاءفی الرفی والتمامہ ص ۴۴۴ میں ہے۔ التمائم جمع تميمة وهى حرزات كانت لاعرب تعلقها على اولادهم يمنعون بهاالعين فى زعمهم فابطله الاسلام۔ یعنی تمیمہ منکے ہیں جو نظر سے بچاو کے لئے عرب اپنے اعتقاد کی بناءپر اپنی اولاد کے گلے میں باندھتے تھے۔ پس اسلام نے اس کو باطل کردیا ۔ اور تولہ کی تفسیر میں لکھا ہے:۔ قال الخليل التولة شبيه بالسحر۔ یعنی خلیل کہتے ہیں تولہ جادو کے مشابہ ہے۔ اور حافظ ابن حجرؒفتح الباری جزء۲۳ باب باب الرقی بالقران الخ ص ۴۱۸ مین لکھتے ہیں:۔ والتولة شى كانت امراة تجلب به محبة زوجها وهو نوع من السحر یعنی تولہ ایک شے ہے جس کے ذریعے عورت اپنے خاوند کی محبت کھینچ لیتی ہے اور وہ ایک قسم جادو ہے۔ فیل الاوطار میں خلیل کے قول کے بعد یہ بھی لکھا ہے:۔ وقدجاءتفسيره عن ابن مسعود كما اخرجه الحاكم وابن حبان وصححاه انه دخل على امراة وفى عنقها شى معقودفجدبه فقطعه ثم قال سمعت رسول الله صلي الله عليه وسلم يقول ان الرقى والتمائم والتولة شرك قالو ايااباعبدالله (3)هذاالتمام والرقى قدعرفنا هافما التولة قال شى يصنعه النساءمتحببن الى ازواجهن يعنى من السحر قيل هوخيط يقرافيه من السحر اوقرطاس يكتب فيه شى منه يتحبب به النساء الى قلوب الرجال اوالرجال الى قلوب النساءفاماماتحبب به المراة الى زوجها من كلام مباح كما يسمى الغنج وكما تلبسه للزينة اوتطعمه من عقارمبلح اكله اواجزاءحيوان ماكول مما يعتقدانه سبب الى محبة زوجها لما اودع الله تعالى فيه من الخصيصة بتقدير الله لاانه يفعل ذلك بذاته قال ابن رسلان فالظاهر ان هذا جائز لااعرف الئن مايمنعه فى الشرع انتهىـ اورتولہ کی تفسیر خود عبداللہ بن مسعود ؓسے آئی ہے جس کو حاکم ؒاور ابن حبانؒ نے روایت کیا ہے اور صیح بھی کہا ہے۔ وہ یہ کہ انہوں نے اپنی بیوی کے گلے میں کچھ بندھا ہو ادیکھ کر اس کو توڑدیااور کہا میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا فرماتے تھے رقی اور تمائم اور تولہ شرک ہے ۔ لوگوں نے کہا اے ابو عبدالرحمن!رقی اور تمائم کو تو ہم جانتے ہیں تولہ کیا شے ہے ؟کہا ایک شے ہے جو عورتیں خاوندوں کی محبت کے لئے بناتی ہیں یعنی جادوکی قسم ہے۔ کہا گیا وہ ایک تاگہ ہے جس پر جادو سے کچھ پڑھا جاتا ہے یا کاغذہے جس میں جادو سے کچھ لکھا جاتا ہے جس کے ذریعے عورتیں مردوں کو محبوب ہوجاتی ہیں یا مرد عورتوں کو محبوب ہوجاتے ہیں ہر حال کلام مباح سے عمل حب نزاکت (4) اورزنبت کی طرح یا کوئی مباح جڑی بوٹی کھلا کر یا حلال جانور کے اجزادکھلا کر جن کے متعلق اعتقاد ہو کہ ان میں تقدیر الہی کے ساتھ نہ ذاتی طور پر محبت پیدا کرنے کی خاصیت ہے اس قسم کے عمل حب کی بابت ابن سلمان نے کہا ہے کہ ظاہر یہی ہے کہ یہ جائز ہے۔ شریعت میں اس کے منع کی کوئی دلیل میں نہیں جانتا۔ اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ صرف شرک والی صورتیں منع ہیں باقی جائز ہیں ۔ ہاں پرہیزافضل ہے جس کی دو وجہیں ہیں ۔ ایک یہ کہ اختلافی بات میں اختلاف سے نکل جا نا بہتر ہے روحانی علاج میں زیادہ تر ان باتوں پر عمل درآمد چاہیے جان پر رسول اللہ ﷺ اور عام طور پر سلفؒ کا عمل ہو یا احادیث میں ان کی ترغیب ہو کیونکہ روحانیات کا تعلق اعتقاد سے زیادہ ہے او ر اعتقاد عموما عمل سے ظاہر ہوتا ہے۔ نواب صاحب ؒ نے بھی جائز قرار دیتے ہوئے آخر یہی فیصلہ کیا ہے کہ پرہیز افضل ہے چنانچہ عبارت مذکورہ بالا (جس میں سلف کا اختلاف ذکر کیا ہے) کے بعد لکھتے ہیں :۔ قال بعض العلماءوهذا (اى عدم الجواز) هوالصيح لوجوه ثلثلة تظهر للمتا مل الاول عموم النهى ولامخصص الثانى سدالذريعة فانه يغض الى تعليق من ليس كذلك الثالث انه اذا علق فلايدان يمتهه بحمله معه فى حال قضاءالحاجة والاستنجاءونحوذلك قال وتامل هذه الاحاديث وماكان عليه السلف يتبين لك بذلك غربة الاسلام خصوصا ان عرفت عظيم ماوقع فيه الكثيربعدالقرون الفضلة من تعظيم القبور ماتحاذهاالمساجدوالاتبال اليها بالقلب والوجه وصرف الدعوت والرغبات والرهبات والواع العبادات التى هى حق الله تعالى اليها من دونه كما قال تعالى ولاتدع من دون الله مالاينفعك ولايضرك فان فعلت فانك اذامن الظالمين وان يمسسك الله بضر فلاكاشف له الاهودان يروك بخير فلارادلفضله ونظائرهافى القران اكثر من ان يحصر انتهى قلت غربة الاسلام شى وحكم المسئلة شى اخروالوجه الثالث المتقدم لمنع التعليق ضعيف جدالانه لامانع من نزع التمائم عندقضاءالحاجة ونحوها لساعة ثم يعلقها والراجح فى الباب ان ترك التعليق افضل فى كل حال بالنسبتالى التعليق الذى جوزه بعض اهل العلم بناء على ان يكون بما ثبت لابمالم يثت لان التقوىله مراتب ولذاالاخلاص وفوق كل رتبته فى الدين رتبته اخرى والممحصلون لها اقل ولهذا وردفى الحديث فى حق السبعين الفا يدخلون الجنة بغير حساب انهم هم الذين لايرقون ولايسترقون مع ان الرقى جائزة وردت بها الاخبار والاثاروالله اعلم بالصواب والمتقى من يترك ماليس به خوفا ممافيه باس ـ (فصل ردشرك الرقى والتمائم ص ۳۴۴ ۔ ۳۴۵ ) بعض علماء نے کہا ہے کہ عدم جواز ہی صیح ہے جس کی تین وجہیں ہیں ایک یہ کہ مذکور عام ہے اور مخصص کوئی نہیں ۔ دوم سدباب کیونکہ تعویذ کی اجازت دی جائے۔ تو لوگ آہستہ آہستہ مشتبہ یا شرکیہ الفاظ والے تعویذ بھی استعمال کرنے لگ جائیں گے۔ سوم پاخانہ پیشاپ کے وقت تعویذ ساتھ لے جانے سے کلام الہی اور اسماءالہی کی توہین ہوگی ۔ اور بعض علماء نے کہا ہے کہ ان احادیث میں اور روش سلف میں غور کرتا کہ تیرے لئے غربت اسلام واضح ہوجائے خاص کر جب تو دیکھے کہ خیرقرون کے بعد لوگ کس قدر خرابیوں میں واقع ہوگئے قبروں کی تعظیم، ان کو مسجدیں بنانا دل وجان سے ان کی طرف آمد ورفت ۔ قبروں والوں کو پکارنا، ان سے امید وخوف رکھنا ۔ کئی طرح کی عبادت کرنا جو خاص خدا کا حق ہے ۔ قرآن مجید میں ہے۔ ایسی شے کو نہ پکارجونہ کچھ نفع دے سکے نہ نقصان اگر تو ایسا کرے گا تو ظالم ہوجائے گا ۔ اور خدا اگر تجھے ضررپہنچائے تو کوئی اسے کھولنے والا نہیں اور اگر تیرے ساتھ خیر کا ارادہ کرے تو کوئی اس کے فضل کو رد کرنے والا نہیں۔ اس قسم کی آیتیں بہت ہیں ۔ میں (نوابصدیق حسن) کہتا ہوں کہ غربت اسلام علیحدہ شے ہے اور مسئلہ علیحدہ شے ہے۔ اور تیسری وجہ ابالکل کمزور ہے کیونکہ تھوڑی دیر کے لئے پاخانہ پیشاپ کے وقت تعویذ کھولاجاسکتا ہے اور افضل ترک تعویذ جس کا کوئی ثبوت نہیں۔ اور جو ثابت ہے اس کا ترک اس لئے افضل ہے کہ تقوی اور اخلاص کے کئی مراتب ہیں اور دین میں ہر مرتبہ کے اوپر دوسرا مرتبہ ہے اور اس کے حاصل کرنے والے بہت کم ہیں۔ اسی واسطے ستر ۷۰ ہزار آدمی جو بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوں گے۔ ان کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے فرمایا وہ وہی ہیں جو نہ دم کرتے ہیں نہ کرواتے ہیں حالانکہ دم جائز ہے چنانچہ اخبار آثار میں آیا ہے۔ اور متقی وہ ہے جو اس شے کی وجہ سے ہی میں ڈر ہے اس شے کو بھی چھوڑ دے جس میں ڈر نہیں ۔ نواب صاحب مرحوم نے اس عبارت میں بعض علماءکی پہلی وجہ کی طرف اس لئے توجہ نہیں کی کہ وہ ظاہر البطلان ہے۔ کیونکہ دم۔ تمیمہ۔ تولہ کی ذات شرک نہیں بلکہ بعض قسمیں شرک ہیں چنانچہ اوپر بیان ہوچکا ہے تو حدیث عموم پر کیسے محمول ہوسکتی ہے۔ دوسری وجہ کو نواب صاحب یہ کہہ کر رد کردیا ہے کہ غربت اسلام علیحدہ شے ہے اور مسئلہ علیحدہ شے ہے گویا سدباب سے بعض علماء کا مطلب یہ تھا کہ جیسے قبروں کا معاملہ برائی کی طرف ترقی کرکے غربت اسلام کا باعث ہوگیا اسی طرح قرآن حدیث کے الفاظ کے ساتھ تعویذ کرتے کرتے کہیں غیر مشروع الفاظ کے ساتھ بھی تعویذوں کا راستہ نہ کھل جائے جو غربت اسلام کا ذریعہ بن جائے۔ نواب صاحبؒ نے اس کا جواب دیا کہ اس طرح کی غربت اسلام اصل مسئلہ میں مخل نہیں ۔ مثلا قبروں میں ضرافات ہونے سے مسنون طریق پر ان کی زیارت منع نہیں ہوسکتی۔ ٹھیک اسی طرح تعویذ کا معاملہ ہے ۔ تیسری وجہ پر نواب صاحب نے بہت کمزور ہونے کا حکم لگایا ہے۔ اور واقعی وہ بہت کمزور ہے۔ رسول اللہ ﷺ انگوٹھی پہنتے تھے۔ ٹٹی جانے کے وقت اتاردیتے تھے ۔ پھر مڑھانے کی صورت میں شاید یہ بے ادبی نہ رہے۔ بہر صورت جواز میں کوئی شبہ نہیں ۔ مگر ان الفاظ کے ساتھ جو قرآن وحدیث سے ثابت ہوں ۔ یا ان کے ہم معنی ہوں مشتبہ نہ ہوں لیکن باوجود جواز کے نواب صاحبؒ فرماتے ہیں کہ ترک افضل ہے کیونکہ حرام سے بچ کر جائز پر اکتفا کرنا اگر چہ تقوی ہے مگر تقوی اور اخلاص اسی پر ختم نہیں بلکہ اس کے بہت سے مراتب ہیں اور ہر مراتب کے اوپر ایک اور مرتبہ ہے جس کو حکم لوگ پہنچتے ہیں ۔ اسی لئے ستر ۷۰ ہزار آدمی کہ جونہ دم کرتے ہیں نہ کرواتے ہیں حالانکہ دم کے جواز میں احادیث اور آثار سلف بہت آئے ہیں ۔ تو اگر تقوی کی حد صرف جواز تک ہوتی تو پھر ترک (5) دم کے ساتھ ان ستر ہزار کی تعریف کیوں ہوتی ہے اس سے معلوم ہوا کہ اصل تقوی جائز پر اکتفا کرنے میں نہیں بلکہ جائز کو بھی چھوڑ کراختیار والی صورت اختیار کرنے میں ہے۔ پس افضل ترک ہے واخردعوناان الحمدلله رب العلمين ۔ عبداللہ امرتسری مورخہ ۲۸/۲۱/۵۹ ھ مطابق ۲۷/۱/۴۱
---------------------------------------------
(1) بعض کہتے ہیں ۔ کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تعویذ ڈالنا ہو تو نابالغوں کو ڈالو۔ بالغوں کو نہ ڈالو۔ مگر یہ کہنا ٹھیک نہیں کیونکہ اگربالغوں کے لئے ناجائز ہوتا تو نہ بالغوں کے لئے بھی جائز ہوتا ۔ جیسے سونا چاندی ریشم وغیرہ، کیونکہ عموما چھوٹے بڑوں کے لئے اس قسم کے احکام یکساں ہوتے ہیں ۔ خاص کر جہاں ان پڑھا اس بارہ میں بچوں کے حکم میں ہیں ۔ کیونکہ ان کو پڑھنا مشکل ہے ہاں اس سے یہ ضرور نکلتا ہے کہ پڑھنا افضل ہے حتی الوسع اسی کی کو شش چاہیے
(2) بعض حدیث من تعلق شيئا وكل اليه، پیش کرتے ہیں۔ یعنی جس نے کسی شے سے تعلق پیدا کیا وہ اسی کی طرف سونپا جائیگا۔ مگر یہ یاد رکھنا چاہیے کہ تعلق دوطرح کا ہوتا ہے ایک دل سے ایک فعل سے چنانچہ نواب صاحبؒ نے دین خالص حصہ اول کے ص ۳۴۵ میں اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے اس کی تصریح کی ہے دل سے تعلق یہ ہے کہ غیر پر بھروسہ کرلے اور فعل سے یہ ہے کہ اس کے مطابق عملدارآمد کرے اس میں ہر قسم کے اسباب معیشت اور دم، تعویذوغیرہ داخل ہیں ۔ پس یہ ممانعت خاص تعویذ سے تعلق نہیں رکھتی بلکہ ہر قسم کے اسباب سے ہے ۔ جب جہ ان پر بھروسہ کرلیا جائے۔ ۱۲
(3) اصل میں اسی طرح ہے مگر غلط معلوم ہوتا ہے کیونکہ عبداللہ بن مسعودؓکی کنیت ابو عبدالرحمن مشہور ہے۔ اورنواب صاحبؒ نے بھی دین خالص جلد اول فضل ردالشرک الرقی والتمائم ص ۳۴۵ میں یہ روایت ذکر کی ہے اس میں یا ابا عبداللہ کی بجائے یا اباعبدالرحمن ہے پس صیح یہی ہے۱۲۰
(4) اس سے امام شوکانی ؒدلیل جواز کی طرف اشارہ کررہے ہیں ۔ یعنی کلام مباح سے عمل حب کی مثال ایسی ہے جیسے وہ شے جس کا نام غنج (نزاکت) رکھا جاتا ہے اور وہ شے جو عورتیں نہ زینت کے لئے پہنتی ہیں کشش کا ذریعہ ہیں ۔ ۱۲منہ
(5) اس حدیث میں دم سے مراد جاہلیت کے دم ہیں جو کلمات شرکیہ یا کلمات مشتبہ سے ہیں لیکن قرآن و حدیث کے الفاظ نہیں ہے قرآن وحدیث میں ان کی ترغیب یا تعریف آئی ہےایسے دموں سے پرہیز کی یہ فضیلت ہے کہ بغیر حساب کے جنت کا وعدہ ہے۔ رہے وہ دم جن کی قرآن وحدیث میں تعریف یا ترغیب آئی ہے یا خود رسول اللہ ﷺ یا خاص صحابہؓ کا ان پر عمل رہا ہے تو ایسے دم کرینوالے کے مرتبہ میں کوئی کمی نہیں آتی مثلا بخاری وغیرہ میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ سوتے وقت اخیر کی تین سورتیں پڑھ کر ہاتھوں پر پھونک کر بدن پر مل لیا کرتے تھے تین دفعہ اسی طرح کرتے۔ اور مرض الموت میں
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب