السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
زکواۃ کی مد سے اور عشر سے مدر س کی تنخواہ دی جاسکتی ہے یا نہیں۔ یا مدرسہ کے کسی خرچ میں مثلا کتب خانہ۔ یا مرمت میں لگا سکتے ہیں یا نہیں۔ (محمد سعیدز )
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
زکواۃ کے مصارف میں سے ایک مصرف فی سبیل اللہ بھی ہے۔ فی سبیل اللہ کی تفسیر بعض علماء عام کرتے ہیں۔ وہ ہر نیک کام میں زکواۃ خرچ کرنا جائز کہتے ہیں۔ نیک کاموں میں مدرسین کی تنخواہ اور مدرسہ کی دیگرضروریات بھی شامل ہیں۔
میں کہتا ہوں کے فی سبیل اللہ کی تفسیر میں بعض علماء نے کتنی وسعت کی ہے۔ کہ کوئی شے بھی اس کے شمول سے باہر نہیں جاسکتی۔ تو پھر آٹھ مصارف کے بیان کی کیا ضرورت تھی۔ غور کیا جائے کہ رسول اللہﷺ اور خلفاء راشدین وغیرہ جمہور صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کو شہرکی حفاظت خندق وغیرہ۔ مساجد ۔ کنواں۔ مردوں کے کفن دفن پلوں وغیرہ کی ضرورت تھی۔ مگر مجھے تو یاد نہیں پڑتا کہ کبھی بھی آپ نے یا خلفاء راشدین نے زکواۃ کے مال میں سے ان امور پر صرف کیا ہو۔ اس سے ثابت ہوگیا کہ باوجود ضرورت مال زکواۃ کو ان پر صرف نہ کرنا۔ اور اسی طرح سے ان امور کو سر انجام دینا مال زکواۃ کو ان پر صرف نہ کرنے کی بین دلیل ہے۔ اورلفظ فی سبیل اللہ کا عموم یا کلیہ نہ ہونے پر بھی صحیح مسلم وغیرہ کی مرفوع حدیث بھی ہے۔ کہ عبد المطلب بن ربعیہ اور فضل بن عباس نے رسول اللہﷺ سے درخواست کی کہ مال زکواۃ تحصیل پر ہم کو مقرر کردیں۔ تاکہ ہم بھی وصول کر کے کچھ معاوضہ لیں۔ تو رسول اللہ ﷺ نے ان کو فرمایا کہ مال زکواۃ اوساخ الناد ہے۔ "وانها لا تحل لحمد ولالال محمد ﷺ" (ج1۔ ص343) ثابت ہوا کہ سادات بنی ہاشم کی ضرورت کو پورا کرنا فی سبیل اللہ میں داخل تھا۔ مگر پھر بھی ان پر جائز نہیں اور مفت بھی نہیں محنت ھی مگر پھر بھی ناجائز ثابت ہوا کہ ویسے ہی مساجد خانہ خدا پر بھی اوساخ الناس صرف کرنا جائز نہیں۔ کفن دفن پر بھی جائز نہیں۔ کے مال زکواۃ حق زندوں کا ہے۔ مردوں کا نہیں۔ ورنہ فقراء مساکین وغیرہ مصارف مذکورہ فی القران زندوں اور مردوں دونوں کا حق مساوی ہوگا۔ تو مال زکواۃ زندوں کا حق مردوں ہی پر پورا نہ ہوگا۔ چہ جایکہ قلعے مساجد وغیرہ ان کی تجدید ہی مشکل ہوگی۔ از لیس فلیس۔ اور پلوں اور سڑکوں۔ قلعوں نہروں چشموں مسافر خانوں۔ لنگرخانوں شہروں کی فصلوں غرباءتجار جن کے پا س کاروبار چلانے کو روپیہ کم ہے۔ اون کو اور کاشتکاروں کو قرض دینا وغیرہ کے عموم میں داخل ہیں۔ ان پر صرف کیاجائےگا تواس صورت میں بھی زندوں فقرائ مساکین وغیرہ مصارف کے لئے خاک بھی نہیں بچ سکتا۔ اور
"يذكر الناس عن ابي اساس قال حملنا النبي صلي الله عليه وسلم علي ابل الصدقة للحج انتهي ما في ترجمة البخاري"
اول تو یزکر ہے۔ دوم اس میں تصریح نہیں کہ وہ لوگ غنی تھے۔ اور صرف حج ہی باعث حمل تھا۔ بظاہر وہ زکواہ کے مستھق معلوم ہوتے ہیں۔ یہی جواب عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قول يعطي في الحج کا ہے۔ اور
" وقال الحسن ان اشتري اباه من الزكوة جازبه في الرقاب"
کا ایک فرد ہے۔ اور اغنیاء کو مال زکواۃ لینے کے متعلق حدیث مرفوع میں آچکا ہے۔
"نفاذ في سبيل الله اولعامل عليها او لغارم اولرجل اشترابها بما له اولر جل كان له جار مسكين فتصدق علي المسكين فاهدي المسكين علي الغني" (رواه مالك وابوداود مشكواة ج1 ص 6)1
خلاصہ یہ کہ فی سبیل اللہ کی تفسیر میں ایسی وسعت نہیں کہ دنیا کی تمام ضروریات کو شامل ہو جیسے کہ بعض علماء نے حواشی مذکورہ میں کیا ہے۔ بس اس سے جہاد میں صرف کرنا مراد ہے۔ ہاں اگر کسی آیت یا حدیث مرفوع صحیح کی نص سے کسی شے میں کسی کو علاوہ جہاد کے صرف کرنے میں ثابت ہوجائے۔ تو فبہا ورنہ نہیں۔ اور دینی مدارس جہاں کتاب وسنت کی تعلیم باقاعدہ ہوتی ہو۔ کتاب وسنت پر عمل بھی صحیح طور پر ہو۔ صورت سیرت کتاب وسنت کے مطابق ہو وہاں دینی جائز ہے۔ اور صرف یہی نہیں کہ تعلیم انگریزی ہندی وغیرہ دنیوی علوم کی ہو۔ اور برائے نام کچھ عربی کا قلیل اقل شغل رکھ لیا ہو نہ صورت نہ سیرت نہ نماز کی پابندی نہ اور فرائض کی نہ اخلاق حمیدہ نہ اساتذہ پابند شرع بلکہ بعض شرع کا مذاق اڑانے والے تو وہاں قطعا ً جائز نہیں۔ پس قسم اول کو ہی دینی جائز ہے۔ اور مدارس مذکورہ جن ک دینی جائز ہے۔ ان میں طالب علم اصل ہیں۔ جو عموما نادار اور مفلس ہوتے ہیں۔ یا جن کو والدین وغیرہ علم دین حاصل نہیں کرنے دیتے۔ اور وہ گھر سے نکل کر عموما پردیس میں پڑے رہتے ہیں۔ وہ ابن السبیل بھی ہوتے ہیں۔ مسکین فقیر بھی پھر ان کے خوردو نوش لباس وقیام کتب وغیرہ کا اانتطام جس میں مدرسین جز اول ہیں۔ پھر اگر وہ نادار ہوں یعنی اگر وہ صاحب جائداد نہیں۔ کہ درس دے کر ان کو اپنی ضروریات کےلئے مدرسہ سے لینے کی ضرورت نہ ہو تو پھر ان کو بھی جائز نہیں ورنہ جائز ہے ۔ کہ اگر وہ اور کام کرتے تو تنخواہ سے اپنی ضروریات پوری کرتے۔ اب مدرسے سے کریں گے۔ مدرسہ کی تعمیر کتب کی خرید جلد سازی بھی بلکہ اگر مدرسے میں اور ملازم منشی وغیرہ کی ضرورت ہو وہ بھی مدرسہ میں داخل ہے۔ جیسے بیت المال یا تحصیل ذکواۃ میں قرون ثلاثہ میں تھا۔ ہاں یہ بھی ضروری ہے کہ متولی اور ناظم مدرسہ پابند شرع خدا ترس زی علم جو کتاب وسنت سے اچھی طرح واقف ہو۔ اور انتظام کا مادہ بھی۔ اور حتیٰ الامکان وہ زکواۃ کے مال کو وہیں صرف کرے جہاں جہاں کرناچاہیے۔ اس لئے کہ مدارس میں اور طریق سے بھی چندہ وصول ہوتا ہے۔ اور مدوں میں حتی الامکان اور چندوں سے صرف کرے۔ ہاں چرم قربانی بھی مدارس مذکورہ دینیہ میں دی جاسکتی ہیں۔
اور جب ثابت ہوچکاکہ قرآن شریف میں إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ
میں لام لبیان المصرف ہے للتملیک نہیں کما فی الفتح اور مصرف صرف آٹھ ہی ہیں۔ اور لفظ فی سبیل اللہ سے مراد صرف جہاد میں ہی صرف کرنا مراد ہے۔ ورنہ اگر ایسا عام مراد ہوتا جیسے بعض علماء نے لکھا ہے۔ کہ کوئی چیز کوئی مصرف اس سے باہر نہیں رہتا دنیا کے مصارف اس میں آجاتے ہیں۔ تو پھر آٹھ کا بیان ہی معاذاللہ فضول ہے۔ وازلیس فلیس اگر یہ لفظ اول ایۃ میں ہوتا تو اس کے بعد کو اس کی تفسیر بنایا جاتا۔ اور اس کو سب سے آخر ہوتا۔ توتعمیم بعد تخصیص سو یہ بھی نہیں تو سوا اس کے اور کچھ نہیں ہوسکتا کہ یہ مشقل ایک چیز ہے۔ جواور اقسام کو جو اس کے ساتھ مذکور نہیں ان کو شامل ہو اس لئے کہ تقسیم اقسام میں تقابل اور ہر ایک دوسرے کا قسیم وہتا ہے۔ اورعموما مذکور میں شمول ہوتا ہے۔ لہذا تسیر بعض علماء قطعاً باطل ہے۔ صرف جہاد ہی مراد ہے۔
اور یہ جو کہا جاتا ہے کہ اگر ذکواۃ می اتنی وسعت نہ کی جائےھ تو اور مصارف کنن دفن موتی مساجد و چاہ وغیرہ کیسے بنیں تو جواب یہ ہے کہ کتاب وسنت میں زکواۃ کے علاوہ بھی مال صرف کرنے کا حکم یا تاکید ہے۔ اس میں سے ان امور کو سر انجام دیا جاسکتا ہے۔ بلکہ دیا جاتا تھا۔ زکواۃ کے مصارف کوتو خود اللہ تعالیٰ نے معین کردیا ہے۔ اور وہ جانتا بھی ہے۔ اور تھا کہ فلاںفلاں امور کی ضرورت ہوگی پھر بھی آٹھ ہی کو بیان کیا عام نہ رکھا۔ ہاں اورطرح اور مصارف یا اوراشیاء کو بیان کردیا۔ وہ یہ ہے
وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَأَقْرِضُوا اللَّـهَ قَرْضًا حَسَنًا ۚ وَمَا تُقَدِّمُوا لِأَنفُسِكُم مِّنْ خَيْرٍ تَجِدُوهُ عِندَ اللَّـهِ هُوَ خَيْرًا وَأَعْظَمَ أَجْرًا ۚ وَاسْتَغْفِرُوا اللَّـهَ ۖ إِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ﴿٢٠﴾سورة المزمل
وَمَا تُنفِقُوا مِنْ خَيْرٍ فَلِأَنفُسِكُمْ ۚ ﴿٢٧٢﴾سورة البقرة
دیکھیئے زکواۃ کے بعد جس چیز کا بیان ہے ۔ وہ ہر قسم کے خرچ کو شامل ہے۔ جو مشروع ہے۔
"وقال رسول الله صلي الله عليه وسلم ان في المال لحقا سوي الزكات ثم تلا ليس البر ان تولوا وجوهكم قبل المشرق والمغرب الاية" (رواہ ترمذي و ابن ماجہ۔ والدارمي مشکواة ج1 ص 169)
"وعن سعد بن عبادة قال يا رسول الله صلي الله عليه وسلم ان ام سعد ما تت فاي الصدقة افضل قال الما ءفحفر بير افقال هذه لام سعد" (رواه ابوداود والنسائي مشكوة ج10 ص 169)
"وقال رسول الله صلي الله عليه وسلم اذا مات الانسان اهطع عنه عمله الا من ثلاثة من صدقة جارية او علم ينتفع به او ولد صالح يدعوله رواه مسلم مشكوة ج1 ص 32 وقال ايضا ان مما يلحق المومن من عمله حسنة بعد موته علما علمه ونشره وولده اصالحا تركه اومصحفا ورثه اومسجدا بناه او بيتا لابن السبيل بناه او نهرا اجراه او صدقة اخرجها من ماله في صحه وحياتة يلحقه بعد موته" (رواه ابن ماجة والبهقي في شعب الايمان مشكوة ج1 ص 36)
"وقال رسول الله صلي الله عليه وسلم من يشتري بئر رومة يجعل دلوه مع دلاء المسلمين يخير له منها في الجنة"(الحديث والدارقطني مشكوة ج1 ص56)1
"وقال رسول الله صلي الله عليه وسلم من بني الله مسجد ابين الله له بيتا في الجنة) (متفق عليه مشكوة ج1 ص 6)8
ان امور مذکورہ میں مدارس کی تعمیر بھی آسکتی ہے۔ اور ہر قسم کے مصارف وضروریات عامہ اور ہر جگہ وہرحال و موقعہ ناداری کاعذ ر غلط ہے۔ جب بعض زکواۃ دیتے ہیں۔ توویسے بھی خرچ کے مستحق بلکہ بعض اوقات ان پر یہ ضروری ہوجاتے ہیں۔ اور کفن دفن تو اہل اسلام پر ہوتی حق ہے۔
"قال رسول الله صلي الله عليه وسلم اذا اكفن احدكم اخاه فليحسن كفنه رواه مسلم وقال ايضا البسوا من ثيابكم البيض فانها من خير ثيابكم و كفنوا فيها موتا كم"(رواه الخمسة الاالنسائي وصححه الترمذي (بلوغ المرام) (ابو سعید شرف الدین دہلوی)
جوابا عرض ہے کہ فقیر کے نزدیک تعمیر مدرسہ تنخواۃ مدرسین امداد طلبہ وفی سبیل اللہ کے عموم میں داخل ہے۔ اس لئے کہ لفظ مذکور عام ہے۔ بعض مفسرین بھی اس طرف گئے ہیں۔ چنانچہ تفسیرخازن میں ہے۔
"قال بعضهم ان اللفظ عام فلا يجوزقصره علي الغزاة فقط ولهذا اجاز بعض الفقها ء صرف سهم سبيل الله الي جميع وجوه الخير من تكفين الموتي وبناء الجسور والحصونوعمارة المسجد وغير ذلك لان قوله وفي سبيل الله عام في الكل فلا يختص دون غيره انتهي" (مطبوعة ج1 ص 240)
بعض مفسرین (قفال مروزی) وغیرہ نے کہا ہے کہ لفظ سبیل اللہ عام ہے پس اس کو محض غازیوں پر منحصر کرنا جائز نہیں۔ اس لئے بعض فقہاء نے حصہ سبیل اللہ کا تمام وجود خیر میں صرف کرنا جائز رکھاہے۔ جیسے مردوں کا کفن دفن اور پل اور قلعوں کا بنانا مساجد کی تعمیر اور اس کے سوا جیسے مدرسہ کی تعمیل وغیرہ اس لئے کہ اللہ کا فرمان فی سبیل اللہ ہر ایک کو عام ہے۔ پس وہ غزوہ ہی کے ساتھ خاص نہ ہوگا۔ امام رازی تفسیر کبیر میں فرماتے ہیں۔
"اعلم ان ظاهر اللفظ فه قوله وفي سبيل الله لا يوجب القصر علي الغزاة فلهذا المعني نقل القفال في تفسير عن بعض الفقها ء انهم اجازواصرف الصدقات الي جميع وجوه الخير ن تكفين الموتي وبناء الحصون وعما رة المساجد لان قوله في سبيل الله عام في الكل انتهي"
(مفاتیح الغیب مصری ص 681 ج2)
یقین کرو کہ اللہ تعالیٰ کے قول وفی سبیل اللہ کا ظاہر لفظ موجب عصر بر مجاہدین نہیں ہے۔ اس معنی کے لہاظ سے امام قفال مروزی (محدث) نے اپنی تفسیر میں بعض فقہاء سے نقل کیا ہے۔ کہ انھوں نے زکواۃ کا تمام وجوہ خیر میں صرف کرنا جائز رکھا ہے۔ جیسے تکفین موتی اور قلوں کا بنانا۔ اور مساجد کی تعمیر اس لئے کہ اللہ کا قول و فی سبیل اللہ ہر (امور خیر) کو عام ہے۔ ایسا ہی خاتمۃ المفسرین نواب صدیق حسن صاحب مرحوم نے تفسیر فتح البیان میں فرمایا ہے۔
"حيث قال ان للفظ عام فلا يجوز قصره علي نوع خاص ويد خل فيه وجوه الخير من تكفين الموتي وبناء الجسور والحصون وعمارة المساجد وغيره ذلك انتهي"(فتح البیان مصری ص 124 ج4)
بے شک لفظ فی سبیل اللہ عام ہے۔ پس اس کو ایک خاص قسم (غزوہ) پر منحصر کرناجائز نہیں۔ اس میں نیکی کے تمام اقسام داخل ہیں۔ کفن موتی پل اور قلعوں کا بنانا مسجدوں کا تعمیر کرنا اور بھی اس کے سوا (جیسے تعمیر مدرسہ وغیرہ) انتہیٰ''
ان عبارات سے ظاہر وباہر ہے۔ کہ لفظ سبیل عام ہے۔ جو ہر نیک کام کو شامل ہے۔ اس میں طلباء کی امداد و اعانت بھی شامل ہے۔ جیسا کہ تفسیر مظہری میں ہے۔
"من انفق في ماله طلبة العلم صدق انه انفق في سبيل الله"
(ص 51 مطبوعہ ہاشمی) جس نے اپنا مال طالب علموں پر صرف کیا اس کی بابت یقینا ً کہاجائے گا۔ کہ یہ خرچ ثمانیہ سے سبیل اللہ میں داخل ہے۔ اسی طور سے تعمیرعمارت مدرسہ بھی مال زکواۃ سے فی سبیل اللہ میں داخل ہے۔ کما مر بیانہ۔ فقیر کے نزدیک اسی طور سے تنخواہ علماء مدرسین بھی سبیل اللہ میں داخل ہیں۔ امام شوکانی ویل الغمام میں لکھتے ہیں۔
"ومن جملة في سيل الله صرف في العلماء فان لهم في مال الله نصيبا سواء كانوا اغنياء او فقرا ء بل الصرف في هذه الجنمعة من اهم الامور وقد كان علما ء الصحابة ياخذون من جملة هذه الاموال التي كانت تفرق بين المسلمين علي هذه الصفة من الزكوة اه ما لخصا"
(دلیل الطالب ص 432)
منجلہ سبیل اللہ کے علمائے کرام پرصرف کرنابھی ہے۔ اس لئے کہ ان کا بھی اس مال میں حصہ ہے خواہ وہ امیر ہوں یافقیر۔ بلکہ اس راہ میں خرچ کرنا بہت ضروری ہے۔ علماء صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین بھی ان مالوں سے لیتے تھے۔ جو مسلمان پرمد زکواۃ سے تقسیم کیے جاتے ۔ نواب محمد صدیق حسن صاحب مرحوم اس عبارت شوکانی کاترجمہ اپنی کتاب ''عرف الجہادی'' میں یوں تحریر فرماتے ہیں۔ ''سبیل اللہ مختص بہ جہاد نیست منجملہ سبل خدا صرف ذکواۃ اور اہل علم است۔ ایشاں را نصیبے در مال خدااست توانگر باشدیا گدا بلکہ صرف آں دریں جہت ااہم امور است الخ (ص 71)
خاکسارتفسیر فی سبیل اللہ میں انہیں اصحاب مذکورین کا ہمنوا ہے۔ اور اب تک اسی خیال پر قائم ہے۔ سائل موصوف کی اگر اس سے تشفی ہوجائے۔ اورخدا کرے کے ہوجائے۔ تو فبہا ورنہ ان کے نزدیک جو حق ہو آشکارا فرمایئں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب