السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
مسجد یامدرسہ میں ایک میاں یا ملاں رکھ کرگائوں کے بچوں کو تعلیم دلائی جائے اور ان میں صاحبان ذکواہ کے بچے بھی تعلیم پاویں تو کیا یہ جائز ہوگا۔ یا نہیں درانحالیکہ ذکواۃ دینے والے میاں یا ملاں کی تنخواہ اپنے عشر وزکواۃ کی رقم سے دیتے ہیں۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اصحاب اموال کا اپنے بچوں کو ایسے لوگوں سے تعلیم دلانا جن کو وہ تنخواہ انے اموال کی ذکواۃ وعشر سے دیتے ہوں۔درست نہیں۔
ایسے علمائے دین جو اس آیت کے مصداق ہوں۔
یعنی دین کی خدمت اورتعلیم کے لئے وقف ہوگئے ہوں۔ اورفقر معیشت کےلئے وقت نہ نکال سکتے ہوں۔مساکین میں داخل ہیں۔بشرط یہ کہ انہوں نے تعلیم دین کو حصول زر کا پیشہ نہ بنا لیا ہو۔ضرورت اور حاجت سے زیادہ نہ لیتے ہوں۔اورکسی حالت میں بھی ساعی وسائل نہ بنتے ہوں۔ ایسےعلماء ودعاہ مد زکواۃ کے بلاشبہ مستحق ہیں۔اسی طرح غریب طلبہ علوم دینیہ بھی آیت مذکورہ کی رو سے فقراء مساکین میں داخل ہیں۔ اورضروری ہے کہ اس مد سے ان کی خبر گیری کی جائے۔رہ گئے علماء اغنیاء جو سونے یا چاندی کے نصاب کے مالک ہیں۔یا خوشحال وزمین دار ہیں۔ یا کرایہ کی جائدادوں کے مالک ہیں۔ اور قرآن علوم دینیہ کی ترویج اوردعوت وارشاد ہدایت وتبلیغ یادر س وتدریس میں مصروف و مشغول رہتے ہیں۔ان کو ذکواۃ دینی اور خود ان کو ذکواۃ لینی جائز ہے۔ یا نہیں؟اسی طرح مدارس کااجراء وقیام او ر مدرسین و ملازمین کی تنخواہ اس مد سے دینی جائز ہے یا نہیں؟سواس میں اختلاف ہے۔بعض علمائے اہل حدیث اسے جائز ودرست کہتے ہیں ان میں سے بعض نے ان علماء ومدرسین کو ''سبیل للہ'' میں داخل سمجھا ہے۔ان کا خیال ہے کہ سبیل اللہ کے زریعے ایک جامع دعا وی مقصد کا دروازہ کھول دیا گیا ہے۔ جس میں دین وامت کے مصالح کی ساری باتیں آگئیں۔ مثلا قرآن اور علوم شرعیہ کی ترویج اشاعت مدارس کا اجرائ وقیام دواہ ومبلغین کا قیام ارسال ہدایت وارشاد امت کے تمام مفید مسائل۔
اکثر علماء کے خیال میں سبیل اللہ سے مراد صرف مجاہدین وغزاۃ ہیں "کما قال اشمس الائمہ ابن قدامہ فی الشرح الکبیر علی متن المقنع لاخلاف فی انھم الغزاة الان سبیل اللہ عندہ الاطلاق ھو الغزر انتھي"
اور بعض علمائے اہل حدیث نے ایسے اصحاب نصاب کو 'عاملین'' میں داخل سمجھا ہے ان کا خیال یہ ہے کہ عاملین ذکواۃ کا مصرف ٹھرانے کی علت بجز اس کے اور کچھ نہیں کہ ان عاملین نے ایک کام کو جو مصالح مسلمین سے ہے انجام دیا ہے۔ اسلامی حکومت کو اورعاملین کو اللہ تعالیٰ نے صاف طور پر زکواۃ کا مصرف نہیں ٹھرایا ہے۔لیکن یہ روایات حدیثیہ سے ثابت ہے کہ عہد نبوی ﷺ میں جو اشخاص اس قسم کے کاموں کو انجام دیتے تھے۔ ان کو بھی رسول اللہ ﷺ ان کےکاموں کی اجرت عنایت فرماتے تھے۔ابودائود میں بریدہ سے مرفوعا ً روایت ہے۔
"من الستعملنا علي عمل فرزقنا رزقا فما اخذ بعد ذلك فهو غلول قال الشوكاني فيه دليل علي انه لا يحل للعامل زيادو علي ما فرض له من استعمله وان ما اخذه بعد ذلك فهو من الغلول وذلك بناء علي انه الجارة ولمنها فاسدة يلزم فها اجرة المثل الي اخر ما قال (نیل لاوطار)
پس حکومت اسلامی کے دیگر عاملین مثل قضاۃ وغیرہ بوجہ اشتراک فی العلۃ حکم سعاۃ میں داخل ہیں۔اس کے علاوہ عہد خلافت راشدہ میں بھی دیگر عاملین کی اجرت بلکہ خود حاکم کی اجرت مال مسلمین سے دیا جانا ثابت ہے۔اورانہی وجوہ سے خلف وسلف کی ایک بڑی جماعت اس طرف گئی ہے۔پس ایسا مدرسہ جو مصالح مسلمین پر مشتمل ہے۔اس کے مدرسین کو مد ذکواۃ سے تنخواہ دینی کیوں درست نہیں۔ساتھ ہی اس کے زمانے میں مدارس دینیہ کے قیام وبقا کی جو ضرورت ہے۔وہ مخفی نہیں۔یہ بھی ظاہر ہے کہ تاوقت یہ کہ مدارس کی امداد مد زکواۃ سے نہ ہوگی۔کوئی مدرسہ چل نہیں سکتا۔پس جب سائلین صدقات کے ساتھ دوسرے عاملین ملحق ہیں۔اور عاملین صدقات کےلئے بحالت ان کے غنی ہونے کے بھی زکواۃ سے اجرت لینی درست ہے تو مد زکواۃ سے مدرسین کو تنخواہ معین و غیر معین دونوں طرح لینا ان کے غنی ہونے کی صورت میں بھی جائز اور درست ہوگا۔جیسا کہ حضرت ابو بکررضی اللہ عنہ تنخواہ کے واقعے سے ثابت ہے۔
"اخرج ابن سعد عن ميمون قال لما استخلف بوبكر جعلوا له الفين فقال زيد ولي فان لي عيالا وفلا شغلتموني عن التجارة فزادوه خمس مائة" (تاریخ الخلفاء)علماء حنفیہ کے نزدیک مد ذکواۃ سے مدرسین وملازمین مدرسہ کو بصورت ان کے غنی ہونے کے تنخواہ ادا نہیں کی جاسکتی۔اور نہ ان کے لئے لیناجائز ہے۔وہ کہتے ہیں زکواۃ ایک فریضہ الٰہی ہے۔جس کی زمہ داری مالک نصاب پر ہوتی ہے۔ اورچونکہ وہ حج روزہ نماز کی طرح ایک عبادت ہے۔ اسی لئے مالک نصاب کو مقررہ شروط وقیود کا لہاظ رکھتے ہوئے مال کا ایک معین حصہ ا س کے مصارف میں بطور تملیک اس طرح ادا کرنا ضروری ہے۔کہ اسکی ادایئگی میں بجز امتثال امرالٰہی شخص مودی الیہ سے کسی قسم کی کوئی غرض حصول نفع کی خاطر نہ ہو۔(تنویر الابصار) اس لئے وہ ان لوگوں پر بھی اس کو صرف نہیں کرسکتا۔کہ جن کے دینے میں حصول نفع کا احتمال ہو۔
"كما قال في رد المختار فلا يدفع لا صله اي وان علا ولفرعه اي وان سفل وكذالزوجته وزوجها وعبده ومكاتبه لانه لادفع اليهم لم تنقطع المنفعة عن الملك اي المزكي من كل وجه"
اور اسی بنا پر اس ااجرت پر معاوضہ پر صرف کرنا بھی اس کا جائز نہیں۔(رد المختار ص 778 ج2) معلوم ہوا کہ مدرسین کی تنخواہ مد زکواہ سے ادا نہیں کی جاسکتی۔کہ وہ معاوضہ ہے ان کے عمل کا اور زکواۃ میں معاوضہ مقصود نہیں ہوتا۔حنفیہ کہتے ہیں کہ عاملین صدقات کے ساتھ اغنیاء مدرسین کو ملحق کرنا صحیح نہیں۔کیونکہ ان کو جوکچھ ملتا ہے وہ بطریق عمالہ ہے۔اور چونکہ یہ عمالہ بقدرکفاف یعنی ان کے اور ان کے عوان کی ضرورت اور حاجت کے مطابق دیاجاتاہے۔ اس لئے اس کو اجرت معاوضہ سمجھناغلط ہے۔کیونکہ وہ مقدار جو اس کو اور اس کے عوان کو کافی ہوسکے وہ مجہول اور غیر معلوم ہے۔ اور احد ال موضین کی جہالت جواز اجارہ سے مانع ہے۔پس معلوم ہوا کہ عامل صدقہ کا استحقاق بطوراجرت ومعاوضہ کے نہیں ہے۔بلکہ بطریق کفایہ ہے۔بنا بر مدرسین وملازمین مدرسہ کو عاملین صدقات کے ساتھ ملحق کرنا غلط ہے۔حنفیہ کہتے ہیں کہ دیگر عاملین کے عمالہ سے جو انکو بیت المال سے ملتا تھا۔مدرسین کے مد ذکواۃ سے تنخواہ دینے کے جواز پراستدلال صحیح نہیں ہے۔ اس لئے کہ بیت المال در اصل اسلامی خزانے کا نام ہے۔ جس کے مختلف شعبے ہوتے تھے۔ اور ہر شعبے کے مصارف جداگانہ ہوتے تھے۔مثلا ایک شعبہ بیت انجمیں کاتھا جس میں جنس غنائم وغیرہ جمع ہوتےتھے۔ اور اس کو آیت واعلموا انما غنمتم الخ کے بموجب صرف کیا جاتا تھا۔ دوسرا شعبہ بیت الصدقات تھا جس میں عشر و زکواۃ فطرہ کے اموال جمع ہوتے تھے۔اور اس کو مصارف منصوصہ ثمانیہ میں صرف کیاجاتا تھا۔تیسرا شعبہ خراج الارض والجزیہ تھا۔جس میں زمینوں کا خراج اور جزیہ وغیرہ کا مال جمع رہتا اس شعبہ سے قاضی مفتی اور علماء وغیرہ کو بقدر کفاف ملتاتھا۔چوتھا شعبہ لاوارث لوگوں کے ترکہ اور لقطات کا تھا۔جس کو ضوائع کہتے تھے۔ اس سے عام مصالح مسلمین میں امداد ملتی تھی۔(عالم گیری وغیرہ) پس یہ ثابت کر کےعلماء وقضاہ وعمال کو بیت المال سے تنخواہ ملتی تھی۔یہ ثابت کرنا کہ مد ذکواۃ سے مدرسین تنخواہیں پاسکتے ہیں۔صحیح نہیں الیٰ آخرہ۔(عبید اللہ المبارکفوری الرحمانی المدرس بمدرسہ دارالحدیث رحمانیہ دہلی)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب