سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(32) دجال کے وجود کی وضاحت کریں

  • 6489
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 2043

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

پنجاب کے بعض عالم کہتے ہیں ۔ کہ دجال کا کچھ وجود نہیں ۔ دجال یہی حاکم ظالم ہیں اور جنت وناراس کی ریل گاڑی ہے اور حضرت عیسی علیہ اسلام فوت ہوگئے ۔ عیسی موعود میں ہوں ۔ اس واسطے علمائے دین داراہل سنت والجماعت اسے استفسار ہے ۔ کہ پنجاب کے اس عالم کے یہ اقوال سچ ہیں یا محض غلط ۔ بیان کرو۔ کہ عوام کل شک وشبہ رفع دفع ہوجائے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

آنحضرت ﷺ سے بارہ تیرہ صحابی وصحابیہ  (۱)  خریفہ بن اسید الغفاری  (۲) ابوہریرہ (۳) عمران بن حصین (۴) عبداللہ بن عمرمسعود (۵) انس بن مالک (۶) خریفہ بن یمان (۷) ونوارس بن سمعان (۸) ابوسعید خدری (۹) وابی بکرہ (۱۰) وفاطمہ بنت قیس (۱۱) عبداللہ بن عمر (۱۲) ابی عبیدہ بن الجراح (۱۳) اسماءبنت یزیدبن السکن (۱۴) مغیرہ بن شعبتہ رضی اللہ عنہم۔ روایت کرتے ہیں ۔ کہ قریب قیامت کے دجال ظاہر ہوگا اور شیبہ۔ مثل ۔ عبدالعزی بن قطن کے ہوگا۔ کہ یہ مشرکین میں سے گزرا ہے اور وہ مثل ابر کے تمام دنیا میں پھیل جاوے گا اور قیام اس کا چالیس دن ہوگا۔ ایک دن مثل برس کے اور ایک دن مہینے بھر کا ہوگا اور ایک دن ہفتہ بھر کا ہوگا باقی دن اپنے حال پر بدستور رہیں گے صحابہ نے عرض کیا کہ برس کی نماز کیوں کراداہوگی آیا ایک دن کی نماز کافی ہوگی فرمایا نہیں ۔ وقت کا ندازہ کرکے پانچوں نماز ین پڑھتے رہنا۔ اور مشکوۃ شریف باب العلامات بین یدی الساعۃ وذکر الدجال میں دجال کا احوال دیکھناچاہے یہاں ایک دو حدثین نقل کی جاتی ہیں اور دجال کے بعد حضرت عیسی اتریں گے۔ اور وہ دجال کو قتل کریں گے۔ اور مشکوۃ میں ایک خاص باب نزول عیسی علیہ السلام کا منعقد کیا ہے سب احول عیسی علیہ السلام کے نزول کا اس باب میں دیکھنا چاہئے۔ اور عیسی علیہ السلام کے نزول کا بیان صیح بخاری ومسلم وغیرہ میں مفصل مذکورہے۔ اور قرآن شریف میں سورہ زخرف سے نازل ہونا حضرت عیسی علیہ السلام کا صاف  واضح ہوتا ہے۔ وانه (1) ۔ اى عيسى ـ لعلم الساعة تعلم بنزوله وقراابن عباس بفتحتين للمحالغة كذافىالكمالين اوراسی طرح سے تفسیر مدارک وبیضادی وکبیرومعالم وغیرہ میں مذکورہے وانه ۔  بدرستیکہ عیسی علیہ السلام۔  لعلم لساعة علم است مرساعت را یعنی بدوبدانیدکہ بعد از تسلط دجال از آسمان برزمین فرودآید۔ نزدیک منارہ بیضاءادرطرف شرقی دمشق وجامہ رنگین پوشیدہ باشد ہردوکف دست خودرا بر بالہائے دو فرشتہ نہادہ ورخسارہ مبارکش عرق کردہ چون سدرپلیش افگند قطرات ازرولیش ریزاں گرددوچون سربالاکندآں قطر ہابرروئے ولے چون مردار یدوان شودونفس ولے برہرکافر کہ رسدبمیردوہرجاکہ چشم ولے افتد نفس ولے برسد ۔ پس درطلب دجال رواں گرد دودر باب لدکہ موضعے است درولایت شام بدورسد وادرا بکشد انگہ یاجوج بیروں آیند وعیسی علیہ السلام بکوہ طور برد مومناں راوآنجا متحصن گردد۔  القصہ چون معلوم شدکہ عیسی علیہ السلام نشانہ قرب قیامت است کذافی اتفسیرالحسینی۔  اور اس آیت کی تفسیر حدیثین صحاح ستہ کی ہیں يخفى على الماهبى هذاالفن۔ پس منکر نزول  حضرت عیسی علیہ السلام کا فاسق ہے۔ بلکہ کافر۔ کیونکہ صریح نص کا منکر ہے اور تاویل اس کی مردود و خلاف سلبیل مومنین کے ہے۔ ﴿وَمَن يُشَاقِقِ الرَّ‌سُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَىٰ وَيَتَّبِعْ غَيْرَ‌ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّىٰ وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ﴾  (الی اخر الایتہ کا مصداق ہے۔

وانه لعلم للساعة وان عيسى لعلم للساعة اى شرط من اشراطها تعلم به فسمى الشرط الدال على الشئ علما لحصول العلم به وقرأ ابن عباسؓ لعلم وهو العلامة ـ انتهى مافى التفسير الكبير مختصرا وانه لعلم للساعة يعنى نزوله من اشراط الساعة تعلم به وقرأ ابن عباسؓ وابوهريرة ؓ وقتادةؓ وانه لعلم للساعة بفتح اللام والعين ـ اى امارة و علامة انتهى ما فى معالم التنزل ـ مشکوۃکے باب العلامات بین یدی الساعۃ و ذکرالدجال میں ہے:۔ عن النواس بن سمان ؓ قال ذكر رسول الله صلي الله عليه وسلم الدجال وقال ان يخرج وانافيكم فانا جيحه دونكم وان يخرج ولست فيكم فامرأ جيج نفسه والله خليفيتى على كل مسلم انه شاب قطط عينه طافية كافى اشبهة بعبدالعزى بن قطن فمن ادركه منكم فليقرأ عليه فواتح سورة الكهف وفى رواية فليقرأ عليه فواتح سورة الكهف فانها جوار كم من فتنته انه خارج خله بين الشام واعراقى فعاث يمينا وعاث شمالا يا عبادالله فا ثبتو قلنا يا رسول الله وما لبثه فى الارض قال اربعون يومايم كسنته ويوم كشهرة ويوم كحجمعة وسائرايامه كامكم قلنا يا رسول الله فذلك اليوم الذى كمنة ايكفينا فيه صلوة يوم قال لا اقدر واله قدرة قلتا يارسول الله وما اسرعه فى الارض قال كالغيث استدبرته الريح فياتى على القوم فيدعوهم فيوءمنوابه فيأ مرالسماء فتمطروالارض فتنبت فتروح عليهم سارحتم اطوال ما كانت ذرى واسبغه ضروعا وامده خواصه ثم ياتى القوم فيدعوهم فيددون عليه قوله فينصرف عنهم فيصبحون ممحلين ليس بايديهم شىء من اموالهم وليهربالخر بة فيقول لها اخرجى كنوذك فتتبعه كنوزها كيعا سيب النحل ثم عورجلا ممتليا شابا فيضربه بالسيف فيقطعه جزلتين رمية الغرض ثم يدعوه فيقيل ويتهلل وجهه يضحك فبينما هوكذالك اذبعث الله المسيح بن مريم فينزل عندالمنارة البيضاء مشرقى دمشق بين مهزودتين واضعا كفيه على اجنحة ملكين اذاطأطأ راسه قطرواذارفعه تحدرمنه مثل جمان كا للؤللؤ فلايحل لكافريحدريح نفسه الامات ونفسه ينتهى حيث ينتهى طرفه فيطلبه حتى يدركه بباب لد فيقتله ثم يأ تى عيسى قوم قد عصمهم الله منه فيمسح عن وجوههم ويحدثهم بدرجاتهم فى الجنة  فبينما هو كذالك اذااوحى الله الى عيسى انى قداخرجت عبادالى لايدان لاحدبقتا لهم فحذر عبادى الى الطور فيبحث الله يا جوج وماجوج وهم من كل حدب ينسلون فيم اوائلهم على بحيره طبرية فيشربون ما فيها ويم اخرهم فيقول لقد كان بهذه مرة ماء ثم يسيرون  حتى ينتهو الى جبل الخمر وهو جبل بيت المقدس فيقولون لقد قتلنا من فى الارض هلم فلنقتل من فى السماء فيرمون بنشا بهم الى السماء فيردالله عليهم نشابهم مخفوبة دماويحصر نبى الله واصحابه حتى يكون رأس الثورلاحدهم خيرا من مائة دينارلاحدكم اليوم فير غب نبى الله عيسى و صحابه فير سل الله عليهم النغف فى قابهم فيصحبون فرسى كيموت نفس واحد ثم يهبط نبى الله عيسى واصحابه الى الارض فلايجدون فى الارض موضع شبر الاملاه زهمهم ونتهم فيرغب نبى الله و عيسى واصحابه الى الله فيرسل الله طيرا كا عناق البخت فتحملهم فتطرحهم حيث شاء الله وفى رواية تظرحهم بالنهبل و ليستوقد المسلمون من تسيهم ونشا بهم وجعا بهم سبع ثم يرسل الله مطرالايكن منه بيت مدرولاوبر فيغسل الارض حتى يتركها كا لزلفة ثم يقال للارض انبتى ثرتك وروى بركتك فيومئذ تأ كل العصابة من الرمانة ويستظلومن ـ بقحفها و يبارك فى الرسل حتى ان اللقحة من الابل لتكفى الفئام من الناس واللقحة البقر لستكفى القبيلة من الناس واللقحة من الغنم لتكفى لافخذ من الناس فبينما هم كذلك اذبعث الله ريحاطيبة فتاخذهم تحت اباطهم فتقبض روح كل مومن وكل مسلم ويبقى شرارالناس يتهارجون فيها تها رج الحمد فعليهم تقوم الساعة رواه مسلم الاالرواية الثانية وهى قولهم تطرحهم بالنهيل الى قوله بسبع سنين رواه الترمذى ـ حضرت نواس بن سمعانؓ کہتے ہیں ۔  کہ آنحضرت ﷺ نے دجال کا ذکر کیا۔ پس فرمایا اگر وہ میری موجودگی میں ظاہر ہوا تو تم سب کی طرف سے میں اس سے جھگڑوں گا۔ اگر میرے بعد نکلا تو ہر ایک شخص خود اس سے جھگڑے گا۔ اور اللہ تعالی میرا خلیفہ ہے ہر مسلمان  پر ۔ وہ دجال جوان ہوگا۔ گھونگر والے بال والا۔ اس کی آنکھ نکلی ہوئی ہوگی یعنی کانا ہوگا ۔ پس ایسا ہوگا ۔ جیسے عبدالعزی بن قطن کو جانتے ہو۔ سو جو اس کو پاوے تو اس پر  سورہ کہف کی ابتدائی آئتیں ضرور پڑھ لے ۔ کیونکہ وہ اس کے فتنہ سے اس کو بچائے گی۔ وہ شام اور عراق کے درمیان میں سے نکلنے والا ہے ۔ اور داہنے بائیں ۔ کیا بلکہ ہر طرف دوڑنے والا ہے۔ سو اس سے اللہ کے بندو ثابت رہنا۔ ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ وہ زمین میں کس قدر ٹھہرے رہے گا۔ فرمایا چالیس دن ایک دن سال  بھر کا ۔ ایک دن مہینہ بھر کا۔ ایک دن ہفتہ بھر کا۔  اورباقی دن یہ تمھارے معمولی دن ہوں گے۔ ہم نے عرض کیا یا حضرت تو اس سال بھر کے دن میں ایک کی نماز ہم کو کافی ہوگی یا نہ فرمایا نہیں ۔ ان معمولی دنوں کے اندازے سے پڑہتے رہنا ۔ اور مہینے اور ہفتے بھر کا دن بھی اسی قیاس پر ۔ ہم نے پوچھا۔ حضرت اس کا جلد جلد زمین پر پھر نا کیسا ہوگا فرمایا جیسے ہوا ابر کوپھیلاتی ہے۔ سو وہ دجال ایک قوم کے پاس آئے گا اور ان کو اپنے دین کی طر بلائے گا۔ وہ اس کا کہنا مان لیں گے۔ تو آسمان کو حکم کرے گا۔  خوب بارش ہوگی۔ اور زمین میں سبزی خوب اگے گی۔ اور ان کے مویشی  کھا کھا کر خوب پلیں گے۔ اور دودھیلے  ہوں گے۔ اور ایک قوم کے پاس آئے گا ان کو اپنی طرف بلائے گا۔ وہ اس کا کہنا نہ مانیں گے۔ وہاں سے چلا آئے گا۔ اور وہاں بارش بند ہوجائے گی۔ اور نہ رہے گا۔ اور کھنڈرات میں جائے گا۔ اس کو کہیےگا۔ اپنے سب خزانے نکال۔ تو سب کے سب دفینے نکل کر اس کے ہاتھ شہد کی مکھیوں کی طرح ہولیں گے۔ اور پھر ایک جوان کو بلائے گا اور اس کو تلوار سے مار دوٹکڑے کردے گااور ادھراودھر نشانے کی طرح پھینک دے گا۔ اور پھر اس کو بلاکر دوبارہ مارے گا۔ اور وہ شخص منہ چمتا ہوا ہنسے گا۔  سودجال اسی اوج موج میں ہوگا۔ کہ اتنے میں اللہ تعالی مسیح عیسی بن مریم علیہ السلام کو آسمان سے اتارے گا۔ سووہ دور نگیں کپڑے پہنے ہوئے دمشق کے مشرقی سفید منارہ پر اتریں گے دو فرشتوں کے بازووں پر ہاتھ رکھے ہوئے سر  کو جھکالیں گے۔ تو پسینے کے قطرے گریں گےاور جب سراٹھاویں گے تو موتیوں کے قطرے اتریں گے سو جس کافر کو ان کے سانس کی بوپہنچے گی ۔  بس مرہی جائے گا۔ اور جہاں تک  ان کی نظر پہنچے گی وہیں تک ان کا سانس پہنچے گا۔  سواس کو باب لدپر پاکر مارڈالیں گےفقط یہ ترجمہ ہم نے نواس بن سمعان کی حدیث کا بقدر ضرورت کیا ہے۔ سوسائل کو ثبوت خروج دجال اور اور حقیقی لعنتہ اللہ اور نزول حضرت عیسی مسیح بن مریم علیما اسلام میں کافی وافی شافی ہے جس کو تفصیل درکار ہو۔ مشکوۃ شریف میں پورے باب کو تحقیق کی نظر سے دیکھ لے یہی خلاصہ صحاح ستہ وغیرہ کتب حدیث کا ہے اگر کوئی نہ مانے تو اس کو اختیار ہے۔ اور وہ بعض عالم پنجاب کے جو اس کے خلاف کے قائل ہیں ۔ وہ نادان ۔ جاہل وپاگل اور کاذب ہیں۔ بلکہ اہل علم کے زمرے کی بو سے بھی بے نصیب اور محروم ہیں اور مینجملہ فرق اہل الحاد ہیں نعوذباللہ من شرہ   (حررہ ابواسمعیل یوسف حسین الخانفوری عفی عنہ)  وانه لعلم للساعة ۔ اور بے شک عیسی علیہ السلام جزد نیے والے ہیں قیامت کی یعنی ان کا اترنا آسمان سے ایک نشانی ہے قیامت کی دجال کے پیدا ہونے کے بعد حضرت عیسی علیہ السلام آویں گے اور دجال کو قتل کریں گےپھر یا جوج ماجوج پیدا ہو کر سسارے عالم کو خراب کریں گے۔ حضرت عیسی علیہ السلام مومنوں کو لے کر کو طور پر جاکر چھپیں گے۔ غرض کہ حضرت عیسی علیہ السلام نشانی ہیں قیامت کی تمام ہوئی عبارت شاہ عبدالقادردہلی رحمتہ اللہ علیہ کی پس پنجاب کا وہ عالم بلا شبہ نصوص مذکورہ بالا کا منکر ملحد ہے بلکہ کافر كمالايخفى على الماهر بالشريعة الفراء حررہ خادم العلماء الطاف حسین فاضل پوری فی الواقع جواب اول ودوم بلا ریب صیح ہے کیونکہ قریب قیامت کے ظاہر ہونا دجال کا بعد اس کے اترنا حضرت عیسی علیہ السلام کا آسمان سے اور قتل کرنا دجال کا برحق ہے۔ اور منکر اس کا ضال ومضل وملحد وبددین اورمخالف اجماع مسلمین کے ہے۔ چنانچہ کتب صحاح ستہ ودیگر کتب اس پر شاہد عدل ہیں اورتاویل مرزا قادیانی اور اس کے حواری کے نزدیک اہل حق کے باطل ومردوہے۔   (سید محمد نزیر حسین)

------------------------------------------------

 (1) اور وہ یعنی عیسی علیہ السلام قیامت کی نشانی ہیں آپ کے نازل ہونے سے قیامت کے وقت کا قرب معلوم ہوجائے گا عبداللہ بن عباس لعلم کو مبالغہ کے لئے یقنتین پڑھتے تھے۔ کمالین میں ایسا ہی منقول ہے۔ ۱۲۰

 (1) جوآدمی ہدایت واضح ہوجانے کے بعد بھی رسول کی نافرمانی کرے۔ اور ایمان والاوں کی راہ چھوڑ کر کوئی اور راہ  اختیارکرے تو ہم اس کو جدہر جاتا ہے جانے دیں گے اور بالاخر اس کو جہنم میں ڈال دیں گے۱۲۔

 (1) اوروہ قیامت کا ایک نشان ہیں یعنی عیسی علیہ اسلام قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہیں۔ ان کے آنے سے قیامت کا وقت قریب ہونا معلوم ہوجائے گا شرط دال، علی  الشی ءکو علم سے تعبیر کیا۔ کیونکہ ان کے آنے سے قیامت کا علم ہوجائے گا ۔ عبیداللہ بن عباس ؓکے اس کوعلم پڑھا ہے۔ جس کے معنی نشانی ہیں ۔ تفسیر کبیر کا خلاصہ ختم ہوا۔ عیسی علیہ السلام کا نزول قیامت کی نشانیوں میں سے ہے۔ عبداللہ  بن عباس۔ ابو ہریرہ فتاوہ وغیرہ نے اس کو علم پڑھا ہے جس کے معنی علامت اور نشانی ہے۱۲۰ ۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمائے حدیث

جلد 10 ص 65-75

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ