السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
زمین رہن کی جاسکتی ہے اگر جائز ہے تو عشر کس کے زمہ ہوگا؟ (صوبے دار ولی محمد خان۔ خریدراراخبار اہل حدیث)
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بعض علماء کے نزدیک جائز ہے۔ جس کے قبضے میں ہوگی وہی عشر ادا کرے۔
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ کیا فرماتے ہیں علمائے دین شرح مبین صورت مسئولہ میں کہ زید نے سو بگہ زمین عمرکے پاس گروی رکھی اور عمر سے ہزار روپیہ قرض لیا۔ بایں شرط کے سرکاری مالگزاری عمرو ادا کرتا رہے گا۔ اورزید کو بھی دس روپے زمین کا منافہ دیا کرے۔ اب عمر کواس زمین کی کاشت کرنا۔ اور اس سے نفع اٹھانا جائز ہے یا نہیں؟ جبکہ زمین کے کل صرفے عمر کو برداشت کرناپڑتے ہیں۔ اورکبھی کبھی زمانہ قحط یا سیلاب میں بجائے منافع کے عمر کو خسارہ اٹھانا پڑتا ہے۔ اگرعمر کوخسارہ اٹھانا پڑتا ہے۔ اگر عمر زمین سے منفعت نہ حاصل کرے۔ تو زید علاوہ قرض ادا کرنے کے سرکاری لگان کابھی بارکش ہوتا ہے۔ اورادایئگی قرض کابھی ایسی صورت میں زید بالکل تباہ وبرباد ہوجاتا ہے۔ بنیوا توجروا
الجواب۔ صحیح حدیث میں ہے کہ دودھ والے جانوروں کا دودھ اور سواری دینے والے جانوروں کی سواری کا فائدہ جس کے پاس وہ جانور گروی ہوں بوجہ اپنے نفقہ کے جو وہ اس پر کر رہا ہے نفع اٹھا سکتا ہے۔ اس پر قیا س کر کے بعض علماء نے یہ فتویٰ دیا۔ کہ جب زمین کے کل اخراجات اس کے زمہ ہوں۔ جو رہن رکھتا ہے۔ اور روپیہ دیتا ہے تو اس کا نفع بھی جائز ہے۔ غرج جبکہ وہ چیز محتاج نفقہ ہو اورجملہ نفقات کا زمہ دار رہن رکھنے والا ہو تو اپنے اس نفقہ کے عوض اس چیز سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ بعض صورتوں میں بعض وقت اسے نقصان بھی اٹھانا پڑتا ہے۔ پس علمائے کرام اس نفع کو قرض رقم کا بدلہ نہیں جانتے بلکہ اس نفقہ کے عوض کا نفع مانتے ہیں۔ لہذا مندرجہ بالا صحیح احادیث پر قیاس کرکے اس کی حلت کے قائل ہیں۔ (1)۔ واللہ اعلم (مولانا محمد دہلوی (مرحوم ) بقلم خود جواب صحیح ہے۔ ابو الوفا ثناء اللہ امرتسری)
(مرسلہ مولانا عبد الروف صاحب مدظلہ۔ ) مفصل بحث کتاب البیوع میں ملاحظہ کیجئے۔
----------------------------------------------
1۔ بہتر یہ ہے کہ زمین مرہونہ کا گائوں کے دستورکے موافق محصور مقرر کردے۔ اس صورت میں تمام شبہات سے محفوظ ہوجائےگا۔ (محمد حسین میرٹھی خطیب مسجد لاکھی نڑباد)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب