سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(548) زیور طلائی ونقرئی کی زکواۃ کی نسبت کیا حکم ہے؟

  • 6346
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1172

سوال

(548) زیور طلائی ونقرئی کی زکواۃ کی نسبت کیا حکم ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

زیور طلائی ونقرئی کی زکواۃ کی نسبت کیا حکم ہے۔ دی جائے یا نہ دی جائے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مستعملہ زیور کی زکواہ میں اختلاف ہے۔ میرے ناقص علم میں واجب نہیں۔ دیوے تو اچھا ہے۔

تنقید

از مولانا ابو الصمصام عبد السلام صاحب مبارک پوری اعظم گڑھ۔

جامع ترمذی شریف میں ہے۔

"فراي بعض اهل العلم من اصحاب النبي صلي الله عليه وسلم واتابعين في الحلي زمواة ما كان منه ذهب وفضة وبه يقول سفيان الثوري وعبد الله ابن مبارك"

’’یعنی بعض صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین اور تابعین کے نزدیک سونا اور چاندی کے زیور میں زکواۃ ہے۔ اور سفیان ثوری اور عبد اللہ ابن مبارک کا بھی یہی قول ہے۔‘‘ تحفۃ الاحوزی میں عمدۃ القاری شرح بخاری سے منقول ہے کہ یہی مزہب امام ابوحنفیہ اور آپ کے اصحاب کا بھی ہے۔ اورایسا ہی حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی مروی ہے۔ سعید ابن المسیب اور سعید بن جبیراورعطار اور محمد بن سیرین اور جابر بن زید اور مجادہ اور زہری اورطائوس اور میمون بن مہران اور ضحاک اور علقمہ اوراسود بن عبد العزیز اور زرا الہمدانی اور اوزاعی ابن شبرمہ اور حسن بن حی اور ابن المنذر اور ابن ھزم کا قول ہے کہ  (زیور میں) زکواہ واجب ہے۔ ظاہر کتاب وسنت کی رو سے‘‘

اور سبل السلام سے منقول ہےکہ اس مسئلہ میں چار قول ہیں۔ ایک قول یہ ہے کہ زکواہ واجب ہے۔ اور یہ مذہب ہے ہاویہ اور سلف کی ایک جماعت کا اور امام شافعی ؒ کا ان کے قول کے مطابق دوسرا قول یہ ہے کہ زیور میں زکواۃ نہیں ہے۔ اور یہ مذہب ہے امام مالک۔ اورامام احمد۔ اور امام شافعی کا ان سے ایک قول کے مطابق کیونکہ سلف سے اقوال وارد ہیں۔ مثلا ابن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عائشہ رضی اللہ عنہا اور انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ کے آثار اور جابر کی مرفوع روایت ہے۔ (لیس فی المحلی زکواۃ) سو وہ بے اصل اور موضوع ہے۔ ملاحظہ ہو تحفہ الاحوزی ص 13 ج2۔ جو متقضی ہیں کہ زیور میں زکواۃ نہیں ہے۔ لیکن صحیح حدیث مل جانے کے بعد آثار بے اثر وبیکار ہیں۔ تیسرا قول یہ ہے کے زیور عاریتا دینا ہی اس کی زکواۃ ہے۔ چنانچہ دارقطنی نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور بنت ابو بکر رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے۔ چوتھا قول یہ ہے کہ صرف ایک دفعہ زکواہ دینا واجب ہے۔ اس کو بہیقی نے حضرت انسرضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا ہے۔ اور سب سے زیادہ ظاہر قول دلیل اور حدیث صحیح اور قوی کی وسے یہ ہے کہ زکواہ واجب ہے۔

حضرت مولانا محمد عبد الرحمان صاحب مبارک پوری شارح ترمذی نے تحریرفرمایا ہے کہ میر ے نزدیک ظاہر اور راحج قول یہ ہے کہ سونا اورچاندی کے زیوروں میں زکواۃ واجب ہے۔ یہ احادیث اس پر دلالت کرتی ہیں۔ پہلی حدیث

"روي ابوداود في سننه عن عمرو بن شعيب عن ابيهعن جده ان امراة اتت رسول الله صلي الله عليه وسلم ومعها ابنة لها وفي يد ابنتها مسكتان غليظتان ن ذهب فقال لها اتعطين زكوة هذا قالت لا قال ايسك ان يسورك الله يهما يوم القيامة سوارينمن نار فالقتخما االي النبي صلي الله عليه وسلم وقالتهما لله ولرسوله قال الزيلعي في نصب الراية بعد ذكر حديث ابي داود هذا ما لفظه قال ابن القطان في كتابه اسناد صحيح وقال المنزري في مختصره اسنادهلا مقال فيه الخ"

 ’’یعنی عمرو بن شعیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے۔ کہ ایک عورت رسول اللہﷺ کے پاس آئی۔ اور ان کے ساتھ ان کی ایک لڑکی بھی تھی۔ اور اس لڑکی کے ہاتھ میں سونے کے دو بھاری کنگن تھے۔ پس رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ تم نے اس کی زکواۃ دی ہے۔ ؟انہوں نے کہا نہیں۔ پس آپﷺ نے فرمایا کہ کیا تمھیں پسند ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن پہنائے انہیں دونوں کنگنوں کے بدلے میں دو کنگن آگ کے۔ پس انہوں نے و ہ دونوں کنگن نکال کر نبی کریمﷺ کی طرف ڈا ل دیئے۔ اور عرض کیا کہ یہ دونوں کنگن اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے لئے ہیں۔ ‘‘ دوسری حدیث

"عن ام سلمة انها كانت تلبس اوضاحا ذهب فقالت يا رسول الله اكنز هو فقال اذا اديت زكوته فليس بكنز اخرجه ابوداود والدارقطني وصححه الحاكم كذا في بلوغ المرام وقال الحافظ في الدراية قواه ابن دقيق العيد"

’’یعنی ام سلمہ سے روایت ہے کہ وہ سونے کے زیور پہنتی تھیں۔ پس انھوں نے رسول اللہ ﷺسے پوچھا کیا یہ کنز ہے۔ ؟آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر تم نے اس کی زکواۃ دی ہے تو یہ کنز نہیں ہے۔‘‘

تیسری حدیث

"عن عبد لله بن شداد انه قال دخلنا علي عائشة زوج النبي صلي الله عليه وسلم فقالت دخل رسول الله صلي الله عليه وسلم فراي في يدي فتخات من ورق فقال ما هذا يا عائشة فقلت صنعتهن اتزين لك يا رسول الله صلي الله عليه وسلم قال اتودين زكواتهن قلت لا او ما شا ء الله قال هو حسبك من النار رواه ابوداود اخرجه الحاكنم في مستدركه و قال صحيح علي شرط  الشيخين ولم يخر جاه وقال الحافظ قي الدراية قال ابن دقيق العيد هو علي شرط مسلم"

 ’’یعنی عبداللہ بن شداد سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس گئےتو آپ نے کہا رسول اللہ ﷺ میرے پاس تشریف لائے۔ پس میرے ہاتھ میں سونے کی انگشتری دیکھ کرفرمایا اے عائشہ رضی اللہ عنہا یہ کیا ہے۔ ؟ میں نے کہا  یا رسول اللہﷺ میں نے ان کو بنایاہے۔ تاکہ زینت کروں میں آپ کے واسطے پس آپﷺنے فرمایا تم نے ان کی زکواۃ دی ہے۔ ؟ میں نے کہا نہیں ۔  رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ۔ وہ کافی ہے تیرے لئے جہنم سے۔‘‘

چوتھی حدیث

"عن اسماء بنت يزيد قالت دخلت انا وخالتي علي النبي صلي الله عليه وسلم وعلينا اسورة من ذهب فقال لنا اتعطيان زكوتها فقلنا لاقال اما تخافان ان يسور كما الله اسورة من النار اديا زكوتها ذكرهالحافظ في التلخيص وسكت عنه وقال في الدراية في اسناده قالقال صاحب تحفة الاحوزي ففي صحة حديث يزيد نظر لكن لا شك في انه يصلح لا ستشهاد انتهي"

’’یعنی اسماء بنت یزید سے روایت ہے۔ انہوں نے کہا میں اور میری خالہ رسول اللہ ﷺ کے پاس گئیں۔ اور ہم سونے کے کنگن پہنے ہوئے تھے۔ پس آپﷺ نے پوچھا کیا تم نے زکواۃ دی ہوئی ہے۔ ؟ ہم نے کہا نہیں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ تم ڈرتی نہیں ہو کہ اللہ تعالیٰ تم دونوں کو آگ کے کنگن پہنائے۔ ان کی زکواۃ دے دو۔‘‘

پانچویں حدیث

"عن فاطمة بنت فيس قال اتيت النبي صلي الله عليه وسلم رطوق فيه سبعون مثقالا من ذهب فقلت يا رسول الله خذ منه الفريضة فاخذ منه مثقالا وثلا ثة ارباع مثقال اخرجه الدارقطني وفي اسنا ده ابو بكر الهذ لي وهو مضعيف ونصر بن مواحم وهو اضعف منه وفابعة عباد بن كثير اخرجه ابو نعيم في ترجمة شيبان بن زكريا في نار يخه كذا في الدراية"

’’یعنی فاطمہ بنت قیس سے روایت ہے۔ کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک طوق لائی جو سات مثقال سونے کا تھا۔ میں نے عرض کیا کہ آپﷺ اس میں سے فریضہ لے لیں۔ پس آپ ﷺنے اس میں سے پونے دو مشقال لے لیا۔ ‘‘

چھٹی حدیث۔

"عن عبد الله بن مسعود قال قلت للنبي صلي الله عليه وسلم ان لا مراتي حليا من ذهب عشر ين مثقالاقال فاد زكوته نصف مثقال واسناده ضعيف جدا اخرجه الدارقطني كذا في الدراية"

’’یعنی عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا میں نے رسول اللہ ﷺ سے کہا میری بیوی کے پاس 20 مثقال سونے کا ایک زیور ہے۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا پس اس کی زکواۃ ادا کرو‘‘

الحاصل سونے اور چاندی کے زیور میں زکواۃ واجب ہے۔ اور عدم وجوب کے ثبوت میں جوآثار زکر کیے جاتے ہیں۔ وہ ان احادیث کے سامنے بے اثر ہیں۔ رہی جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث مرفوع ليس في الحلي زكوة سو وہ باطل اور موضوع ہے۔

اہل حدیث

مزید تفصیل مسک الختام وغیرہ میں بھی دیکھنی چاہیے۔ یہ سب مذاہب اور اقوال کتب شروح حدیث میں درج ہیں۔ ہر ایک جماعت اپنے خیال کو اقوای سمجھتی ہے۔ واللہ اعلم (22 ستمبر 1939ء)

دیگر

زیور میں زکواہ فرض واجب نہیں اگر کوئی ادا کرے تو اچھا ہے۔ وجوب یا فرضیت ثابت کرنے کےلئے دلیل قوی قطعی کی ضرورت ہے۔ مسئلہ ھذا کے متعلق جس قدر اھادیث بیان کی جاتی ہیں۔ ان میں سے ایک بھی ضعیف سے خالی نہیں۔ حافظ ابن قیم ؒ نے اپنا مسلک یہی ظاہر کیا ہے۔ (اعلام) محدثین سے امام مالک۔ واحمد۔ وشافعی۔ بھی عدم وجوب کے قائل ہیں۔  (سبل السلام)  (اہلحدیث 19ستمبر 1941ء)

الجواب۔ سونے اور چاندی کے مستعمل زیورات کی نسبت مختلف روایات کے پیش نظر میرا خیال ہے۔ کہ زکواۃ احتیاطا ً دے دینی چاہیے۔  (حضرت مولانا عبد الغفور ملافاضل) بسکو ہری بعض علماء کا مذہب ہے کہ زیور کا منگنی دے دینا بھی اس کی زکواۃ نکالنے کے مترادف ہے۔ بعض نے کہا ہے۔ مستعمل زیوروں میں صرف ایک بار ادایئگی زکواۃ فرض ہے۔ یہ اختلاف اٹھارہ بیس اقوال پر مشتمل ہے۔ وجوب زکواۃ کے لئے جس ٹھوس اور بلا اختلاف ثبوت قطعی کی ضرورت ہے۔ ایسی کوئی دلیل میری نظر سے نہیں گزری۔ جہاں تک میں نے غور کیا ہے۔ دلائل کی رو سے زیور مستعملہ میں زکواۃ کا وجوب ثابت نہیں ہوتا۔ (عبد الروئف رحمانی نائب ناظم مدرسہ جھنڈا نگر ریاست نیپال ( 2 ا پریل 53 ء) میرے نزدیک زیورات مستئملہ میں زکواۃ فرض نہیں ہے۔ (مولانا ظفر عالم میرٹھی مددرس مدرسہ دارالحدیث مالی گائوَں)

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ  ثنائیہ امرتسری

جلد 01 ص 697-702

محدث فتویٰ

تبصرے