السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
زمین خراجی میں عشر ہے یا نہیں۔ مگر ہے تو کتنا اورکن کن جنسوں میں سائل حاجی نعمت اللہ بستوی۔ والد مرحوم مولانا عبد لروف جھنڈے نگری۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
خراجی زمین وہ ہوتی ہے۔ اور خراج اسے کہتے ہیں جو مسلمان بادشاہ اپنی کافر رعایا سے لے۔ لہذا ہندوستان میں کوئی زمین خراجی نہیں۔ جن زمینوں پر سرکاری ٹیکس ہے۔ ان کی پیداوار پر عشر یانصف عشر فرض ہے۔ جملہ اقسام کے اناج پرعشرواجب ہے۔ واللہ اعلم۔ (محمدمدرس مدرسہ محمد یہ اجمیری دروازہ دہلی)
سوال گنے میں عشر ہے یا نہیں اسی سوال کے عجوبہ بہت دورچلے گئے ہیں۔ دس تک اہل حدیث واحناف دونوں کے جواب مذکور ہیں۔ مولانا کا بھی ہے۔ حتیٰ کہ میرا بھی نقل کیا ہے۔ اجوبہ میں کچھ حصص صحیح بھی ہیں۔ کچھ غلط تحقیق کا اکثر حصہ پہلے لکھا جاچکا ہے۔ اب پھر لکھا جاتا ہے کہ بحکم ۔ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنفِقُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُم مِّنَ الْأَرْض﴿٢٦٧﴾سورة البقرة ۔ ۔
وَهُوَ الَّذِي أَنشَأَ جَنَّاتٍ مَّعْرُوشَاتٍ وَغَيْرَ مَعْرُوشَاتٍ وَالنَّخْلَ وَالزَّرْعَ مُخْتَلِفًا أُكُلُهُ وَالزَّيْتُونَ وَالرُّمَّانَ مُتَشَابِهًا وَغَيْرَ مُتَشَابِهٍ ۚ كُلُوا مِن ثَمَرِهِ إِذَا أَثْمَرَ وَآتُوا حَقَّهُ يَوْمَ حَصَادِهِ ۖ وَلَا تُسْرِفُوا ۚ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ ﴿١٤١﴾سورة الأنعام
"وعن جابر عن النبي صلي الله عليه وسلم قال فيما سقت الانهار والغيم العشوروفيما اسقي بالسوانية نصف العثور"(رواہ احمد مسلم ونسائي وابودائود)
وقال الانهار العيون وعن ابن عمر ان النبي صلي الله عليه وسلم قال فيما سقت السماء والعيون اوكان عشر يا العشور وفيما بالنضح نصف العشر رواه الجماعة مسلمالكن لفظ (نسائي ۔ ابودائود۔ ابن ماجہ۔ بعدہ بدل عشر یا انتھي نیل الاوطار ص119۔ جلد 4)
کتاب وسنت صحیحہ کے یہ اولہ زمین کی ہر پیداوار میں عشر یا نصف عشر کے وجوب پر بین دلیل ہیں۔ تا وقتیکہ کسی دلیل صحیح سے کسی شے کااستثناء ثابت نہ ہوا اور اب تک ثبوت کی صحیح دلیل نہیں ثابت ہوئی۔ خضروات کے اولہ سب کے سب مدخولہ ہیں۔ ایک بھی صحیح نہیں نہ مرفوع نہ موقوف
"كما في نيل الاوطار والتخليص وغيرهما وقال التر مذي ليس في هذا الباب عن النبي صلي الله عليه وسلم شي الخ وما يقال انه فيه حديث ما اخرجه الحاكم والبيقي والطبراني من ابي موسي ومعاذ حين بعثها النبي صلي الله عليه وسلم الي اليمن يعلمان الناس امردينهم فقال لا تاخذ الصدقة الا من هذه الاريعة الشعير والخطة والزبيب والتمس قال البيهقي رواته ثقات وهو متصل انتهي كذا في النيل ج4 ص"121
پس ثابت ہواکہ اول تو یہ حدیث بااعتبار سند کے صحیح نہیں۔ کہ طلحہ مذکور خطا کار دواہم ہے۔ دوم یہ کہ ا س کا مرفوع ہونا بھی صراحتاً ثابت نہیں۔ اس میں ہے کہ معاذ ابو موسیٰ کا اپنا فعل ہے۔ نہ کہ رسول اللہﷺ کا حکم تھا۔ ہوسکتا ہے کہ ان کا اجتہاد ہو۔ یا اس وقت انھیں چیزوں کی فصل تھی۔ یہی چیزیں اس وقت موجودتھیں۔ اور انھوں نے یہی اشیاء وصول کیں تو اس سے مسئلہ مبحوثہ ثابت نہ ہوا لہذا ادلہ مذکورہ کی ایسے امور سے تحصیص نہیں ہوسکتی۔ اور حدیث
"قال النبي صلي الله عليه وسلم ليس فيما دون خمسة اوساق من تمر ولا حب صدقة رواه احمد والنسائي ومسلم في رواية م ثمر بالثا ء زات النقط الثلاث نيل لاوطار ج4 ص 1"30
لفظ حب سے ثابت ہواکہ ہرقسم کے غلے میں زکواۃ صدقہ ہے۔ یعنی عشر یا نصف عشر ہے۔ اورایسے ہی یہ ثابت ہوا کہ ہرقسم کے پھل آم وانار سیب سنگترہ امرود وغیرہ میں بھی عشر یا نصف عشر ہے۔ پس ثابت ہوا کہ اولہ صحیحہ سے ہر پیداوار میں عشر یا نصف ہے اور خضروات کے اولہ سے کوئی بھی صحیح نہیں اور قرآن اور احادیث صحہ مذکورہ کے خلاف بھی ہیں لہذا ان پرعمل باطل اور بفرض صحت بھی تسلیم کی جائے۔ تو خضروات سے مراد ساگ پات کدو۔ وغیرہ جو اپنے کھانے کے لئے ایک دو کیاری بولی جائے۔ یہ مراد ہے یہ نہیں کہ کھیتوں کے کھیت کئی کئی جگہ ایکڑ یا مربع جس سے ہزار ہا روپیہ کی پیداوار ہووہ مراد ہو ہرگز نہیں۔ یہ نقل عقل دونوں کے خلاف ہے۔ اورگوبھی ۔ گاجر۔ شلجم ۔ مولی۔ چقندر۔ آلو۔ شکر۔ قند وغیرہ۔ تربوز۔ خربوزہ سے ہزارہا روپیہ حاصل ہوتا ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب