السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا فرماتے ہیں علمائے محققین اس مسئلہ میں کہ تعظیمی سجدہ پیرومرشد کو جائز ہے کہ نہیں قائلین بالجواز کے یہ دلائل ہیں (۱)آدم ؑ کو فرشتوں کا سجدہ کرنا۔(۲)یوسف علیہ السلام کو والدین اور اس کے بھائیوں کا سجدہ کرنا (۳)موسی علیہ السلام کو جادوگروں کا سجدہ کرنا۔(۴)کتاب الرویامشکوۃ شریف فصل ثانی میں حدیث ابن خریمہ بن ثابت اپنے چچا ابو خزیمہ سے روایت کرتا ہے کہ مجھے خواب آیا کہ آپ کی پیشانی پ سجدہ کیا صبح آپ کو خواب عرض کیا۔حکم ہوا کہ صدق روياك اپنا خواب سچا کرے۔آپ لیٹ گئے پیشانی پر سجدہ کیا گیا۔آپ مفصل جواب بدلائل صیحہ باحوالہ کتب جلدی عنایت فرمائیے۔ ثواب عنداللہ حاصل فرمائیے۔ سائل (مولانا)محمد یوسف صاحب مقام سلینہ ضلع فیروز پور پنجاب۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
صورت مرقومہ بالا میں واضع و لائح ہوکہ سجدہ تعبدی ہویا تعظیم بجز باری تعالی کے کسی نبی ولی پیر مرشد وغیرہ کے لئے جائز نہیں بلکہ شریعت محمدیہ میں قطعا حرام و ناجائز ہ و بادرست ہے۔ قائلین بالجوز کا استدلال دلائل مذکورہ سے کبیت العنکبوت ہے۔ قرآن مجید مین ارشاد خدا وندی ہے فَاسْجُدُوا لِلَّـهِ نیزفرمایا ﴿لَا تَسْجُدُوا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوا لِلَّـهِ الَّذِي خَلَقَهُنَّ إِن كُنتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ﴾ آیات مذکورہ بالا میں لام تملیک ع تخصیص ہے جس سے صاف عیاں ہے کہ سجدہ خاصہ خدا وندی ہے اور خاصہ حقیقتیہ اس کو کہتے ہیں جس کا وجدان دوسری چیز میں مفقود و معدوم ہو خاصته الشى ما يوجد فيه ولا يوجدفى غيره ملا ہو حاشیہ کا فیہ۔ نیز شرح جائی ص ۱۸ میں خاصہ کی تعریف بایں الفاظ مسطور ہے خاصته الشى ما يختص به ولا يوخذ فى غيره علم معانی میں بھی یہ چیز مشہور ومعروف ہے۔لمبغاء عرب وارباب ادب کے نزدیک بھی یہ امر مسلم ہے کہ کسی چیز میں خاصہ کا ہونا اس کے وجود کی نفی فی الغیر کو مستلزم ہے۔اور کلام عرب میں لاتملیک ولام تخصیص بھی اسی کا متقضی ہے چنانچہ حاشیہ شرح جائی میں مرقوم ہے خاصته الشى اه نسرالاختصاس بنضى الوجودفى غيره على ان النفى داجع الى القيدكما هوالا عرف عندارباب الادب والاعرف فى استعمال بلغآ ءالعرب فيكون وماله انه يوجد فيه ولا يوجدفى غيره الخ۔جب سجدہ کا خاصہ خداوندی ہونا قرآن مجید سے بالوضاحت وبالبداہت ثابت ہے اور قرآن مجید کا کتب سماویہ متقدمہ کے لئے ناسخ ہونا مسلم فریقین ہے۔ تو واقعات سابقہ و منسوخہ سے ستدلال کرکے قرآن مجید کے ایک محکم و اٹل فیصلہ کو توڑنا اور منسوخ سے اس کےناسخ کا مقابلہ کرنا یقینی طور پر اپنی تجہیل و تذلیل کرانا ہے۔
(۱)آدم علیہ السلام کو فرشتوں کا سجدہ کرنا اور اولاد آدم میں بہن بھائی کا نکاح ہوجانا خدائی حکم تھا جس کو بذریعہ شریعت محمدیہ خدا نے منسوخ کردیا قال تعالى ﴿حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ وَبَنَاتُكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ الایة﴾ یعنی اسے مسلمانو!تم پر تمھاری مائیں ،بیٹیاں،بہنیں حرام ہیں (پ ۴ سورۃ نساء)
سجدہ تعظیمی کے قائلین بالجواز کیا واقعہ آدم علیہ السلام سے بھائی بہن کا آپس میں نکاح کرنا بھی جائز قرار دیں گے؟واذليس فليس ۔فرشتوں کو خدا وند تعالی نے حکما فرمایا تھا کہ آدمؑ کے لئے سجدہ تکریمی و تشریفی بجالاو چنانچہ ارشاد ہوتا ہے۔ ﴿وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ﴾ الایتہ نیز فرمایا ﴿فَقَعُوا لَهُ سَاجِدِينَ﴾
نیزفرمایا ﴿مَا مَنَعَكَ أَلَّا تَسْجُدَ إِذْ أَمَرْتُكَ﴾ حدیث میں ہےواسجد لك ملائكته وغير ذلك من الايات والاحاديث بس یہ امر الہی کی تعمیل تھی جس کو خاص وقتی حکم وقتی تعمیل کہنا چاہئےاس کے بعد خدا وند قدوس نے فرشتوں کے متعلق خبردی ہے کہ وہ سب کے سب ایک ذات واحد کے لئے سجدہ بجالاتے ہیں کسی دوسری ہستی کے لئے جائز نہیں سمجھتے چنانچہ سورۃ اعراف پ۹ میں ارشاد باری ہے ﴿إِنَّ الَّذِينَ عِندَ رَبِّكَ لَا يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِهِ وَيُسَبِّحُونَهُ وَلَهُ يَسْجُدُونَ﴾
آیت ہذا کے آخری جملہ میں جار مجردر کو فعل پر مقدمہ کیا ہےحالانکہ حق اُس کا آخیر کا تھا جس میں قرآنی نصاحت و بلاغت کے علاوہ صرف ذات واحد ہی کے لئے سجدہ کی خصوصیت کا پورا ثبوت ہے۔عربیت کا قاعدہ مسلمہ ہے تقديم ما حقه التا خير يضيدالحصروالقصر ۔ ملائکہ نے اطاعت خداوندی کو ملحوظ نظر رکھتے ہوئے امتثالالامراللہ آدم علیہ السلام کو سجدہ کیا ۔خدا کا حکم ماننا شرک نہیں بلکہ عین عبادت ہے اسی طرح اب ہم کو حکم ہے کہ وَاسْجُدُوا لِلَّـهِ
۔یعنی صرف ذات واحد ہی کے لئے سجدہ بجالاو عام اس کے کہ وہ حقیقی ہو یا مجازی ،تعبدی ہو یا تعظیمی ،تشریفی ہو یا تکریمی ۔ پس ہمیں بھی چاہئیے کہ خدائی احکام کو بجالاتے ہوئے اسی ذات واحد کے لئے سربسجود رہیں تعظیمی وتکریمی کا حیلہ بہانہ بنا کرکے غیر اللہ کے سامنے سرنگوں ہونا پیشانی رکھنا یقینا شرک حرام ہےکیونکہ سجدہ تعبدی تو آدم علیہ السلام سے لیکر تااین دم ہر شریعت و ملت میں حرام رہا بدلیل قولہ تعالی ﴿وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ إِلَّا نُوحِي إِلَيْهِ أَنَّهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُونِ﴾
نیز فرمایا کہ ﴿وَاسْأَلْ مَنْ أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رُّسُلِنَا أَجَعَلْنَا مِن دُونِ الرَّحْمَـٰنِ آلِهَةً يُعْبَدُونَ﴾
نیزفرمایا ﴿وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّـهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ﴾
۔تحت آیت اول تفسیر ابن کثیر جلد ۶ ص ۲۸۵ میں مرقوم ہےنكل نبى بعثه الله يدعوالى عبادته الله وحده لاشريك له والفطرت شاهدت بذلك یعنی ہر نبی مبعوث من جانب اللہ ایک خدا کی عبادت کرانے کے لئے آیاانسانی فطرت بھی اسی کی متقضی و شاہد ہے۔وبدلیل قولہ تعالی الانبيآء اخوت من علات وامهاتهم شتى ودينهم واحد ( متفق علیہ)
صرف سجدہ تکریمی جو بطور تحیت و سلام کے تھا ملل سابقہ وامم سابقہ میں جائز تھا جس کو قرآن نے آکر بالکل منسوخ کردیا۔لعات شرح مشکوۃ میں تحت حدیث ہذا مرقوم ہے یعنی ان الشرآئع وان كانت متعددة مختلفة لكن اصل دينهم و هوالتوحيدوالطاعةواحد۔یعنی انبیاء سابقین کی شریعتیں گو مختلف و متعدد تھیں مگر عبادت الہہی توحید وطاعت میں سب متفق تھے۔ حدیث ہذا سے صاف واضع ہے کہ غیر اللہ کے لئے عبادۃ سجدہ کرنا کسی شریعت میں جائز نہ تھا ۔تکریماوادبا سجدہ سلامی بعض بعض شریعتوں میں جائز تھا ۔شریعت محمدیہ نے آکر اُسے بھی منسوخ کردیا جس سے شائبہ شرک کے جواز کی بھی گنجائش نہ رہی اور پورے طریق سے قائلین بالجواز کی بیخ کنی ہوگئی فا الحمد۔
دفع دخل مقدر۔رہا یہ اعتراض کہ خدا نے فرشتوں سے آدم علیہ السلام کو کیوں سجدہ کروایا فرشتوں نے خدا کا حق آدم کو کیوں دیا یہ بالکل لغو اور باطل ہے کیونکہ وہ ﴿فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيدُ﴾ ہے ﴿يَفْعَلُ مَا يَشَاءُ﴾ اس کی صفت ہے ﴿لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُونَ﴾ اس کی شان ہے يَحْكُمُ مَا يُرِيدُ اس کی پہچان ہےاُس سے کوئی باز پرس کرنے والا نہیں کہ خدایا تونے یہ کیوں کیا !وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے اُس کے آگے کسی کو دم زدن کی مجال نہیں ۔عرب کے شاعر نے کیا یہ خوب کہا ہے
وله فى كل شى خلقه وكذلك الله ماشآءفعل
اگر کوئی کسی کا حق کسی کو بلا اجازت دے بیشک صریح ظلم و بے انصافی ہے مگر حق دار کا اپنی رضا مندی سے کسی کو کچھ دینا بھی کیا بے انصافی و ظلم سے تعبیر کیا جائے گا!ولا يقول بدلك احدالامن سفه نفسه ۔مالک اپنی ملکیت میں سے جس نوکر کو جو چاہے دے سکتا ہے مگر ایک نوکر دوسرے نوکر کو اپنے آقا و مالک کی مملوکہ اشیاء میں سے کچھ نہیں دے سکتا چنانچہ آیت مذکورہ بالا کے تحت تفسیر فتح البیان جلد ۵ ص ۱۸۳ میں مرقوم ہے وفيه دليل على ان الما موربه هوالسجودالحقيقى(2) اى وضع الجبلة على الارض لا مجردالانحناءكما قال السيوطى و هذا السجود هوسجود تحية وتكريم لا سجودعبادةولله ان يكرم من يشآ ءمن مخلوقاته كيف يشآء بما يشآء یعنی آیت ﴿فَقَعُوا۟ لَهُۥ سَـٰجِدِينَ﴾
میں دلیل ہے اس امر پر کہ مامور سجدہ حقیقی یعنی زمیں پر ماتھا ٹیکنا تھا۔اس میں لعض الناس کی تاویلات زکیکہ و اقویل باطلہ کو آدم علیہ السلام قبلہ رو تھے حقیقت میں سجدہ اللہ تعالی کو تھا یا مراد اس سے مطلق انحنا (جھکنا)حقیقی سجدہ نہیں بالکل غلط اور مخالف قرآن مجید وتصریحات مفسرین و محدثین ہے صیح بات یہ ہے کہ یہ سجدہ حقیقی و تکریمی تھا تعبدی نہیں تھا اور اللہ تعالی کو اختیار ہے کہ اپنی مخلوق میں سے جس کا سچا ہے جس طرح چاہے جس چیز کے ساتھ چاہے اکرام کرلے کرائے کیونکہ وہ رب العباداور مالک الاعناق ہے۔ملل سابقہ میں سجدہ دو معنی کے لئے مستعل تھا (۱)تعبدی(۲)تکریمی وتوقیری شریعت محمدیہ میں صرف اول یعنی عبادت الہی کے لئے اس کا استعمال مخصوص کردیا گیا مقصد دوم کے لئے اس کا استعمال قطعاممنعوع و داخل شرک قرار دیا گیا چنانچہ مسند احمد میں بروایت عائشہ صدیقہؓ سےمنقول ہے کہ ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان فى نفرمن المهاجرين والانصار فجاءبعير فسجدله فقال اصحابه يارسول الله تسجدلك البهالم والشجر فتحن احق ان نسجدلك فقال اعبدواربكم واكرمو اخاكم ولوكنت امراحداان يسجد لاحد لامرت المراة ان تسجد لزدجهاالحديث كذانى المشكوة فى باب عشرة النسآء یعنی ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ نبی علیہ السلام انصار و مہاجرین کی جماعت میں تشریف فرما تھے کہ اچانک ایک اونٹ نے آکر آپ کو سجدہ کیا ۔اس پر صحابہ کرام بولے یا رسول اللہ جب کہ بہائم و اشجار آپؐ کا احترام و اکرام بذریعہ سجدہ بجالاتے ہیں تو ہم زیادہ مستحق ہیں کہ ادبا و احترام آپؐ کو سجدہ کیا کریں ۔آپؐ نے فرمایا ہماری شریعت میں سجدہ کرنا عبادت ہے۔لہذا اپنے رب کی عبادت کرو۔ اور چونکہ میں بلحاظ بشریت تمہارابھائی ہوں لہذا اپنے بھائی کا احترام کرو یعنی اپنے دل میں میری محبت و عزت رکھو ظاہرا و اباطنا میرے مطیع وفرمانبردار ہو کر رہو۔اگر شریعت محمدیہ میں کسی کے لئے تعظیمی و تکریمی سجدہ جائز ہوتا تو اپنی امت کی عورتوں کو حکم کرتا کہ وہ اپنے خاوندوں کو ادبا و احتراما سجدہ کیا کریں۔حدیث ہذا کے تحت مرقات شرح مشکوۃ مطبوعہ مصر کی جلد ۳ ص ۴۸۰ میں ملا علی قاری حنفی نے لکھا ہے فقال اعبدواربكم اى بتخصسص السجدة فانه غاية العبودية ونهاية العبادة واكرموااخاكم اى عظموة تعظيما يليق له بالمحبة القلبية والاكرام المشتمل على الطاعة الظاهرية والباطنية ۔ اسی طرح سنن ابی داود میں قلیس بن دسعد ؓ سے مروی ہے قال اتيت الحيرة فواينهم يسجدون لموذبان لهم فقلت لرسول الله صلى الله عليه وسلم احق ان يسجدله فاقيت رسول الله صلى الله عليه وسلم فقلت انى اتيت الحيرة فرايتهم يسجدون لمرذبان لهم فانت احق يسجدلك فقال لى ارايت لو مردت بقبرى اكنت تسجد له فقلت لا فقال لا تفعلوالوكنت امر احد اان يسجد احد الامرت النسآء ان يسجدن لازواجهن بما جعل الله لهم عليهن من حق رواه ابوداودورواه احمدعن معاذابن جبلیعنی قیس بن دسعد ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے ملک حیرہ میں جاکر دیکھا کہ وہاں کے لوگ اپنے چودھریوں و نمبرداروں کا ادب واحترام بذریعہ سجدہ بجالاتے ہیں۔پس میں نے رسول اللہ ﷺ سے آکر کہا کہ آپؐ زیادہ مستحق ہیں کہ آپؐ کو ادب و احترام کے طور پر سجدہ کیا جائے آپؐ نے فرمایا کہ میرے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد اگر میری قبر پر تیرا گزر ہو تو کیا تو سجدہ کریگا؟ میں نے کہا نہیں ۔تو آپؐ نے فرمایا کہ اب میری زندگی میں بھی میرا دب و احترام بجالانے کے لئے سجدہ مت کرو اگر ہماری شریعت میں اس قسم کا سجدہ جائز ہوتا تو میں عورتوں کو حکم کرتا کہ وہ اپنے خاوندوں کو سجدہ کیا کریں کیونکہ اللہ نے ان کے ذمہ خاوندوں کا بڑا حق رکھا ہے۔حدیث ہذا کے تحت مشکوۃ کی شرح مرقات و لعات میں تحریر ہے کہ قوله لا تفعلواى الحيوة كذلك لا تسجدواتال الطيتبتى اى سجدللحى الذى لا يموت ولمن ملكه لايزول۔یعنی میرے مرنے کے بعد جیسے میری قبر پر سجدہ جائز نہیں ایسے ہی میری زندگی میں بھی مجھ کو سجدہ مت کرو۔ علامہ طیبی نے کہا ہے کہ حدیث ہذا کا مقصد یہ ہے کہ سجدہ صرف اسی حی القیوم کے لئے سزاوار ہے جس کو کبھی موت نہیں اور جس کے ملک کو کبھی زوال نہیں ۔
خلاصۃ المرام۔یہ کہ جب نبی علیہ السلام نے اپنی ذاات مبارک کے لئے اپنی امت کو سجدہ تعظیمی و تکریمی سے منع کردیا تو پھر وہ کون سا پیر زفقیر ،ولی،بزرگ،امام،مرشد،مزار،خانقاہ ،تھان،نشان ،تعزیہ وغیرہ ہے جس کے لئے یہ سجدہ جائز ہوسکے۔کیا قائلین بالجواز آجکل کے پیروں فقیروں کو نبی علیہ الصلوۃ والسلام سے بڑھ کر سمجھتے ہیں اذا لیس فلیس۔
یہاں تو قائلین بالجواز کی پہلی دلیل کا مدلل جواب تھا۔دوسری دلیل ان کی جانب سے یہ پیش کی جاتی ہے کہ یوسف علیہ السلام کو ان کے والدین اور بھائیوں نے سجدہ کیا تھا ۔لہذا اب بھی جائز ہوا۔ سوواضع بادکہ واقع ہذا سے بھی مستدلین کا استدلال تا رعنکبوت سے زیادہ وقعت نہیں رکھتا۔اس کا اجمالی جواب تو دلیل اول کے جواب کا بیان کیا جاتا ہے۔ سنئے!جب یوسف علیہ السلام نے اپنے صغر سنی میں ہی دس بارہ برس کی عمر میں جمعہ کی رات شب قدر میں خواب دیکھا کہ آسمان سے سورج چاند اور گیارہ ستارے آئے اور میرے آگے سجدہ میں گر پڑے ﴿إِنِّى رَأَيْتُ أَحَدَ عَشَرَ كَوْكَبًا وَٱلشَّمْسَ وَٱلْقَمَرَ رَأَيْتُهُمْ لِى سَـٰجِدِينَ﴾
تواس واقعہ کے تقریبا اسی برس بعد خواب مذکور کی تعبیر ظہوار پزیر ہوئی۔یوسف علیہ السلام مصائب و آلام کے مراحل اور سفارقت ابوین کے سلاسل طے کرنے کے بعد تخت سلطنت و جاگزیں ہوئے تو ان کے والدین و گیا رہ بھائیوں نے آکر سجدہ کیا چنانچہ ارشاد باری ہے ﴿وَرَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى ٱلْعَرْشِ وَخَرُّوا۟ لَهُۥ سُجَّدًا ۖ وَقَالَ يَـٰٓأَبَتِ هَـٰذَا تَأْوِيلُ رُءْيَـٰىَ مِن قَبْلُ قَدْ جَعَلَهَا رَبِّى حَقًّا﴾
اوریہ سجدہ بھی حقیقی تھا۔بعض الناس تاویل (کہ مراد اس سے مطلق ایما،وانحنا،وتواضع یا یوسف علیہ السلام کے امر سلطنت میں داخل ہونا ) بالکل غلط صراحت قرآنی کے سراسر خلاف ہے چنانچہ تفسیر فتح البیان جلد ۵ میں تحت آیت اول مرقوم ہے والمرادحقيقة السجودانه كان التحيةفيما بينهم السجود جلد مذکور کے ص ۷۶ میں تحت آیت ثانی مسطور۔وكان ذلك جآئز انى شريعتهم منزلامنزل التعية وقيل لمم يكن ذلك سجودوهو مجردايمآءوانحنآءوكانت تلك تحيتهم وهو يخالف معنى خرواله سجدافان الخرورفى اللغة المقيد بالسجودولا يكون الا بوضع الوجه على الارض وقيل الضميرنى له زاجع الى الله سبحانه اى وخرو الله سجداوهوبعد جد اوقيل ان الضمير ليوسف واللام للتعليل اى وخروالاجله وفيه ايضا بعدقال عدى بن حاتم فى الاية كانت السجدة تحية من كان قبلكم فاعطاكم الله السلام مكانها ومن قتادة نحوه وعن ابن زيد قال ذلك سجود تشرفة كما سجدت الملئكة تشرفة لادم وليس سجود عبادة وكان ذلك بامرالله لتحقيق روياه۔یعنی یہ سجدہ ان کی شریعت میں بطور سلام و احترام کے جائز تھا۔جو کسی کی شرافت و عزت کے اظہار وادائیگی کے لئے کیا جاتا تھا جیسے فرشتوں نے آدم علیہ السلام کو کیا تھا ۔اب تم کو اللہ تعالی نے اس کے قائم مقام لفظ سلام کا عطا فرمایا ہے یعنی اب سجدہ کرنا جائز نہیں ،صرف السلام علیکم کہدیان کافی ہے۔نیز شاہ عبدالقادرؒ بن شاہ ولی اللہ صاحبؒ اپنی تفسیر موضح القرآن میں رقمطراز ہیں کہ اگلے زمانہ میں سجدہ کرنا تعظیم تھی آپس کی ۔فرشتوں نے آدم علیہ السلام کو کیا تھا۔اس وقت اللہ تعالی نے موقوف کیا وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّهـ هِالایتہ اس وقت پہلے رواج پر چلنا ایسا ہے کہ کوئی بہن سے نکاح کرلے کہ حضرت آدم علیہ السلام کے وقت ہوا ہے(موضح القرآن ومامع البیان ص ۲۱۰ مطبع فاروقی۔
اسی طرح علامہ ابن کثیر جلد ۵ ص ۲۲۲ تحت آیت مذکورہ رقم طراز ہیں وقدكان هذاسالفافى شرآلعهم اذاسلموعلى الكبيريسجدون له ولم يزل هذاجآئزامن لدن ادم الى شريعة عيسى عليه السلام فحرم هذا فى هذاه الملة وجمل السجود محتصا لجناب الوب سبحانه وتعالى هذا مضمون قول قتادة وغيره وفى الحديث ان معا ذا قدم الشام فوجدهم يسجدون لاسا قفتهم فلما سجد لرسول الله صلى الله عليه وسلم فقال ما هذا يا معاذ فقال انى رايتهم يسجدون لا ساقفهم وانت احق ان يسجدلك يا رسول الله فقال لو كنت امراحدان يسجدلاحد لاصرت المراة ان تسجد لزوجهااعظبم حفه عايها وفى حديث اخران سلمن لقى النبى صلى الله عليه وسلم فى بعض طرق المدينة وكان سلمن حديث السن بالاسلام فسجد للنبى صلى الله عليه وسلم فقال لا تسجدلى يا سلمن واسجدللحى الذى لا يموت والغربين ان هذا اكان جائز فى شريهتهم ولهذاخرواله سجدا الایتہ یعنی ان کی شریعت میں یہ عام رواج تھا کہ جب کسی بڑے شخص کو سلام کرتے تو اس کو سجدہ بھی کرتے تھے اور آدم علیہ السلام سے لے کر عیسی علیہ السلام کی شریعت تک برابر یہ طریقہ جائز و مروج رہا ۔ اب شریعت محمدیہ میں اسے حرام کردیا گیا اور ہر قسم کا سجدہ سبحانہ تعالی کی ذاات اقدس کے لئے مخصوص کردیا گیا۔حدیث میں ہے کہ حضرت معاذؓ نے ملک شام سے واپس آکر رسول اللہ ﷺ کو سجدہ کیا تو آپ نے فرمایا اسے معاذ! یہ کیا حرکت ؟ جوابا عرض کیا میں نے ملک شام کے لوگوں کو دیکھا کہ وہ اپنے بڑوں کو ادبا سجدہ کرتے ہیں آپؐ چونکہ ہم مسلمانوں کے بڑے ہیں اور زیادہ مستحق ہیں کہ آپؐ کو سجدہ کیا جائے۔ آپؐ نے فرمایا اگر ہماری شریعت میں یہ سجدہ جائز ہوتا تو میں عورت کو حکم کرتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کیا کرے۔ایک اور حدیث میں میں ہے کہ سلمان فارسی ؓجب نئے نئے مسلمان ہوئے تو اپنی لاعلمی کی وجہ سے نبی علیہ السلام کے آگے سجدہ کر بیٹھے۔ نبی الصلوۃ والسلام نے فورا ہی منع کیا اور فرمایا کہ اے سلمان مجھ کو سجدہ نہ کر ،سجدہ تو اس حی القیوم کو لائق اور زیبا ہے جس کو کبھی فنا نہیں۔الغرض یہ سجدہ ان کی شریعت میں جائز تھا ۔ہماری شریعت میں جائز نہیں ۔امت محمدیہ کہلا کر سجدہ تعظیمی و تکریمی کو غیراللہ کے لئے جائز سمجھنا در حقیقت شریعت محمدیہ کا انکار ہے قائلین بالجواز کو چاہئیے کہ امت محمدیہ نہ کہلائیں بلکہ امت یوسفی یا موسوی یا عیسوی اپنا نام رکھیں نیز سلیمان علیہ السلام نے جب ہدہد جانور کو دعوت اسلامی کا خط دیکر ملکہ بلقیس کی طر بھیجا تو اس نے ملکہ مذکورہ اور اس کی بروقت مراجعت بایں الفاظ مذمت بیان کی کے وہ لوگ بڑے نالائق ،خالق ارض وسماء کو چھوڑ کر سورج کے آگے سجدہ کرتے ہیں ۔شیطان نے ان کے گندے اعمال کو مزین کرکے خدا کے آگے سجدہ کرنے سے ان کو روک دیا ہے ﴿وَجَدتُّهَا وَقَوْمَهَا يَسْجُدُونَ لِلشَّمْسِ مِن دُونِ اللَّـهِ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ فَهُمْ لَا يَهْتَدُونَ أَلَّا يَسْجُدُوا لِلَّـهِ الَّذِي يُخْرِجُ الْخَبْءَ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَيَعْلَمُ مَا تُخْفُونَ وَمَا تُعْلِنُونَ﴾ تفسیرابن کثیر وجامع البیان وفتح الرحمان وغیرہ میں تحت آیت ہذا مرقوم ہے کہ آیت ہذا میں سبیل سے مراد طریق ہے اور وہ خالص کرنا ہے سجدہ کا صرف اللہ تعالی کے لئے ،جامع البیان میں ہے زين لهم اعمالهم لئلا يسجدوا یعنی شیطان نے ان کے اعمال کی تزئین کی اور ان کو رہ سے روکا اس لئے کہ اللہ کو سجدہ نہ کریں ۔شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلویؒ نے یہ معنی کیئے ہیں کہ پس وہ راہ نہیں پاتے سجدہ کرنیکو۔اس آیت سے معلوم ہو کہ سجدہ خاص اللہ تعالی کے لئے چاہئیے۔ اُس کے سواخواہ کوئی ہو سورج ہویا چاند ،نبی ہویاولی،درخت ہویا ستارہ،قبرہویا مکان،اس کیلئے سجدہ وغیرہ تعظیم وتکریم نہ چاہیئے۔ اللہ تعالی کے سوا کسی کو سجدہ کرنا شیطان کی تزیین و ابلیس کی تلبیس ہےاور سجدہ کرنے والے شیطان کے مرد ومحکوم ہیں ۔نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ آج کل کے مشرک ،بدعتیوں قبرپرستوں ،پیر پرستوں ،تعزیہ پرستوں۔غیراللہ کے آگے سجدہ کرنے والوں سے جانورہدہد بدرجہا بہتر رہا ۔اس کو اتنی سمجھ تھی کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی سجدہ کا مستحق نہیں اوران کو اتنی بھی سمجھ نہیں۔سچ ہے ﴿صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لَا يَعْقِلُونَ﴾ یا اگر سمجھ ہے مگر ضدوتعصب کی بنا پر قبول حق سے متنفر اور اتباع ہوئی کے عادی ہیں آہ سچ ہےوالمتعصب وان كان بصره صحيحا فبصيرته عمياء واذانه عن سماء الحق صماء ۔ (فتاوی ستاریہ جلد دوم ص۱۴۸ )
---------------------------------------------------
(1)یعنی سجدہ کرنے کے لائق وہ ہی ہے جس کو پیدا کرنے کی قدرت ہے۔اور جو خود پیدا ہونے میں دوسروں کا محتاج ہو اس کو سجدہ نہ چاہئیے اس آیت سے معلوم ہوا کہ اولیاءاللہ کی قبروں ،مزار خانقاہوں اور تعزیوں کو سجدہ کرنا حرام ہے،یعنی ناواقف و نادان کہتے ہیں کہ فرشتوں نے جو حضرت آدم علیہ السلام کو اور یعقوب علیہ السلام یوسف علیہ السلام کو سجدہ کیا تھا، اسی طرح ہم بھی بزرگوں کو سجدہ کرتے ہیں سو یہ غلط ہے،اس لئے کہ پہلے دینوں میں سجدہ کرنا درست تھا ہمارے دین میں منع ہوگیا جیسے آدم کے وقت سگی بہن سے نکاح درست تھا اور اب حرام ہے ۱۲ ۔امام الہند
(2)میرے محترم مولانا محمد حیات صاحب قصوری وغیرہ (جو پنجاپ کے مشہور وبزرگ عالم ہیں)بھی عبارت پر غور کریں۔کیونکہ ان کا بھی یہی خیال ہے کہ فرشتوں کا آدم علیہ السلام کو سجدہ حقیقی نہ تھا حقیقت میں اللہ کے لئے سجدہ تھا آدم علیہ السلام بجانب قبلہ تھے ذالک۔جیسا کہ جلسہ دیپ سنگھ والا پر مسئلہ ہذا میں عاجز کی مولانا موصوف سے زبانی گفتگو ہوئے تھی حالانکہ یہ خیال انفاظ قرآنی کے علاوہ تصریحات محدثین متقدین کے خلاف سے سلف صالحین نےہرگز یہ تاویل نہیں کی ،محترم مولانا کو چاہئیے کہ مسئلہ میں متقدمین کا صیح مسلک اختیار کریں متاخرین کے قول اقوال کی طرف مائل نہ ہوں كلمته الحكمة ضالة المومن اورولا تنظر واالى من قال وانظر واالى ما قال کو ملحوظ رکھتے ہوئے سلف کی اتباع کریں۔ جو حدیث نبوی الدين النصيحة کے یہ چند کلمات معروض خدمت ہیں۔گو قبول افترز ہے عزو مشرف۔ ورنہ من آنم کہ من دانم کہ من وانم من ہماخاکم کہ ہستم۱۲
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب