السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
آنحضرت ﷺ کوعلم غیب ذاتی تھا یا وہبی!اور علم غیب کی جامع مانع تعریف کیا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
غیب بمعنی منیب ہے۔جیسے خلق بمعنی مخلوق اس کے معنی پوشیدہ شئے کے ہیں۔اس کے علم کی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ اس کا علم اسباب عادیہ سے ہو۔ دوم یہ کہ اسباب گیر عادیہ سے ہو۔ان دونوں کا ہم الگ الگ بیان کرتے ہیں۔اس سے علم غیب کی تعریف بھی واضع ہوجائے گی۔اور اس کے ضمن میں ذاتی وہبی کا مسئلہ بھی حل ہوجائے گا۔ان شاءاللہ۔
اول ذکر علم غیب نہیں۔ دلیل اس کی یہ ہے۔کہ اللہ تعالی فرماتا ہے﴿قُل لَّا يَعْلَمُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّـهُ(پ ۳۰ ع۱) کہہ دے آسمان و زمین میں غیب کو خدا کے سواکوئی نہیں جانتا اس آیت میں فرمایا ہے۔کہ پوشیدہ شئے کو صرف خدا ہی جانتا ہے۔حالانکہ بہت سی پوشیدہ اشیاء ہیں۔کہ ان کو خدا کے سوا دوسرے بھی جانتے ہیں۔مثلا کسی کے پیٹھ کے پیچھے کوئی شئے پڑی ہو۔تو وہ اس سے پوشیدہ ہے۔اگر وہ اس کو مڑ کردیکھ لے۔تو اس کو اس کا علم ہوجاتا ہے۔اس طرح کان میں سونا چاندی وغیرہ پوشیدہ ہوتا ہے۔جب انسان کان کھودتا ہے۔تو اس کو اس کا علم ہوجاتا ہے۔تو اگر پوشیدہ شئے کا علم مطلقا علم غیب ہوتو پھر یہ بھی علم غیب ہونا چاہئے۔حالانکہ مندرجہ بالاآیت صاف ہے کہ پوشیدہ کا علم صرف خدا کو ہےاس سے معلوم ہوا کہ اگر پوشیدہ کا علم ایسے اسباب سے ہے۔جو عام عادت کے موافق ہیں ۔تو اس کو شرعا علم غیب نہیں کہتے۔
﴿أَدْرِي أَقَرِيبٌ مَّا تُوعَدُونَ أَمْ يَجْعَلُ لَهُ رَبِّي أَمَدًا ﴿٢٥﴾ عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَىٰ غَيْبِهِ أَحَدًا ﴿٢٦﴾ إِلَّا مَنِ ارْتَضَىٰ مِن رَّسُولٍ فَإِنَّهُ يَسْلُكُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ رَصَدًا ﴿٢٧﴾ لِّيَعْلَمَ أَن قَدْ أَبْلَغُوا رِسَالَاتِ رَبِّهِمْ وَأَحَاطَ بِمَا لَدَيْهِمْ وَأَحْصَىٰ كُلَّ شَيْءٍ عَدَدًا ﴿٢٨﴾
(پارہ ۲۹ رکوع ۱۱ ) کہہ دے کہ میں نہیں جانتا کہ جس عذاب کا تم وعدہ دیئے جاتے ہووہ قریب ہے یا خدا اس کےلئے کوئی مدت کردے۔وہ عالم الغیب ہے۔پس اپنے غیب پرکسی کو مطلع نہیں کرتامگر جس کو پسند کرے رسول سے پس بے شک خدا تعالی اس کے آگے پیچھے پہرے دار چلاتا ہےتاکہ جان لے کہ انہوں نے اپنے رب کے پیغامات پہنچادیئے۔اور خدا نے جو کچھ اس کے پاس ہے گھیرلیا ہے اورگنتی کی رو سے ہر شئے پر قابو پالیا ہے۔
یہ آیت بظاہر پہلی آیت کے خلاف ہے کیونکہ اس میں ہے کہ علم غیب سوا خدا کے کسی کو نہیں اور یہی آیت سے ثابت ہوتا ہے۔کہ اللہ تعالی انبیاء علیہ السلام کو بذریعہ وحی غیب پر مطلع کردیتا ہے(دونوں آیتوں میں موافقت بریلوی فرقہ کہتا ہے کہ پہلی آیت میں علم غیب سے مراد ذاتی ہے۔یعنی بغیر کسی کے دینے کے ہے۔اور دوسری آیت میں وہبی ہے یعنی خدا کے دینے سے ہے۔ہم کہتے ہیں ۔وہبی سے کیا مراد ہے اگر یہ مراد ہے۔ کہ جیسے ظاہری آنکھیں ہیں۔اس طرح رسول کے لئے خدا تعالی باطنی آنکھیںکردیتا ہے جس سے ہمیشہ کے لئے رسول پر کلی غیب ظاہر ہوجاتا ہے۔جیسے خدا تعالی کے لئے سب کچھ ظاہرہے۔تو یہ اس طرح پہلی آیت کے خلاف ہے کیونکہ تفسیر خازن وغیرہ میں اس آیت کے تحت لکھا ہے
نزلت فى المشركين حين سالوارسول الله صلى الله عليه وعليه وسلمٍ هن وقت الساعت (خازن جلد۳ ص ۴۱۷ )
یہ آیت مشرکوں کے بارے میں اتری ہے جب کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قیامت کے وقت سے سوال کیا۔اس شان نزول سے معلوم ہوا۔کہ آپ کو قیامت کے وقت کا علم نہ تھا۔وہبی اور نہ غیر وہبی۔کیونکہ سوال داہبی ذاتی نہ تھا۔بلکہ ان کا سوال مطلقا تھا۔جس کے جواب میں کہا گیا ،کہ خدا کے سواکسی کو غیب کا علم نہیں اور اس کی تائید حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کی حدیث سے بھی ہوتا ہے۔
من زعم انه صلى الله عليه وسلم يخبرالناس بمايكون فى غد فقد اعظم على الله الفريته والله يقول قل لايعلم الايته (تفسیر فتح البیان ج ۷ ص ۸۱ بحوالہ بخاری مسلم وغیرہ)جو شخص یہ کہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کل کی بات کی خبر دیتے ہیں۔اس نے خدا پر بڑا افترا کیا۔اللہ تعالی فرماتا ہے۔ ﴿قُل لَّا يَعْلَمُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّـهُ﴾
یعنی آسمان و زمین میں خدا کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا
ظاہر ہے کہ کل کی بات جاننے یا خبر دینے کے لئے وہبی علم کافی ہے۔جس سے سب کچھ منکشف ہوجائے ذاتی کی ضرورت نہیں ۔ پس اس پہلی آیت سے معلوم ہوا۔کہ اس قسم کا دھبی علم مراد لینا صیح نہیں ۔بلکہ یہ دوسری آیت کے بھی خلاف ہے۔کیونکہ دوسری آیت میں عذاب قریب یا دور ہونے سے بے خبری کاذکر ہے نیز وحی کا ذکر ہے۔جس کے ساتھ پہردار ہوتے ہیں۔گویا ویسے آپ بے خبرہیں۔جب کسی بات کی بابت وحی ہوجاتی ہےتو علم ہوجاتا ہے ورنہ نہیں۔اس کے علاوہ اور بہت سی آیات و واقعات کے خلاف ہے۔چنانچہ ارشاد ہے
اول۔ ﴿وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مَرَدُوا عَلَى النِّفَاقِ لَا تَعْلَمُهُمْ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ﴾
(پ ۱۱ ع۲ ) کئی لوگ مدینے والوں میں نفاق پر اڑے ہوئے ہیں، آپ ان کو نہیں جانتے، ان کو ہم جانتے ہیں
دوم۔ ﴿وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ﴾
(پ۱۱ ع ۳ ) اگر میں غیب جانتا تو بہت سی بھلائی جمع کرلیتا اور مجھے کوئی برائی نہ پہنچتی۔
سوم۔ ﴿عَفَا اللَّـهُ عَنكَ لِمَ أَذِنتَ لَهُمْ حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَتَعْلَمَ الْكَاذِبِينَ﴾ (پ۱۰ ع۱۳ )
خدا نے تجھے معاف کردیا ۔تونے اذن کیوں دیا،یہاں تک کے تیرے لئے سچے ظاہر ہوجاتے اورجھوٹوں کو توجان لیتا۔
اس قسم کی آیت و واقعات بہت ہیں۔جیسے حضرت عائشہ ؓپر تہمت لگنے کا واقعہ جو سورۃ نور میں مذکور ہے۔اور شہد وغیرہ کا واقعہ جو سورۃ تحریم میں موجود ہے یہ سب اس بات کی واضع دلیل ہیں ۔ کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اس قسم کا وہبی علم نہیں۔کہ خدا نے اس کے باطن کو اس طرح بنادیا ہو۔کہ جیسے خداپر کوئی شئے پوشیدہ نہیں۔ اس پر بھی پوشیدہ نہ ہو۔اور اگر وہبی سے مراد یہ ہے۔کہ خدا تعالی بذریعہ وحی رسول کو مطلع کردیتا ہے۔تو یہ بے شک دوسری آیت کا مطلب ہے۔لیکن اس صورت میں رسول پر دوسرے انسانوں کی طرح غیب پوشیدہ ہوگا۔ہاں جس بات کے متعلق وحی ہوجائے اس کا علم ہوگا۔اگر وحی نہ ہو تو کچھ بھی نہیں۔اس قسم کا وہبی سب مانتے ہیں۔اہل حدیث کو اس سے انکار ہے نہ کسی اور کو پس اس میں نزاع ہی فضول ہے۔ہاں نام کا جھگڑا ہو۔کہ اس کا نام علم غیب رکھتا ہے اور کوئی نہیں رکھتا ۔تو یہ الگ بات ہے۔یہ کسی گنتی میں نہیں ۔کیونکہ یہ محض لفظی اختلاف ہے۔مطلب میں سب متفق ہیں پس اس کو اہمیت نہ دینی چاہیئے۔خلاصہ یہ کہ خدا تعالی کا علم ذاتی ہےاور انبیاء کو جو کچھ معلوم ہوتا ہے۔خواہ اس کا نام کوئی علم غیب وہبی رکھے یا علم غیب سے خارج کرکے صرف وحی سے موسوم کرے اگر اس کو علم غیب وہبی کا جائےتو اس صورت میں علم غیب کی تعریف ہوگی۔پوشیدہ شئےکا علم جو بذریعہ اسباب عادیہ نہ ہواور اگر اس کو علم غیب وہبی نہ کہا جائے تو پھر علم غیب کی تعریف مذکورہ میں اتنا اضافہ کرنا پڑے گا کہ کسی کے بتلانے سے بھی نہ ہو خواہ بتلانے والا وحی ہو یا غیر وحی۔بعض لوگ علم غیب کی تعریف کرتے ہیں ۔کہ پوشیدہ شئے کا علم جو بذریعہ حسن و عقل نہ ہو۔یہ تعریف اگر چہ صیح ہوسکتی ہےمگر جو لوگ بذریعہ وحی حاصل ہونےوالے کو بھی علم غیب کہتے ہیں ۔ان کے نزدیک صیح نہیں۔کیونکہ وحی کے ذریعے جو کچھ آتا ہے اس کا طریق اکثر حس (سماع) وغیرہ ہے۔عبداللہ امرتسری روپڑی،فتاوی اہلحدیث روپڑی،جلد اول ص ۲۰۵
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب