السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
غلہ عشر یا فطر۔ یا چرم عقیقہ یا چرم قربانی اپنے اپنے ہاتھ سےخرچ کرنا جائز ہے۔ یا نہیں؟ اگرچہ سردار بھی بطور نام نہاد (مسن بزرگ جو کہ موجود ہوں) کیا ان کی اجازت اور مشورے سے خرچ کیاجائے۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مقررہ سردار کی بعیت کے وقت چرم قربانی وغیرہ کا انتظام اگر اس کے ہاتھ میں دیاگیا ہے۔ اور سب بیعت کنندوں نے تسلیم کیا ہے۔ تو ا س کی معرفت خرچ کرناچاہیے۔ اوراگر سردار یا امیر کوئی نہیں۔ تو خود تقیسم کرسکتا ہے۔ لحدیث ان لم یکن امیر الحدیث
ادائے زکواۃ ''سرا'' وعلانیۃ''اصالتہً ونیابۃً بلاریب روا ہے۔ یعنی اصالہ خود مالک مذکی ہوگا۔ اور نیابتاً ساتھ اذن دینے غیر کو کہ وہ غیر اصل مالک کی طرف سے ادا کردے۔ اور غیر عام ہے۔ کہ سلطان رئیس اعظم ہو یا کوئی اور ادنیٰ شخص دیہانت دار ہو لیکن نیابتا میں زکواۃ اعلانیہ ادا ہوگی۔ اور اصالتہ ًکی صورت میں کما حقہ پایا جائے گا۔ اور اخفاء اقویٰ ہے۔ علانیہ سے الیٰ آخرہ۔ فتاویٰ نزیریہ ج1ص491) مسلمانوں کا اگر امام یا خلیفہ ہے تو زکواۃ اور صدقۃ الفطر امام کو دینا چاہیے۔ والا اپنے ہاتھ سے اس کے مصارف میں صرف کرے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب