السلام عليكم ورحمة الله وبركاته جماعت کے ساتھ وتر میں دعائے قنوت کے ساتھ قنوت نازلہ اورراسکے ساتھ اوربھی دعاملاکرپڑھنے میں کوئی حرج تونہیں۔ کچھ اہل علم اس کو بدعت کہتے ہیں۔؟ الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤالوعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته! الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! قنوت وتر، وتر کے ساتھ مخصوص ہے ، اور قنوتِ نازلہ کسی پیش آمدہ حادثہ کے موقعہ پر کی جاتی ہے خواہ نمازِ وتر میں ہو خواہ فرض نماز میں۔ یہ وتروں کے ساتھ مخصوص نہیں ، فرض نمازوں میں بھی کر سکتے ہیں ، اس طرح قنوت وتر اور قنوتِ نازلہ میں عموم وخصوص من وجہ والا فرق ہے ۔ قنوتِ نازلہ والے الفاظ قنوتِ وتر میں پڑھ لیے جائیں تو کوئی حرج نہیں کیونکہ قنوتِ وتر کو قنوتِ نازلہ بنانا یا وتروں میں قنوتِ نازلہ پڑھنا درست ہے ۔کیونکہ فرض نمازیں جن میں اکثر کے نزدیک عام حالات میں قنوت نہیں قنوتِ نازلہ ان میں بھی درست ہے تو وتروں میں قنوتِ نازلہ بطریقِ اولیٰ درست ہے کیونکہ وتروں میں تو عام حالات میں بھی قنوت ہے۔ اسی طرح آپ وتروں میں کوءی بھی مسنون دعا کر سکتے ہیں۔دعاء قنوت ميں يہ واجب نہيں وہ بعينہ انہى الفاظ ميں كى جائے بلكہ نماز كے ليے اس كے علاوہ دوسرے الفاظ يا اس ميں كمى و زيادتى كرنى جائز ہے، بلكہ اس نے كوئى ايسى آيت پڑھ لى جس ميں دعاء ہو تو مقصد پورا ہو جائے گا. امام نووى رحمہ اللہ فرماتے ہيں: "واعلم أن القنوت لا يتعين فيه دعاء على المذهب المختار ، فأي دعاء دعا به حصل القنوت ولو قنت بآية ، أو آيات من القرآن العزيز وهي مشتملة على الدعاء حصل القنوت ، ولكن الأفضل ما جاءت به السنة " الأذكار النووية ص 50 آپ كو معلوم ہونا چاہيے كہ صحيح مذہب كے مطابق قنوت ميں كوئى دعا متعين نہيں، اس ليے كوئى بھى دعاء كر لى جائے تو قنوت ہو جائے گى، چاہے قرآن مجيد كى ايک يا كئى آيات پڑھ لى جائے جو دعا پر مشتمل ہو تو قنوت ہو جائے گى، ليكن افضل يہ ہے كہ وہ دعاء پڑھى جائے جو سنت ميں وارد ہے. ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب فتاوی علمائے حدیث |