سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(15) آں حضرت ﷺ حاضرو ناظر نہیں تو نماز میں السلام عليك ايهاالنبى

  • 6471
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 3596

سوال

(15) آں حضرت ﷺ حاضرو ناظر نہیں تو نماز میں السلام عليك ايهاالنبى

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اکثر حضرات کا خیال ہے کہ اگر آں حضرت ﷺ حاضرو ناظر نہیں تو نماز میں آپ ؐ کو السلام عليك ايهاالنبى ۔ (سلامتی ہو تجھ پر اے نبی!) سے خطاب کیوں کیا جاتا ہے!معلوم ہوا کہ آپؐ ہر نمازی کے پاس ہوتے ہیں اور نمازی آپؐ کو خطاب کرتا ہے۔ (سائل منشی عبدالعزیز صاحب مالک فرم عزیز تھریڈ بال فیکٹری کراچی


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

قارئین کرام !یہاں دو مقام ہیں ایک یہ کہ اگر آپؐ حاظر و ناظر نہیں تو (تجھ پر)سے کوں خطاب ہوتا ہے۔!دوسرا  ايهاالنبى (اے نبی) سے کیوں خطاب ہوتا ہے۔ہم شق ثانی کا جواب آئندہ بوقت ضرورت عرض کریں گے ان شاءاللہ ۔یہاں شق اول یعنی السلام علیک کے جوابات ہدیہ ناظرین کرنا چاہتے ہیں ۔بزرگان ملت یہ بیان فرماتے آئے ہیں کہ جب رسول ﷺ معراج پر تشریف لے گئے تو اللہ تعالی کی حمد وثنا بیان کی کہ تام زبانی ،بدنی اور مالی عبادتیں اللہ تعالی ہی کے لئے مخصوص ہیں تو اللہ تعالی نے رسول ﷺ کو ہدیہ تبریک پیش کرتے ہوئے فرمایا السلام عليك ايهاالنبى ۔ (سلامتی ہو تجھ پر اے نبی!) چونکہ اس وقت آنحضرت ﷺ کو اللہ تعالی نے مخاطب کیا تھا،اس لئے  آنحضرت ﷺ نے اپنی امت اور صحابہ کرام کو تعلیم دیتے وقت حرف خطاب کو جس طرح کہ آپؐ نے اللہ تعالی سے سنا تھا برقرار رکھا۔اور اس کی قرآن کریم میں بے شمار مثالیں موجود ہیں کہ اگر کسی وقت کسی شخصیت اور فرد کو اس کی موجودگی اور حاضری میں خطاب ہوا تھا تو آج بھی اسی خطاب کی ضمیر اے اُسے یاد کیا جاتا ہے۔اس کو ضمیر خطاب سے یاد کرنے سے اس کا حاظروناظر ہونا کوئی بھی مراد نہیں لیتا۔(۱)حضرت موسی علیہ السلام نے جب فرعون کو تبلیغ کی۔ فرعون نے موسی علیہ السلام کے پیش کردہ دلائل کا گستاخانہ الفاظ میں رد  کیا ۔فرعون کی اس گستاخی پر موسی علیہ السلام نے فرمایا ﴿وَإِنِّي لَأَظُنُّكَ يَا فِرْ‌عَوْنُ مَثْبُورً‌ا﴾ (پ ۱۵ بنی اسرئیل رکوع ۱۱ ) اور بے شک میں تجھے خیال کرتا ہوں اے فرعون!کہ تو تباہ کردیا جائے گا۔اس آیت میں یا فرعون کے جملے کو ذہن میں محفوظ رکھئے تاکہ سندر ہے اور وقت ضرورت کام آئے ۔واشتہ آیدبکارالبتہ ملاحظہ کیجئے کہ آج بھی ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں قرآن مجید پڑھنے والے مسلمان ﴿لَأَظُنُّكَ﴾ کو خطاب کی ضمیر سے ہی پڑھتے ہیں لیکن اس سے فرعون کو کوئی بھی حاظر وناظر نہیں سمجھتا۔(۲)حضرت یوسف علیہ السلام  سے جب عزیز مصر کی بیوی نے ایک مخصوص ڈرامہ کھلینا چاہااور اللہ تعالی نے حضرت یوسف علیہ السلام کی پاکیزگی طہارت اور عصمت پر عزیز مصر کی بیوی کے خاندان ہی سے ایک شیر خوار بچے کو جب گواہ بنایا اور مصر پر جب یہ بات واضع ہوگئی کہ بیچارے یوسف علیہ السلام کا بالکل کوئی قصور نہیں بلکہ ساراقصور میری بیوی کا ہے،تو اس پر اپنی بیوی کو  خطاب کرتے ہوئے کہتا ہے ﴿وَاسْتَغْفِرِ‌ي لِذَنبِكِ ۖ إِنَّكِ كُنتِ مِنَ الْخَاطِئِينَ﴾ (پارہ نمبر ۱۲ رکوع ۱۲ سورۃ یوسف) یعنی اپنے گناہ پرمعافی مانگ بیشک وہ ہی خطاکاروں میں تھی۔اس آیت میں بھی لِذَنبِكِ اور إِنَّكِ سے عزیز مصر کی بیوی کو خطاب ہے اور سارے مسلمان اس کو اسی طرح پڑھتے ہیں مگر عزیز مصر کو کوئی بھی حاظروناظر نہیں جانتا۔ممکن ہے کہ فریق کرشن کنھیا کافر کی طرح اس کو بھی حاظروناظر جانتے ہوں کیونکہ  فریق مخالف کے ولی اور بزرگ تو رحم میں نطفہ پڑتے بھی دیکھتے ہیں اور جماع کے وقت بھی موجود رہتے ہیں اور اگر یہ بھی سن لیجئے کہ ایک گروہ نے اس بی بی کا نکاح حضرت یوسف علیہ السلام کے ساتھ تسلیم کیا ہے تو پھر نہ معلوم کہ  ایک نیک بی بی اور پیغمبر کی منکوحہ کو دنیا میں حاضر ہوکر لوگوں کو جماع کرتے اور رحم میں نطفے ڈالتے دیکھنے کا کیا شوق ہے ؟ لاحول ولاقوۃ ایسے گندے اور نجس عقیدہ سے۔

(۳)مصر کے جیل میں بے قصور یوسف علیہ السلام کے ساتھ چند دیگر اخلاقی مجرم بھی تھے دو آدمیوں نے خواب دیکھے ۔حضرت یوسف علیہ السلام نے ان کو تعبیر بتلائی جس قیدی کو رہائی اور نجات ہونے والی تھی حضرت یوسف علیہ السلام نے اس کو کہا ﴿اذْكُرْ‌نِي عِندَ رَ‌بِّكَ﴾ (میرا ذکر بھی اپنے آقا کے سامنے کردینا) اس آیت میں حضرت یوسف علیہ السلام نے ایک قیدی کو خطاب کیا تھا مگر آج تمام مسلمان عِندَ رَ‌بِّكَ کےالفاظ سے ہی اس آیت کی تلاوت کرتے ہیں لیکن اس قیدی کو کوئی حاظر وناظر نہیں کہتا۔

جواب دوم۔اگر ہم  السلام عليك سے حکایت نہ سمجھیں بلکہ دعا اور انشا دہی سمجھیں تو بھی اس سے حاظروناظر مراد لینا قطعا باطل ہے جیسا کہ ہم اپنے خطوط میں دوردراز ملکوں میں اپنے بھائیوں ،دوستوں اور اکابروں کو السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ لکھا کرتے ہیں تو اس کے یہ معنی تو نہیں ہوتے کہ وہ سب ہمارے پاس حاظروناظر موجود ہوتے ہیں ورنہ ان کو خط لکھنے کی کیا ضرورت !بلکہ یہ مطلب ہے کہ جب ہمارا خط دوستوں کو پہنچ جائے گا تو اس وقت ان سے خطاب ہوجائے گا جیسا کہ بخاری اور مسلم وغیرہ میں مروی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے بادشاہ روم کو خط میں لکھا تھا ادعوك بدعاية الاسلام (میں تجھے اسلام کی دعوت دینا ہوں) اس کے یہ معنی تونہ تھے کہ ہرقل آپؐ کے پاس حاظروناظر اور موجود تھا۔اسی طرح آپ یہاں بھی سمجھئے کہ ہم جب  السلام عليك ايهاالنبى۔ سے خطاب کرتے ہیں تو اس کے یہ معنی نہیں کہ آپؐ ہمارے پاس موجود ہوتے ہیں بلکہ  مطلب یہ ہے کہ  جب سلام آپؐ تک پہنچ جائے گا تو خطاب ہوجائے گا ۔اب ملاحظہ فرمائیے کہ آپؐ کو سلام کس طرح پہنچایا جاتا ہےبخاری شریف جلد دوم ص ۷۰۸ میں حضرت کعبؓ بن عجرہ سے مروی ہے کہ صحابہ ؓ کرام نے آنحضرت ﷺ سے سوال کیا کہ قرآن شریف میں جو صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا موجودہے )ہم سلام کے معنی اور مطلب تو سمجھ چکے ہیں (کہالسلام عليك ايهاالنبى۔پڑھا جاتا ہے)  آپؐ ہمیں  صلوا کے معنی اور مطلب بتائیے؟ آپؐ نے اللهم صل على محمد الخ۔ سے دورد کی تعلیم فرمائی جو ہم نماز میں پڑھا کرتے ہیں۔اس روایت سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام ؓ کے نزدیک آپؐ پر سلام پہنچانے کا وہی طریقہ اور الفاظ تھے جو  السلام عليك ايهاالنبى۔ سےپڑھتے تھے۔

اب آنحضرت ﷺ کی حیثیں ملاحظہ فرمائیے

(۱)نسائی جلد اول صفحہ ۱۴۳ ،مسند دارمی صفحہ ۳۷۳ اور مشکوۃ صفحہ ۸۶ وغیرہ میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے،نہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نےارشاد فرمایا ان الله ملئكة سيا حين فى الادمن يبلغون من امتى السلام ۔ (یعنی بے شک اللہ تعالی کی طرف سے زمین مین کچھ فرشتے اس کام پر مقرر ہیں کہ میری امت کی طرف سے مجھے سلام پہنچائیں) اسی طرح اسی مضمون کے قریب قریب الفاظ حضرت ادس بن ادس سے بھی روایت موجود ہے جو ابوداود جلد اول صفحہ ۱۵۰ ،ابن ماجہ صفحہ ۷۷ ،نسائی جلد اول صفحہ ۱۵۴ ،مستدرک حاکم جلداول صفحہ ۲۷۸ وغیرہ میں موجود ہے جس کی امام حاکم اور علامہ ذہبی بخاری کی شرط پر تصیح کرتے  ہیں۔اسی مضمون کی تیسری روایت حضرت ابوالدرداؓ سے مروی ہے جس کی امام فن رجال علامہ ذہبی تصیح کرتے ہیں۔ میزان الاعتدال جلد اول صفحہ ۳۶۱ ۔ضرورت تو نہیں کہ ہم جلیل القدر محدثینکی تصیح کے بعد کچھ اور بھی عرض کریں۔ لیکن زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود کی حدیث کی سند کے تمام روایت اور ان کی توثیق بھی ہدیہ قارئین کردیں۔ روایت یہ ہیں (۱) عبدالوہاب بن عبدالحکم وزق جو ثقہ تھے (تقریب ص ۲۴۹) (۲) معاذبن معاذ جو ثقہ اور متقن تھے (تقریب ص ۳۵۷ ) (۳)سفیان ثوری جو ثقہ ،حافظ،فقیہ،عابد،امام اور حجت تھے (تقریب ص ۱۵۱) (۴)عبداللہ بن السائب ثقہ تھے (تقریب ص۰۰) (۵)ذاذان،امام ابن معین فرماتے تھے کہ ذاذان ایسے ثقہ تھے جن کی مثل کے متعلق سوال نہیں ہوسکتا،علامہ ابن سعدانہیں ثقہ اور کثیرالحدیث کہتے تھے۔محدث خطیب اور عجمی کہتے تھے ثقہ تھے۔ابن عدی اور ابن حبان ان کی توثیق کرتے ہیں (تہذیب التہذیب جلد سوم ص ۳۰۳ (۶)حضرت عبداللہ بن مسعود جلیل القدر صحابی تھے۔قارئین کرام !ہم نے ایک ایک روای اور اس کی توثیق اور محدثین سے اس روایت کی تصیحح آپ کے سامنے عرض کردی ہے کہ رسول اللہ ﷺ امت کی طرف سے درودو سلام پہنچانے کے لئے اللہ تعالی کے فرشتے متعین اور مامور ہیں ۔آنحضرت ﷺ اگر حاظروباظر ہوتے اور خود بہ نفس نفیس درودو سلام سنتے فرشتوں کی تعیین کی کیا ضرورت تھی!ہمارا دعوی ہے کہ فریق مخالف قیامت تک ایک بھی حدیث صیح سند کے ساتھ ایسی نہیں پیش کرسکتا جس سے یہ ثابت ہوکہ آنحضرت ﷺ نے یہ فرمایا ہوکہ میں درودوسلام خود بلاتوسط لائکہ سن لیتا ہوں وانى لهم التناش من مكان بعيد اگرفریق مخالف میں جرات اور ہمت ہے تو یڑی چوٹی کا زور لگا کر ایک ہی ایسی حدیث پیش کردے جو سند کے ساتھ اور تمام روایت ثقات ہوں اور جناب رسول اللہ ﷺ کا اپنا مرفوع فرمان ہو۔ آہ سچ ہے۔

گری اسی شاخ پر ہے بجلی بنایا جس پر تھا آشیانہ

جواب سوم۔ہر زبان پر بکثرت اس کی مثالیں موجود ہیں کہ کسی غائب ہستی کا فرضی طور پر تصور کرنے اور تخیل کے طور پر اپنے دل میں حاظروناظر سمجھ لینے پر اس سے خطاب کیا جاتا ہے اس لئے نہیں کہ وہ حقیقتا حاظروناظر ہوتا ہے بلکہ یہ اپنے خیال پر مبنی ہوتا ہے بجائے اس کے کہ عربی اور فارسی کے حوالہ جات اورمحاورات نقل کروں ،یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اردو کے چند نظائر پیش کرنے کے بعد خاں صاحب بریلوی کے بعض اشعار نقل کروں ایک شاعر کہتا ہے۔

نہیں آتے ہیں وہ ،نہ آئیں مرے گھر      تصورمیں توہیں مہمان دل کے

ایک مجذوب صاحب کہتے ہیں۔

چھپ سکیں گے حضور پھ کیوں کر         جو تصور میں لاکے دیکھ لیا

ان دونوں شاعروں نے یہ بات واضع کردی ہے کہ اگر محبوب ہمارے گھر نہیں آتے تو نہ سہی دل میں تو ہمارا مہمان ہے اور دل میں اس کا تصور تو ہم کرتے ہی رہتے ہیں۔فریق مخالف کے اعلی حضرت خاں صاحب بریلوی حدائق بخشش حصہ دوم صفحہ ۵۰ پر لکھتے ہیں (بعض اشعار

سرسوئے روضہ جھکا پھر تجھ کو کیا           دل تھا ساجد نجد یا پھر تجھ کو کیا

بیٹھتے  اٹھتے  مدد  کے  واسطے               یا  رسول اللہ  کہا پھرتجھ کو کیا

یا عبادی کہہ کے ہم کو شاہ نے            بندہ  اپنا  کرلیا  پھر تجھ  کو کیا

دیو کے بندوں سے کب ہے یہ خطاب      تونہ ان کا ہے نہ تھا پھر تجھ کو کیا

نجدی مرتا ہے کہ کیوں تعظیم کی           یہ  ہمارا  دین  ہے پھر تجھ کو کیا

دیو کے بندوں سے ہم کو کیا غرض          ہم ہیں عبدالمصطفی پھر تجھ کو کیا

قارئین کرام!ہم سردست خاصاحب بریلوی کی شان میں یہی کہہ کر

تو اگر مشرک ہوا پھر ہم کو کیا     پیٹ کا بندہ بنا پھر ہم کو کیا

عرض کرنا چاہتے ہیں کہ خاں صاحب نے نجدیوں اور دیوبندیوں کو تجھ کو کیا کے الفاظ سے باربار خطاب کیا ہے۔کیا واقعی تمام نجدی اور دیوبندی خاں صاحب کے پاس حاظروناظر تھے!یا یہی آپ کہیں گے کہ ان کو تخیل کے طور پر حاظرجان کر ان سے خطاب کیا ہے اسی  طرح آپ السلام عليك ايهاالنبى۔ میں خطاب سمجھے۔یہ ہمارا نرادعوی ہی نہیں بلکہ آئیے ہم خاں صاحب سے اس کی تصدیق کردیتے ہیں خاں صاحب امام غزالی کی کتاب احیاء العلوم جلد اول صفحہ ۹۹ مطبوعہ نو لکشور لکھنو سے السلام عليك ايهاالنبى۔ کی تشریح نقل کرتے ہوئے کو کہہ شہابیہ صفحہ ۳۵ پر لکھتے ہیں ۔معنی بھی خاں صاحب ہی کے ہیں۔احضرفى قلبك النبىﷺوشخصية الكريم وقل السلام عليك ايهاالنبى ورحمة الله وبركاته  ترجمہ۔التحیات میں نبی ﷺ کو اپنے دل  میں حاظرکر اور حضور کی صورت پاک کا تصور باندھ اور عرض کر !سلامتی ہو  تجھ پر اے نبی!اور اللہ کی رحمت اور اس کی برکت۔

قارئین کرام! دل میں حاظر کر اور تصور باندھ کہےکا معنی تو جانتے ہی ہونگے اگر واقعی رسول اللہ ﷺ واقعی طور پر حاظروناظر ہیں تو دل میں  حاضر کرنے اور تصور باندھنے کا کیا مطلب؟ اس کو اسی طرح سمجھئے جیسا آنحضرت ﷺ نے فرمایا اعبدربك كانك تراه کہ اللہ تعالی کی عبادت ا س طرح پر کر کہ گویا تو خدا کو دیکھ رہا ہے۔آپ جانتے ہی ہیں کہ حقیقتا رویت خدا وندی دنیا میں تو حضرت موسی علیہ السلاجیسے جلیل القدر پیغمبروں کو نہیں ہوئی تو جس طرح آپ گویا کہ دیکھنے اور حقیقتا دیکھنے میں فرق کرتے اور جانتے ہیں اسی طرح حقیقتا حاضر ہونے اور دل میں حاظر کرنے کا فرق سمجھ لیجئے آپ کو اس میں کیوں تردد اور پریشانی لاحق ہوگئی ہے۔

آثار سحر پیدا ہیں اب رات کا جادو ٹوٹ چکا           ظلمت کے بھیا نک ہاتھوں سے تنویر کا دامن چھوٹ چکا

جواب چہارم۔آنحضرت ﷺ سے التحیات کے الفاظ جن صحابہ کرام ؓ سے مروی ہیں  ان میں ہمیں حضرت عبداللہ بن مسعود ،حضرت عائشہ اور حضرت عبداللہ بن عمرؓوغیرہ نمایاں طور پر نظر آتے ہیں لیکن اس کو کیا کریں کہ یہی اکابر صحابہ آنحضرت ﷺکی وفات کی بجائے السلام عليك ايهاالنبى۔کےالسلام على النبى ورحمة الله پڑھتے بھی تھے اور اس کی تعلیم بھی دیتے تھے۔

(۱)صیح بخاری جلد دوم صفحہ ۹۲۶ وغیرہ میں حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے وہ فرماتے تھے کہ جب آنحضرت ﷺ کی وفات ہوگئی تو ہم التحیات میں  السلام على النبى پڑھا کرتے تھے۔

(۲)اسی طرح موطا امام مالک صفحہ ۳۱ ۔اور سنن الکبری جلد دوم صفحہ ۱۴۲ وغیرہ میں حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے۔

(۳) سنن الکبری جلد دوم صفحہ ۱۴۲ وغیرہ میں حضرت قاسم بن محمد سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ ؓ ہمیں التحیات میں السلام على النبى ورحمة الله ۔ پڑھایا اور تعلیم دیا کرتی تھیں بلکہ فتح الباری وغیرہ میں حضرت عطاء تابعیؒ سے یہاں تک منقول ہے کہ صحابہ کرام آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد السلام على النبى ۔پرھا کرتے تھے۔اب غور فرمائیے! کہ اگر صحابہ کرام کا اور خصوصا ان بزرگوں کا جن سے السلام عليك کےالفاظ سے التحیات منقول ہے یہ عقیدہ ہوتا کہ جناب رسول خدا ﷺ ہمارے اندر موجود اور حاظر ہیں تو ان کو ضمیر خطاب چھوڑنے کی کیا ضرورت محسوس ہوئی تھی !بلکہ انہوں نے امت کی رہنمائی فرمائی کہ اگر امت السلام عليك کو اس عقیدہ سے پڑھے کہ ہم بطور حکایت پڑھتے ہیں یا فرشتے ہمارے سلام کو آنحضرت ﷺ کے پاس پہنچاتے ہیں(تو پھر خطاب ہوجاتا ہے جیسے خطوط کی مثال ہم نے پیش کی تھی)یا اگر تخیل اورتصور میں حاظر سمجھ کر خطاب کرے تو اس کے لئے اس میں گنجائش ہے ورنہ بجائے اس کے السلام على النبى پڑھیں تاکہ خیط واقع نہ ہو۔

طریق عشق میں ہم یوں سمبھل سمبھل کے چلے   کہ جیسے ہاتھ میں لبریز جام ہوتا ہے

جواب پنجم۔اگر آنحضرت ﷺ واقعی السلام عليك ايهاالنبى کےپیش کردہ استدلال کی رو سے حاظر وناظر ہوتے تو ایک تو۔ ساتھ عربی النسل بھی تھے اس تخیل و تصور کا شرح میں کوئی ثبوت نہیں نہ کسی صحابی سے منقول ہے۔من او عن فعلیہ البیان ۱۲ نائب مفتی

اور ضمیر خطاب وغیرہ کے محل وقوع اور موقع استعمال اے بخوبی واقف تھے اور حضورؐ کی فیض صحبت کی برکت سے قرآن کریم اور حدیث کے مطلب کو اچھی طرح سمجھ سکتے تھے ان کا یہ عقیدہ ہونا چاہئے تھا کہ حضور ؐ ہر جگہ حاظروناظر ہیں ۔اور دوسرے خود حضورؐ کو اگر دوسرے امیتوں سے نہیں  تو ان صحابہ کرام سے جو آپؐ کے نمازی بھی تھے اچھی خاصی واقفیت ہونی ضروری تھی،لیکن قرآن کریم اور حدیث کا علم رکھنے والے بخوبی جانتے ہیں  کہ کسی صحابی کا یہ عقیدہ نہ تھا،

تو جل گیا کہ خانہ امید جل گیا

دل بجھ گیا تیرے سخن دل کشا کے بعد

ملاعلی قاری حنفی نے مرقاۃ میں لکھا کہ رسول ﷺ کو اللہ تعالی کے ہاں سے شب معراج میں خلعت انعام ملا تھا اور اسی وجہ سے خطاب آيهاالنبى درست جائز ہوا کہ حکایت معراجی مراد ہے نہ اور کچھ جیسا کہ قرآن و حدیث میں جابجا  يا فرعون ،ياحمان۔ يا موسى۔ يارسول الله وغیرہ حکایت کے طور پر پڑہا جاتا ہے اور نیز صیح بخاری فتح الباری وغیرہ حدیث کی کتابوں میں سب بدعقیدگی لوگوں کے عبداللہ بن مسعود وغیرہ صحابہ کرام سے  السلام على النبى پڑھنا س ثابت ہے،اور اگر بدعقیدگی نہ ہو تو خطاب کے ساتھ پڑھنا لازم وضروری ہے کہ ااس میں اتباع رسول اللہ ﷺ جو آپ ؐ نے صحابہ کرام  رضوان اللہ علیہ اجمعین کو تعلیم کیا تھا الخ فقط:حقیر پراز تقصیر بندہ گنہگار انو محمد عبدالغفار دہلوی نائب مفتی ،محکمۃ القضاۃ الاسلامیہ جماعت غرباء اہلحدیث کراچی فتاوی ستار یہ جلد دوم ۱۲ ص ۱۴۸

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمائے حدیث

جلد 10 ص 37-45

محدث فتویٰ

تبصرے