سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(651) احکام قربانی کے کیا کیا ہیں۔ تفصیلا ً بیان فرمادیں۔

  • 6449
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 955

سوال

(651) احکام قربانی کے کیا کیا ہیں۔ تفصیلا ً بیان فرمادیں۔

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

احکام قربانی کے کیا کیا ہیں۔ تفصیلا ً بیان فرمادیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اضیحہ یعنی قربانی میں اختلاف ہے کہ واجب ہے۔ یا سنت موکدہ مگر مذہب صحیح ومحقق یہی ہے کہ سنت موکدہ ہے۔  اور یہی مذہب ہے جمہور کا اور بخاری نے ایک باب سنت کا اس کی منقعد کیا ہے۔  اور یہی دلائل اس کی سنیت پرہیں۔ بخوف تطویل اختصار کیا ۔ واجب نہیں ہے کیونکہ وجوب پرکوئی دلیل نہیں ہے۔ اور نہ کسی صحابہ کرام سے وجوب منقول ہے۔ اور حدیث جو ابن ماجہ میں ہے۔  کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ کہ جو شخص باوجود قدرت کے قربانی نہ کرے۔ وہ ہمارے مصلےٰ میں نہ حاضر ہو۔

"عن ابي هريرة ان رسول الله صلي الله عليه وسلم قال  من كان له سعة ولم يضح فلا يقر بن مصلانا "(رواه ابن ماجه)

اول تو اس کے  مرفوع ہونے میں اختلاف ہے۔ اصوب یہی ہے کہ موقوف ہے۔ دوسرے اس سے وجوب نہیں نکلتا بلکہ تاکید نکلتی ہے۔ جیسا کہ کچے پیاز وغیرہ کے کھانے میں فرمایا کہ مسجد میں کھا کر نہ آئو۔ حالانکہ  بالاتفاق اس سے حرمت نہیں نکلتی۔ اسی واسطے حضرت سے حلت ثابت ہے ۔ کما لا یخفی علی من لہ فہم سلیم۔ اورسنیت دلائل سے ثابت ہے۔ جن کی  تفصیل یہاں اختصار کہ نہیں کی گئی۔

"قال الحافظ ابن حجر في فتح الباري وكانه ترجم بالسنة اشارة الي مخالفة من قال بوجوبها قال ابن حزم لايصح عن احد من الصحابة انها واجبة وصح انها غير واجبة عن الجمهور وعن محمد بن الحسن هي سنة غير مرخصة في تركها وقال الطحاوي وبه فاخذو ليس في الاثار ما يدل علي وجوبها انتهي واقرب ما يتمسك به للوجوب حديث ابي هريرة رفعة م وجد معة فلم يضح فللا يقوبن مصلانا خرجه ابن ماجة واحمد ورجاله ثقات لاكن اختلف في رفعه ووققه والموقوف اشبه بالصواب قاله الطحاوي وغيره ومع ذلك فليس صريحا  في الايجاب انتهي ملخصا"

اور اس کے لئے صاحب نصاب زکواۃ ہونا بھی شرط نہیں۔ بلکہ صرف استطاعت یعنی قدرت ہونی چاہیے۔ جیسا کہ حدیث ابی ہریرہ مذکور میں ہے۔  کما لا یخفیٰ۔ اوراقامت یعنی مسافر نہ ہونا بھی شرط نہیں ہے۔ کیونکہ اس پربھی کوئی دلیل نہیں ہے۔ بلکہ دلیل سے اس کا خلاف ثابت ہے۔ کہ بخاری نے مسافرکی قربانی کرنے کا ایک باب منعقد کیا ہے۔ اور  اس میں حدیث لایا ہے کہ آپﷺ نے سفر مکہ میں قربانی کی۔

"باب الاضيحة المسافر والنساء فيه اشارة الي خلاف من قال ان المسافر لا اضحية عليه انتهي ما في" (فتح الباري)

اس سے صراحتا مستفاد ہوتاہے۔  کہ اقامت شرط نہیں ہے۔ کمالایخفیٰ۔ اور مذہب حنفی میں واجب ہے۔ صاحب نصاب وزکواۃ پر جیسا کہ صدقہ فطر میں بشرط اس کے کہ مسافر نہ ہو۔

 "الاضيحة واجبة عل كل مسلم مقيم موسر في يوم الاضحي علي نفسه وعن ولده واصفار والنساء لما روينا من اشتراط السعة ومقداره ما يجب به صدقة الفطر انتهي ما في الهداية ملخصا بقدر الحاجة"

اور جو شخص قربانی کرنے کا ارادہ رکھے۔ اس کو چاہیے کہ جب سے زی الحجہ کا چاند دیکھے تب سےقربانی تک سروریش کا بال وناخن وغیرہ نہ لے۔

"عن ام سلمة ان رسول الله صلي الله عليه وسلم قال اذارايتم هلال ذي الحجة واراده احدكم ان يضحي فليمسك عن شعره واظفا"(رواه  الجماعة الا البخاري كذافي منتقي الاخبار)

اور وقت اس کا بعد نماز کے ہے۔ قبل نماز کے جائز نہیں۔ اور کوئی اگر قبل نماز کے کرے گا تو صحیح نہ ہوگا۔ دوسرا کرنا ہوگا کیونکہ بخاری میں روایت ہے کہ حضرت ﷺنے فرمایا کہ سنت یہ ہے کہ پہلے نماز پڑھے پھر قربانی کرے۔ اور جس نے پہلے نماز کے قربانی کی اس کی قربانی صحیح نہیں ہوئی وہ اس کے کھانے کاگوشت ہے۔ دوسری قربانی کرے۔

"عن البراء قال قال النبي صلي االله عليه وسلم ان اول ما نبدا في يومنا هذا ان فصلي ثم فرجع فتحر من فعله نقد اصاب سنتنا ومن ذبح قبل فانما هو لحم فدمه لاهله ليسمن النسك في شيئ" (الحديث رواه البخاري)

 اور حنفی مذہب میں بھی یہی وقت ہے مگر دیہاتی(1) لوگوں کےلئے وقت

"الاضحية يدخل بطلوع الفجر من يوم النحر الا انه لايجوز لا هل الامصار الذبح حتي يصلي الامام العيد فااما اهل السواد فيذبحون بعد الفجر كذا في الهداية"

ور سن بکری کا ایک سال یعنی ایک سال پورا اوردوسرا شروع اور گائے اور بھینس کے دو سال پورے اورتیسرا شروع اوراونٹ کا پانچ سال اورچھٹا شروع ہونا چاہیے۔ اور بھیڑ ایک سال سے کم کا بھی جائز  ہے۔  بشرط یہ ہے کہ خوب موٹا اور تازہ ہو ہوکر سال بھر کا معلوم ہوتا ہو۔ اس لئے کہ حدیث میں آیا ہے کہ سال سے کم کی قربانی نہ کرو۔ اور ضرورت کے وقت بھیڑ کا جذعہ کرلو۔

"عن جابر قال قال رسول الله صلي الله عليه وسلم لايجوز الا مسنة الاان يعسر علينكم فتذبحوا جذعة من الضان" (رواه الجماعة الا  البخاري كذا في منتقي الخيار)

مسنہ ہر جانور میں سے ثنی کو کہتے ہیں۔  اور ثنی کہتے ہیں بکری میں سے جو ایک سال کا ہو۔ اور دوسرا شروع ہو اور گائے بھینس میں جو دوسال کا ہو اور تیسرا شروع اوراونٹ کا جو پانچ سال کا ہو چھٹا شروع ہو۔

اور شرط یہ ہے کہ جانور قربانی کا اتنے عیوب سے خالی ہو۔ اول یہ کہ سینگ اس کا آدھا یا آدھے سے زیادہ نہ کٹا ہوا ہو۔ دوسرے اسی طرح کان نہ کٹا ہو۔ تیسرے کا نا یا اندھا نہ ہو۔ چوتھے یہ کہ ظاہراً لنگڑا نہ ہو۔ پانچویں یہ کہ  بہت بیمار نہ ہو۔ چھٹے یہ کہ اتنا بوڑھا نہ ہوکہ اس کی ہڈی کاگودانہ باقی رہا ہو ساتویں یہ کہ اس کا کان نہ پھٹا ہو۔

اورحنفی مذہب میں بھی ان سب عیوب سےخالی ہونا چاہیے اور سوا انکے دُم بھی اس کی نصف سے زیادہ نہ کٹی ہومگر یہ کہ سینگ کٹے ہوئے ہون یا کان پھٹا یہ حنفی مذہب میں عیب نہیں۔ اور کان  آدھے سے زیادہ کٹا ہو تب عیب ہے۔ ورنہ نہیں۔

"ولا يضحي بالعمياء والعوراء والعرجا ء التي لا تمشي الا النسك ولا الجحفاء ولا تجزي مقطوعة الاذن والذنب ولا التي ذهب اكثر اذنها وذنبها وان بقي اكثر الاذن والذنب جاز ويجوز ان يضحي الجماء انتهي ما في الهداية"

 اور یہ عیب جب معتبر ہیں۔  کہ وقت خریدنے کے موجود ہوں۔ اور جب وقت خریدنے ک ے جمیع عیوب مذکورہ سے مبرا تھا۔ اور بہ نیت قربانی کے جمیع عیوب سے  سے سالم خرید لیا۔ تب کوئی نیا عیب حادث ہوا تو اس کی قربانی صحیح ہے۔ جیسا کہ حدیث میں آیا ہے۔

"وعن ابي سعيد قال اشتريت كبشا اضحي به فعدي الذئب فاخذ الا ليلة قال فسالت النبي صلي الله عليه وسلم فقال ضح به" (رواه احمد وهو دليل علي ان العيب الحادث بعد التعين لا يضر اتتهي كذا في المتتقي)

اور حنفی مذہب میں امیر تو دوسری بدل لے اور غریب کےلئے وہی صحیح اور کافی ہے۔

"وهذ الذي ذكرنا اذا كانت هذه لعيوب قائمة وقت الشراء ولواشتراها سليمة ثم تصيب بعيب مانع ان كان غنيا عليه غيره وان كا ن  فقير اتجزية هذه لان الوجوب علي الغني باشرع ابتداء لا بالشراء فلم تفين به وعلي الفقير بشرائه بنية الا ضيحة فتعينت انتهي ما في الهداية"

اور خصی کی قربانی جائز ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے خصی کی قربانی کی ہے۔

"وعن عائشة قالت ضحي رسول الله صلي الله عليه وسلم بكبشين سمينين عزيمين املجين اقرنين موجوئين" (رواه ا حمد انتهي ما في منتقي الاخبار)

اور بہت سی حدیثیں اس مضمون کی آئی ہیں۔ بخوف تطویل ایک ہی پراکتفا کیا۔ حنفی مذہب میں بھی ہے۔

"ويجوز انيضحي بالجماء والخصي لان لحمها اطيب وقد صح عن النبي صلي الله عليه وسلم انه  ضحي بكبشين املحين مرجوئين انتهي ما في الهداية ملخصا بقدر الحاجة"

اور قربانی میں سے ازروئے قرآن وحدیث کے خود کھائے اور فقیروں محتاجوں کوکھلائے کوئی تقید نہیں کہ کس قدر کھائے اور کس قدر فقیروں کودے فرمایا اللہ تعالیٰ نے

فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْت﴿٣٦سورة الحج

 ’’ کھائو اس میں سے اور کھلائو‘‘ بے سوال فقیر اور سوال کرنیوالوں کو اور حنفی مذہب میں مستحب ہے کہ تہائی فقیروں محتاجوں کودے۔

"ياكل من لحم الاضحية ويطعم الاغنياء والفقراء ويدخر ويستحب ان لا ينقص الصدقة عن الثلث انتهي ما في الهداية ملخصا"

اور قصاب کی اجرت قربانی میں نہ دے۔  اپنے پاس سے علیحدہ دے۔

"عن علي قال بعثني النبي صلي الله عليه وسلم فقمت علي البدن فامرني فقسمت لحومها ثم امرني فقسمت جلالها وجلودها وقال سفيان حدثني عبد الكريم عن عبد الرحمان بن ابي ليلي عن علي قال امرني النبي صلي الله عليه وسلم ان اقوم علي البدن ولا ا عطي منها شيئا في جزار تها" (روالبخاري)

’’حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فرمایا آپﷺ نے بھیجامجھ کو نبی کریم ﷺ نے پس کھڑا ہوا میں قربانیوں پر پس حکم کیا مجھ کو پس تقسیم کیا میں نے گوشت ان کا۔ پھر حکم کیا مجھ کوپس تقسیم کی میں نے جھولیں ان کی اور چمڑے ان کے اور کہا سفیان رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث سنائی مجھ کو عبدالکریم نے مجاہد سے اور اس نے عبد الرحمٰن بن ابی لیلیٰ سے اور انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حکم کیا مجھ کو پیغمبر ﷺ نے یہ کہ کھڑا ہوں میں۔ قربانیوں پر اور نہ دوں ان سے قصائی کی اجرت میں  کچھ اورقربانی کے چمڑوں کو یا تو صدقہ کردے۔‘‘ جیسا کہ حدیث بالا سے ظاہر ہے۔ یا اس سے کوئی چیز استعمال کی مثل مشک ڈول وغیرہ کے بنالے بیچے نہیں جیسا کہ حدیث مذکورہ بالا سے ظاہر ہے۔ اور حنفی مذہب میں بھی یہی ہے۔

"ويتصدق بجلدها لانه جزء منها اويعمل منه اله تستعمل في البيت كالنطع والجراب والغربال وغيرها انتهي ما  في الهداية "

محمد عبید اللہ مصنف تحفۃ الہند۔ حررہ العاجز المیین محمد یٰسین الرحیم آبادی ثم العظیم آبادی (2)۔ محمد عبد الحمید غفرلہ۔  (مہر)  سید محمد نزیر حسین فتاویٰ نزیریہ ص 456)

---------------------------------------------------------

1۔ دیہاتیوں کے استثناء کےلئے کوئی صریح مرفوع حدیث بطور دلیل ہمیں نہیں ملی۔  (محمد دائود راز)

2۔ معہ مواہیر دیگر علماء کرام رحمۃ اللہ علیھم اجمعین

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ  ثنائیہ امرتسری

جلد 01 ص 803-808

محدث فتویٰ

تبصرے