السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
مسئلہ تقدیر کی کیا اصلیت ہے۔ اور کسب اور خلق میں کیا فرق ہے!یعنی جن اشخاص کو خدا نےدوزخی بنا دیا ہے۔ اور ان کو اسی کے لئے پیداکیا تو پھر ان پر کیا الزام ہے؟اور پھر ان سے انبیاءکی اتباع وتصدیق کا مطالبہ کرنا کیسے صیح ہوسکتا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مسئلہ تقدیر کی اصلیت دوچیزیں ہیں ایک علم ایک قدرت، علم اس طرح کہ بندے کو جب خدا نے پیدا کیا تو اس نے نیکی کرنی تھی یا بدی۔ اس کا علم اللہ تعالی کو پہلے ہی تھا ۔ سواس کو لوح محفوظ کی صورت میں پہلے ہی لکھ دیا ۔ لوگ جو کہتے ہیں کہ اللہ تعالی نے لکھا ۔ اس لئے بندے نے کیا یہ غلط ہے بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ بندے نے جو کرنا تھا ۔ ا س لئے اللہ نے لکھا ہے۔ چنانچہ حدیث میں ہے قلم کو حکم ہوا کتب لکھ ۔ قلم نے کہا مااكتب،، (میں کیا لکھوں) حکم ہوا۔ اكتب القدرنكتب ماكان وماهوكائن الى الابدترجمہ:۔ تقدیر لکھ!پس قلم نے جو کچھ ہوچکا تھا اور جو کچھ ہونا تھا لکھ دیا۔
بتلائیے:۔ اس میں اللہ کا کیا قصور ؟ ہاں اگر اللہ کا لکھنا بندے کے لئے رکاوٹ ہوتی ۔ تو پھر اعتراض کرنے والا اعتراض کرسکتا تھا۔ کہ بندے کا کیا قصور؟لیکن جب ایسا نہیں بلکہ بندے نے جو کچھ کرنا تھا قلم نے خدا کے حکم سے وہی لکھا۔ پھر اتنے پر بھی بندے کو نہیں پکڑا ۔ بلکہ بندے نے جب فعل کرلیا اس وقت پکڑا۔ پس اب علم کے لحاظ سے کوئی اعتراض نہ رہا ۔ زیادہ وضاحت کے لئے اس کو یوں سمجھئے کہ اگر بالفرض خدا کو علم نہ ہوتا تو ۔ بھی بندے نے نیکی یا بدی کرنی تھی۔ تو اللہ کو علم ہونے سے کون سا جبراآگیا۔ رہا قدرت کاملہ، سویہ نہایت نازک ہے بڑے بڑے عقلاء اس میں حیران ہیں ۔ خدا تعالی بندوں کو ہر طرح سے آزماتا ہے۔ بدنی آزمائشیں بھی آتی ہیں۔ عقلی بھی ۔ تقدیر کا مسئلہ عقلی آزمائش ہے مگر اس کو ایسا بھی نہیں کیا کہ بالکل مبہم رکھا ہو۔ بلکہ ایمان کے لئے جس قدر ضرورت تھی اتنا پردہ اٹھادیا ۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ ہر مخالف موافق اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ اللہ تعالی ہر نقص و عیب سے پاک ہے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ جبر جیسا کوئی نقص نہیں ایک تو اس میں حکمت کا خلاف ہے کہ خود ہی ایک فعل کرے اور اس پر سزادے۔ دوسرے اس میں بندے کو ناحق تکلیف دینا ہے جس کو ادنی سے ادنی عقل والا بھی اچھا نہیں سمجھتا۔ ایک کی جان دکھ میں ہو۔ دوسرے کا تماشہ، اور اس میں بھی شبہ نہیں کہ اللہ تعالی قادر مطلق ہے۔ جس کا اثر اس کا خالق ہونا ہے۔ اگر بندہ بھی خالق ہو تو یہ شرک فیاالربوبیت ہے جو بڑا شرک ہے پس معلوم ہوا کہ بندہ مجبور بھی نہیں اور مختار مطلق بھی نہیں ۔ بلکہ اس کی حالت بین بین ہے۔ جس کو کسب اور اکتساب ہے تعبیر کیا جاتا ہے۔ پس ایمان کے لئے اتنی معرفت کافی ہے ۔ کیونکہ ایمان کے لئے یہ ضروری نہیں کہ حقیقت شے کا علم ہو تب ایمان لائے۔ دیکھئیے روح کی حقیقت ہم نہیں جانتے لیکن اس کے آثار کی وجہ سے ہم مانتے ہیں ۔ اسی طرح خدا کی ذات وصفات پر ہم ایمان رکھتے ہیں ۔ لیکن کنہ وحقیقت کا علم نہیں ٹھیک اسی طرح کسب واکتساب کو سمجھ لینا چاہئیے۔ اس سے آگے بحث مین خیر نہیں۔ اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے تقدیر مین بحث سے منع فرمایا ہے میرے ذہن میں اس کے متعلق بہت سے مضامین ہیں ۔ کوئی موقع ہوا تو تفصیل ہوگی۔ ان شاءاللہ (فتاوی روپڑی جلد اول ص ۱۳۲، ۱۳۳ )
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب