سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(02) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو علم مطلق تھا۔ یا مطلق علم؟

  • 6455
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 2504

سوال

(02) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو علم مطلق تھا۔ یا مطلق علم؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو علم مطلق تھا۔ یا مطلق علم ! نیز آپ کا علم حضوری تھا یا حصولی!


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سوال اول میں گزر چکا ہے۔ کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح سے علم نہیں ۔کہ خدا نے آپ کی طبیعت ہر شے کے لئے شیشہ بنادی۔اور جیسے خدا پر ہر شے روشن ہے ۔اسی طرح آپ پر بھی روشن ہو بلکہ آپ کا علم بذریعہ وحی ہے۔جب وحی ہوتی ہے۔تو آپ کو علم ہوتا ہے۔اگر وحی نہ ہو تو علم نہیں ہوتا۔مثلا قیامت کا آپ کو علم نہیں کہ  کب ہو گی۔اس طرح اور کئی باتوں کا علم نہیں۔چونچہ نمبر اول میں بیان ہوچکا ہے۔پس آپ کو متطلق علم ہے۔ یعنی اشیاء کا علم ہے۔ نہ علم مطلق یعنی علم کلی۔

منطقی طریق اگر منطقی طریق سے سمجھنا چاہیں۔تو یوں سمجھے کہ کلی کے تین مرتبے ہیں۔(۱) بشرط شئی (۲) بشرط لاشی (۳) لا بشرط شئی۔پہلا مرتبہ خصوص کا ہے۔دوسرا عموم کا تیسرا جامع بین الخصوص  و العموم ہے۔پہلے کی مثال حیوان بشرط ناطق دوسرے کی مثال حیوان بشرط لاناطق تیسرے کی مثال مطلق حیوان جس کے ساتھ ان دونوں شرطوں سے کوئی ہیں۔اس تیسرے پر خصوص کے احکام بھی جاری ہوتے ہیں۔اور عموم کے بھی مثلا زید مرجائے۔تو کہہ سکتے ہیں کہ حیوان مر گیااگر حیوان کے تمام افراد انسان وغیرہ مرجائیں تو بھی کہہ سکتے ہیں کہ حیوان مرگیا۔یہی وجہ ہے۔ کہ یہ مرتبہ موہم اجتماع نقیفین کو ہے۔مثلا کہہ سکتے ہیں کہ حیوان زندہ بھی ہے اور نہیں بھی زندہ اس لئے کہ زید زندہ ہےاور نہیں اس لئے کہ عمرو مرگیا ہے۔کیونکہ جب خصوص عموم دونوں کے احکام اس میں جاری ہوتے ہیں ۔تو ایک فرد  کا ایک حکم اور دوسرے کا دوسرا حکم دونوں اس پر جاری ہوں گے اور یہی وجہ ہے  کہ جہاں محض عموم کا محل ہوتا ہے۔بہت علماء اس کااعتبار نہیں کرتے بلکہ بشرط شئی کو لیتے ہیں۔مثلا جب کسی شے کی تعریف یا تقسیم کرنی ہو۔تو معروف کو یا مقسم کو کس  مرتبہ میں اعتبار کریں گے!میر زاہد وغیرہ کہتے ہیں ۔کہ بشرط لا (دوسرا مرتبہ)معتبر ہوگا۔اور قاضی مبارک وغیرہ کہتے ہیں۔بشرط لا تجرد کا مرتبہ ہے۔جو قضیہ طبعیہ کا  موضو ع ہے اور قضیہ طبعیہ میں حکم افراد کی طرف منتقل نہیں ہوتا۔اس لئے تقسیم وغیرہ کے موقع  پر بشرط لا معتبر نہیں۔بلکہ یہی تیسرا مرتبہ لابشرط شئی معتبر ہوگا۔اور موضوع علم جس کے عوارض ذاتیہ سے علم میں بحث ہوتی ہے۔اس میں بھی یہی نزاع ہے بلکہ ہر عمعوم کے محل میں یہی جھگڑا ہے۔میری تحقیق اس میں کچھ اور ہے۔تفصیل کی یہاں گنجائش نہیں خلاصہ اس کا یہ ہے ۔کہ فریقین کی نزاع لفظی ہے۔جیسے کلی کے حصے فرد۔شخص میں فرق کرتے ہیں۔کہ فرد میں قید تقیید دونوں داخل ہوتی ہیں۔جیسے مطلق مقید اور حصہ میں صرف  تقیید داخل ہوتی ہے۔جیسے ضرب زید اور شخص میں دونوں خارج ہوتی ہیں۔جیسے زید اس طرح بشرط لائیں اور اگر قید عنوان میں داخل ہو۔اور معنوں سے خارج ہو تو اس صورت میں عموم کے موقع پر بشرط لا معتبر ہونا چاہیئے۔کیونکہ عموم کے موقع پر خصوصی احکام سے کوئی تعلق نہیں۔کہ لابشرط شے کی ضرورت ہو۔بلکہ صرف عمومی احکام کے افراد کی طرف منتقل ہونے کی ضرورت ہے۔سو یہ اس صورت میں حاصل ہےاگر لابشرط شے کا اعتبار کریں۔تو اس میں دلالت تصنمنی کا شبہ ہوتا ہے۔کیونکہ لا بشرط شے خصوصی احکام کا بھی محتمل ہے۔جو عموم کے موقع پر معتبر نہیں اور اگر بشرط لا میں قید عنوان معنوں دونوں میں داخل ہو۔تو یہ تجرد کا مرتبہ ہے تو اس صورت میں عموم کے موقعہ پر لا بشرط شئی معتبر ہونا چاہیئے۔کیونکہ اس وقت بشرط لا کے احکام افراد کی طرف منتقل نہیں ہوں گے۔جیسے الحیوان جنس والا نسان نوع وغیرہ۔خیر فریقین کی نزاع کا ذکر تو یہاں بالتبع تھا۔ہمار اصل مقصد کلی کے تین مراتب کی توضیع ہے۔سو اس تفصیل سے کافی ہوچکی ہے۔اب علم کو لیجئے ۔یہ بھی ایک کلی ہے اس کے لئے بھی یہی تین مرتبے ہیں۔بشرط شئی تو ایک معین شے کا علم ہے۔جیسے قیامت کا علم یا کسی کی موت کا علم وغیرہ اور لابشرط شئی نفس علم جس میں احتمال ہے۔کہ بعض کا علم ہو یا کلی کا ہو گویا قضیہ مہملہ کا موضوع ہےجو جزئیہ کی قوت میں ہے کیونکہ بعض ہر صورت میں ضروری ہیں۔اگر بعض ہوئے تو ظاہر ہے اگر کلی ہوئے ۔تو اس کے ضمن میں بعض آگئے یہی مطلق الشئی ہے اور بشرط کل اشیاء کا علم ہے۔جو قضیہ کلیہ کا موضوع ہے۔ اوپر کی تفصیل سے معلوم ہوچکا ہے کہ۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بعض اشیاء کا علم ہے ۔نہ کل کاپس آپ کا علم مطلق العلم تھا۔نہ العلم المطلق ہاں یہاں یہ شبہ ہوتا ہے۔کہ ہمارا علم بھی مطلق العلم ہے تو پھر آپ میں اور ہم میں کیا فرق ہوااس کا جواب یہ ہے۔چونکہ مطلق العلم میں چونکہ علم بالوحی بھی داخل ہے۔اس لئے آپ ہم میں فرق ہوگیا۔چونکہ ارشاد ہے۔

﴿قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ‌ مِّثْلُكُمْ يُوحَىٰ إِلَيَّ﴾ (پ ۱۶ ع 3 ) ترجمہ۔کہہ دے میں تمھارے جیسا بشر ہوں۔صرف میری طرف وحی ہوتی ہے۔اس آیت سے حضوری اورر حصولی کا سوال بھی حل ہوگیا۔کیونکہ جب آپ ہماری طرح بشر ہیں ۔اور ہماراعلم اپنے نفس اور اس کے صفات سے حضوری ہے اور دیگر اشیاء سے حصولی ہے۔تو آپ کا بھی اس طرح ہوگا۔صرف اتنی بات ہے ۔کہ باطن کی زیادہ صفائی ہونے کی وجہ سے آپ کو بذریعہ وحی بھی علم ہوتا تھا  ہمیں نہیں ہوتا۔مگر زیادہ صفائی انسان کو بشریت سے خارج نہیں کرتی۔چنانچہ آیت مذکورہ اس کی شاہد عدل ہے۔اور عقلا بھی یہی بات صیح ہے۔کیونکہ زیادہ صفائی کے صرف یہ معنی ہیں۔کہ خواہش نفسانیہ پر قوت عقلیہ کا پورا تسلط ہو۔اگر کسی وقت خواہش نفسانیہ سر اٹھائے۔ تو اس کو دبا سکے۔پھر اس کے مختلف مراتب ہیں۔اور انبیاء علیہ السلام اس کے اعلی مرتبہ پر ہوتے ہیں۔پھر انبیاء علیہ السلام میں بھی تفاوت ہے۔آنحضورؑ سب سے فوق ہیں۔ہاں اگر زیادتی صفائی کا یہ معنی ہوتا۔کہ خواہش نفسانیہ کا وجود ہی نہ ہونہ دیگر لوازم بشریہ ہوں جیسے فرشتوں کا حال ہےتو پھر بشریت کی نفی ممکن تھی۔مگر یہ آیت مذکورہ کے خلاف ہے اور واقعات کے بھی خلاف ہے مثلا آپ میں بھول چوک تھی۔آپ کھاتے پیتے بھی تھے۔آپ نے شادیاں بھی کیں۔آدم  کی اولاد تھے۔آپ کے میں باپ بھی تھے اور بدستور بشریت پیدا ہوئے۔اولاد بھی جنی جو نسلا بعد نسل بدستور بشریت پڑھی۔جو اس وقت ہمارے سامنے پوری بشریت کے موجود ہے اورہمارے ان کے آپس میں پوری بشریت کے تعلقات ہیں۔بایں ہمہ اگر کوئی بھی کہتا جائے کہ وہ بشر نہیں تو اس کی مثال اس کوئے کی ہے کہ جو کہتا جائے کہ مین کالا نہیں ۔سچ ہے۔

پھر سےزمانہ پھر سے آسماں،ہوا پھر جائے

بتوں سے ہم نہ پھریں ہم سے گو خدا پھر جائے

نوٹ۔علم حضوری اسے کہتے ہیں۔ کہ جس شئے کا علم ہو۔وہ خود قوت مدرکہ کے سامنے ہواور حصولی اسے کہتے ہیں کہ جس کا علم وہ خود سامنے نہیں۔بلکہ اس کی صورت یا اس کا عکس قوت مدرکہ میں حاصل ہو جیسے شیشہ میں زید کا عکس ہوتا ہے۔ فتاوی روپڑی جلد اول ص ۲۰۸،۲۰۹

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمائے حدیث

جلد 10 ص 11-14

محدث فتویٰ

تبصرے