سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(03) آیت فلا يظهر على غيبه کا مطلب

  • 6456
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1691

سوال

(03) آیت فلا يظهر على غيبه کا مطلب

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو علم مغیبات نہیں تھا تو   آیت کریمہ ﴿فَلَا يُظْهِرُ‌ عَلَىٰ غَيْبِهِ أَحَدًا إِلَّا مَنِ ارْ‌تَضَىٰ مِن رَّ‌سُولٍ﴾ (جن) کا کیا مطلب ہے اور آیت میں استثناء ﴿ إِلَّا مَنِ ارْ‌تَضَىٰ مِن رَّ‌سُولٍ﴾ متصل یا منقطع؟ اور آیت میں اضافت  عَلَىٰ غَيْبِهِ کونسی اضافت ہے۔عہدی یا استغراقی یا سبنسی اور یہاں غیب سے کیا مراد ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کو بعض مغیبات کا علم بذریعہ وحی تھا نہ کہ کل کا ۔ہاں یہ بات باقی رہی کہ بذریعہ وحی جو علم حاصل ہواس کا نام علم غیب رکھ سکتے ہیں یا نہیں۔سو اس کے متعلق پہلے سوال کے جواب میں تفصیل ہوچکی ہے لیکن یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ اس کا نام علم غیب ہو یا نہ آیت ﴿فَلَا يُظْهِرُ‌ عَلَىٰ غَيْبِهِ أَحَدًا﴾ میں مستثنی  منه میں ﴿مَنِ ارْ‌تَضَىٰ مِن رَّ‌سُولٍ﴾ مستثنی۔ داخل ہے۔پس استثناء متصل ہوگئی۔شاید کہا جائے کہ استثناء متصل کے یہ معنی ہیں۔کہ مستثنی  منه کا حکم یہاں اظہارعلی الغیب (غیب پر مطلع کرنا)کی نفی ہے۔اس سے مستثنی کو خارج کیا ہے۔تو اظہار علی الغیب اس لئے ثابت ہوگیا۔اور اظہار علی الغیب کو غیرپر مطلع ہونا لازم ہے اور غیب پر مطلع ہونا یہی علم غیب ہے۔پس استثناء متصل ہونے کی صورت میں ضروری ہے کہ اس کا نام علم غیب ہو۔اس  کا جواب یہ ہے کہ جو اس کا نام علم غیب نہیں رکھتے ان کے نزدیک صرف علم غیب پر مطلع ہونا علم غیب نہیں بلکہ ان کے نزدیک یہ بھی شرط ہے کہ کسی کے بتلانے سے نہ ہو۔دلیل ان کی یہ آیت کریمہ ہے

﴿قُل لَّا يَعْلَمُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّـهُ﴾ جوپہلے سوال کے جواب میں گزر چکی ہے۔اس میں مطلقاعلم غیب کی نفی غیر سے کردی ہےخواہ رسول ہو یا اور اور خواہ علم کلی ہو یا جزئی۔اس سے ثابت ہوا کہ انبیاءعلیہم السلام کو جو کچھ بذریعہ وحی علم ہوتا ہے اس کا نام علم غیب نہیں۔اس کے علاوہ نور الانوار اصول فقہ حنفیہ وغیرہ میں لکھا ہے۔کہ مستثنی میں کوئی حکم ثابت نہیں ہوتا۔بلکہ وہ سکوت عنہ کے حکم میں ہوتا ہےمستثنی منہ کے حکم کا اس لئے نہ اثبات ہوتا ہےنہ نفی ملاحظہ ہو نورالانوار بہت اقسسام کا بیان ص ۲۴۰ پس یہ کہنا کہ اظہار علی الغیب کی نفی سے مستثنی کو خارج کیا ۔تو اظہار علی الغیب اس کے لئے ثابت ہوگیا۔اصول فقہ حنفیہ کی رو سے غلط ہے اور اپنے اصول سے ناواقفی پر مبنی ہے ہاں شافعیہ کے اصول سے مستثنی میں حکم ثابت ہوتا ہے۔مگر حنفیہ کو یہ مفید نہیں۔پس ان  کو کسی اور دلیل سے ثابت کرنا چاہیئے کہ انبیاء علیہم السلام کو بذریعہ وحی جو کچھ علم ہوتا ہے۔اس کو علم غیب کہتے ہیں۔یہ تفصیل استثناء متصل کی بناء پر ہے۔اور اگر منقطع نتائی جائے تو پھر معاملہ اور صاف ہوجاتا ہے۔کیونکہ استثناء منقطع میں مستثنی منہ میں مستثنی دائل نہیں ہوتا۔تو بذریعہ وحی حاصل شدہ علم کا نام علم غیب کس طرح ثابت ہوگا۔اگر کہا جائے استثناء میں اصل متصل ہےنہ منقطع پس اس کو استثناء منقطع بنانا ٹھیک  نہیں ۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ب شک استثناء متصل اصل ہے مگر یہاں استثناء منقطع کا قرنیہ موجود ہے وہ یہ کہ اس کے بعد کی عبارت

﴿فَإِنَّهُ يَسْلُكُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ رَ‌صَدًا﴾ میں ف کو بعض سبلیہ بتاتےہیں ۔لیکن سببیت کے معنی واضع نہیں۔ہاں من ارتضی کا من شرطیہ یا موصولہ متفمن معنی شرط بنایا جائےاور ف جزائیہ تو یہ بالکل ٹھیک ہے اور اس کی مثال قرآن مضید میں  موجود ہے۔چنانچہ ارشاد ہے ﴿لَّسْتَ عَلَيْهِم بِمُصَيْطِرٍ‌ إِلَّا مَن تَوَلَّىٰ وَكَفَرَ‌ فَيُعَذِّبُهُ اللَّـهُ الْعَذَابَ الْأَكْبَرَ‌﴾ ۔ اے پیغمیبر تو ان  پر داروغہ نہیں ۔لیکن جو شخص پھر جائے اور کافر ہوجائے۔پس خدا اس کو بہت بڑا عذاب دے گااس آیت میں الاستثناء منقطع ہے اور آیت ﴿إِلَّا مَنِ ارْ‌تَضَىٰ﴾ بھی اس قسم کی ہے۔پس اس کو استثناء منقطع بنانا ہی ٹھیک ہے رہا ﴿عَلَىٰ غَيْبِهِ﴾ کی اضافت کے متعلق سوال کہ یہ کیسی ہے سواس کا جواب  بھی نمبر اول میں نکل سکتا ہے۔کیونکہ جب یہ ثابت ہوگیا۔کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بعض مغیبات کا علم بذریعہ وحی تھا تو معلوم ہوا کہ یہ اضافت جنس ہے کیونکہ جنس ایک فرد میں بھی ہوسکتی ہے اور زیادہ میں بھی اور  عہدذہنی بھی ہوسکتی ہے عہد خارجی اور  استغراقی نہیں ہوسکتی،استغراقی اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کل میغیات کا علم نہیں اور عہد خارجی اس لئے کہ رسول کو کسی معین شے کی وحی نہیں ہوتی۔بلکہ حسب ضرورت کبھی کسی  شے کی وحی ہوتی ہےکبھی کسی شے کی۔ ہاں بایں معنی عہد خارجی ہوسکتی ہے کہ غیب کی دو قسمیں کردی جاتیں ایک وہ جس کو  مخلوق میں سے بھی کوئی جانتا ہو جیسے ہر ایک کا مانی الضمیر غیب ہے۔مگر وہ خود جانتا ہے(دوم)مخلوق میں سے بغیر اطلاع خدا وندی کوئی نہین جانتا اور اضافت سے اس خاص کی طرف اشارہ ہو پس اس معنی سے یہ اضافت عہد خارجی ہوسکتی ہے۔ (فتوی روپڑی جلد اول ص ۱۱۱ ۱۱۲ )

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمائے حدیث

جلد 10 ص 14

محدث فتویٰ

تبصرے