سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(642) حجر اسود کا بوسہ دینا جائز ہے یا شرک؟

  • 6440
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-19
  • مشاہدات : 1063

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

حجر اسود کا بوسہ بعض حنفی شرک وناجائز کہتے ہیں۔  جب کہ ان لوگوں کو پیر کے مزار پر جانے کےلئے منع کیا جاتاہے۔ حضور ﷺ نے کس خیال سے بوسہ دیا تھا اور امت کس خیال سے دیتی ہے۔ ؟  (سائل مذکور)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حجر  اسود ابراہیم ؑ کی یاد گار ہے۔ اس لئے آپ ﷺ نے اسے بوسہ دیا۔  مگر نفع ونقصان کے خیال سے نہیں۔ حضرت عمر نے بوسہ دیتے وقت الفاظ میں کہا تھا۔ "انك حجر لا تنفع ولا تضر" ’’ تو ایک پتھر ہے نہ نفع دے سکتا ہے نہ نقصان۔‘‘ بزرگوں کے مزار کو بوسہ دینا شریعت میں ثابت نہیں علاوہ اس کے بوسہ دینے والے نفع نقصان کا بھی خیال رکھتے ہیں۔ لہذا یہ شرک ہے۔  (اہلحدیث جلد40 نمبر 19)

تشریح

حجر اسود ایک تاریخی پتھر ہے۔  جس کو حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسماعیل ؑ کے مبارک اجسام سے مس ہونے کا شرف حاصل ہے۔ یہ پتھر کعبہ مقدس کے ایک کونے میں نصب ہے۔ اس جگہ سے طواف شروع کیاجاتا ہے۔ اور یہاں پر ہی آکر ایک چکر پورا ہوتا ہے۔ اس موقع پر اس کو چوما ہاتھ لگایا جاسکتا ہے۔

تاکہ طوافوں کے گننے میں آسانی ہو۔ اور تاریخی پتھر کی عظمت کا احترام بھی ہوسکے۔ عہد  ابراہیمی ؑ میں عہد وپیمان عام  لینے کےلئے ایک پتھر رکھ دیا جاتا  تھاجس  پرلوگ آکر ہاتھ رکھتے۔ اس  کے یہ معنی ہوئے کہ جس عہد کےلئے وہ پتھر رکھا گیا ہے۔ اس کو امتوں نے تسلیم کرلیا۔ اسی دستور کےمطابق حضرت خلیل نے اپنی مقتدی قومو  ں کےلئے یہ پتھر نصب کیا۔ جو کوئی اس گھر میں جس کی بنیاد خدائےواحڈ کی  عبادت کےلئے رکھی گئی ہے۔ داخل ہو اس پتھر پرہاتھ رکھے۔ جس کا مطلب یہ  ہے کہ اس نے توحید کا عہد مضبوط کرلیاوہ موحد ہوکررہےگا۔ اگر جان بھی دینی پڑے اس سے منحرف نہ ہوگا۔ الیٰ آخرہ (از حضرت مولانا عبد السلام محدث بستوی صدر مدرس ریاض العلوم دہلی)

یہ ایک پتھر ہے اور یاد گاری پتھر خود اس میں نہ طاقت ہے۔ اور نہ معجزہ مگر ایک مشتاق زیارت اس  تخیل کے ساتھ کہ مکہ کا ہرزرہ بدل گیا۔ کعبہ کی ایک ایک اینٹ بدل گئی مگر یہ پتھر جس پر حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسماعیل ؑ سے لے کر محمد رسول اللہ ﷺ تک کے مقدس لب مبارک ہاتھ یقینا لگ چکے ہیں۔ اور آج ہمارے ناپاک ہاتھ اورلب بھی اس کو مس کررے ہیں۔  یہ وہ  تٰخیل ہے جس سے ہر طواف کرنے والے کی روح مضطرب ہوجاتی ہے۔ سینہ جزبات محبت سے سرشار ہوجاتا ہے۔  یہ بوسہ تعظیم کا بوسہ نہیں ہے بلکہ اس محبت کا نتیجہ ہے۔ جو اس یاد گارکے ساتھ حضرت ابراہیم و اسماعیل ؑ کی روحانی اولاد کو ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی   بوسہ نہ دے تو یا اشارہ نہ کرے۔  تو حج میں کوئی خرابی نہیں آتی۔  (از حضرت مولانا نور الدین بہاری اہل حدیث سوہدرہ 50ء24ستمبر)

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ  ثنائیہ امرتسری

جلد 01 ص 797

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ