السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
سجدہ تعظیمی غیر اللہ کو یعنی انبیاء اولیاء کو کرنا شرک اکبر ہے یا حرام کبیرہ گنا ہ ؟اور آدم علیہ السلام کو جو ملائکہ سے سجدہ کرایا گیا وہ سجدہ تعظیمی تھا یا تعبدی ؟اور خدا نے ملائکہ سے سجدہ کیوں کرایا جب کہ اس نے شرک کو کسی شریعت میں جائز نہیں کیا ؟
دوسرے حضرت یوسف علیہ السلام اور ان کے بھائیوں نے حضرت یعقوب علیہ السلام کو سجدہ تعظیمی کیا تھا۔ قال اللہ تعالی:۔ وَرَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ وَخَرُّوا لَهُ سُجَّدًا ۔(سورۃ یوسف) اس سے ظاہر ہے کہ شریعت یوسفی تک سجدہ تعظیمی جائز تھا اگر شرک ہوتا تو کسی شریعت میں جائز نہ ہوتا کیونکہ شرک تمام شرائع انبیاء میں حرام تھا۔ جو لوگ سجدہ تعظیمی کو شرک اکبر کہتے ہیں وہ اسلام میں غلو کرتے ہیں یا نہیں ؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بے شک شرک کفر کسی شریعت میں جائز نہیں مگر اس کی صورتیں بدلتی رہتی ہیں ۔ مثلا آدم علیہ السلام کے وقت بہن بھائی میں نکاح جائز تھا ۔ اب کوئی شخص جائز کہے تو وہ کافر ہے اور بحکم آیہ کریمہ أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَـٰهَهُ هَوَاهُم شرک ہے۔ ٹھیک اسی طرح سجدہ تعظیمی کہو یا تعبدی کہو جب خدا کے حکم سے ہو تو وہ غیر کی عبادت نہیں جب خدا کے حکم کے خلاف ہو تو وہ غیر کی عبادت ہے کیونکہ قرآن مجید میں ہے إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّـهِ نیزقرآن شریف میں ہے أَمْ لَهُمْ شُرَكَاءُ شَرَعُوا لَهُم مِّنَ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَن بِهِ اللَّـهُ یعنی حکم صرف خدا ہی کے لئے ہے کیا ان کے لئے شریک ہیں جنہوں نے ان کے لئے دین مقررکیا ہے جس کی خدا نے اجازت نہیں دی قرآن مجید میں ہے:۔ لَا تَسْجُدُوا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوا لِلَّـهِ الَّذِي خَلَقَهُنَّ إِن كُنتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ یعنی سورج چاند کو سجدہ نہ کرو بلکہ
ا س ذات کو سجدہ کرو جس نے ان کو پیدا کیا اگر تم اس کی عبادت کرتے ہو۔ اس آیت میں مطلق سجدہ سے نہی فرمائی ہے اور ساتھ ہی یہ فرمایا ہے کہ اس ذات کو سجدہ کرو جس نے ان کو پیدا کیا ہے ۔ اس سے اس طرف اشارہ ہے کہ یہ حکم سورج چاند پر بند نہیں بلکہ سجدہ خالق کا حق ہے۔ مخلوق کا نہیں خواہ سورج چاند ہو یا کوئی اور مخلوق ہو۔ اور إِن كُنتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ سےمطلب یہ ہے کہ اگر کوئی سجدہ غیر کو ہوگیا تو پھر خاص خدا کے عابد نہیں رہوگے بلکہ مشرک ہوجاوگے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے قرآن مجید میں ہے :۔ قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّـهَ فَاتَّبِعُونِي یعنی کہہ دے اگر تم مجھ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر میرے مقابلہ میں کسی اور کی اتباع کروگے خواہ کسی طرح سے ہو تو پھر خدائی محبت کا دعوی جھوٹا ہے۔ ٹھیک اسی طر ح آیت بالا کا مطلب سمجھ لینا چاہئے کہ جب غیر کو سجدہ ہوا (خواہ اس کا نام سجدہ تعظیمی رکھو یا کچھ اور ) تم خاص خدا کے عابد نہیں رہ سکتے بلکہ مشرک ہوجاگے گویا ہماری شریعت میں سجدہ مطلقا حرام کردیا گیا ہے خواہ اس کا نام کو ئی کچھ رکھے ۔ اور اس کی تائید احادیث سے بھی ہوتی ہے۔
فتاوی ابن تیمیہ میں ہے:۔ ماتقبل الارض ودفع الراس ونحوذلك ممافيه السجودممايفعل قدام بعض الشيخ وبعض الملوك فلايحوذبل لايحوذالانحناء كالركوع كماقالو اللنبى صلي الله عليه وسلم الرجل منا يلقى اخاه اينحنى له قال قال لاولمادجع معاذمن الشام سجدللنبى صلي الله عليه وسلم فقال ما هذا يا معاذقال يارسول الله رايتهم فى الشام يسجدون لاساقفهم ويذكرون ذلك عن انبياءهم فقال كذبوا عليهم لوكنت امراحد اان يسجدلاحدلامرت المراة ان تسجدلزوجها من اجل حقه عليها يا معاذانه لاينبعى السجودالالله ـ وامافعل ذلك تدينا وتقربافهذا من اعظم المنكرات ومن اعتقد مثل هذا قربة وذينا فهو منال مفتربل يبين له ان هذاليس بدين ولاقربة فان امر على ذلك استيلب والاقتل (فتاوی ابن تیمیہؒ جلد اول ص ۱۱۶ ) یعنی زمین کو بوسہ دینا اور سر زمین پر رکھنا اور مثل اس کے جس میں سجدہ ہے جو شخص مشائخ اور بادشاہوں کے سامنے کیا جاتا ہے یہ جائز نہیں بلکہ جھکنا مثل رکوع کے بھی جائز نہیں ۔ چنانچہ صحابہؓ نے رسول اللہﷺ سے کہا ہم سے کوئی اپنے بھائی سے ملتا ہے تو کیا اس کے لئے جھکے ؟تو فرمایا نہ۔ اور جب معاذؓسفر شام سے واپس آئے تو رسول اللہﷺ کو سجدہ کیا ۔ فرمایا ۔ ائے معاذ!یہ کیا؟کہا میں نے اہل کتاب کو دیکھا کہ وہ اپنے علما ء کو سجدہ کرتے ہیں فرمایا یہ جھوٹ ہے ۔ اگر میں کسی کو کسی کے لئے سجدہ کا حکم دیتا تو عوت کو حکم دیتا کہ خاوند کو سجدہ کرے بوجہ حق اس کے کہ اس پر اےمعاذ!سواخدا کے کسی کے لئے سجدہ لائق نہیں اور دین ثواب سمجھ کر سجدہ کرنا بڑے کبائر (1) سےہے جو اس کا اعتقاد رکھے وہ گمراہ مفتری ہے ۔ اس کے لئے بیان کیا جائے کہ کہ دین اور ثواب نہیں اگر اصرار کرے تو اس سے توبہ طلب کی جائے۔ اگر توبہ نہ کرے تو قتل کیا جائے۔ قریب قریب اس قسم کی روائیتں مشکوۃ باب عشرۃ النساء وغیرہ میں موجود ہیں ۔ کہ سجدہ غیر کو جائز نہیں اگرجائز ہو تا تو عورت کو خاوند کے لئے سجدہ کا حکم ہوتا ۔ اور مشکوۃ کے اسی باب میں آپؐ کی قبر کو سجدہ کی ممانعت مذکور ہے اور جب آپؐ کو یا آپؐ کی قبر کو سجدہ کی اجازت نہیں تو غیر کے لئے کس طرح اجازت ہوگی ۔ بلکہ مشکوۃ باب القیام میں قیام تعظیمی سے بھی آپؐ نے منع فرمایا ہے تو سجدہ کس طرح جائز ہوگا؟خلاصہ یہ کہ نماز کی مشابہت کسی غیر کے لئے جائز نہیں نہ قیام نہ رکوع نہ سجدہ ۔ یہی وجہ ہے کہ نماز کی قبروں میں ممانعت ہے تاکہ عبادت قبور سے مشابہت نہ ہواور جب مشابہت منع ہے تو حقیقتہ یا رکوع یا سجدہ غیر کے لئے کیونکہ جائز ہوگا
(فتاوی روپڑی جلد اول ص ۱۴۷، ۱۴۸ )
--------------------------------------------
(1) یعنی اگر قتل وغیرہ کے ڈر سے کیا جائے تو وہ اس گناہ میں شامل نہیں بلکہ بعض کے نزدیک جائز ہے ۱۲
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب