السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
زید کہتاہے کہ پریذیڈنیٹ کے فنڈ میں زکواۃ نہیں ہے۔ کیونکہ وہ روپیہ اس کے قبضے میں نہیں ہے۔ ملازت ختم ہونے کے بعد وہ اس روپیہ پر قابض ہوگا۔ لیکن عمرکہتا ہے کہ پریذیڈنٹ کے روپیہ میں بدستور ذکواۃ واجب ہے۔ کیونکہ وہ روپیہ بھی بنک وغیرہ میں جمع کئے ہوئے روپے کی طرح ہے۔ جب بنک میں جمع کئے ہوئے روپے میں زکواۃ اد ا کرنی پڑتی ہے۔ تو پریزیڈنٹ فنڈ کے روپیہ میں سے کیوں نہ اد ا کی جائے۔
(ب) بعض تاجروں کا خیال ہے کے زکواۃ صرف سالانہ آمدنی کے روپے میں سے واجب ہے۔ اصل جمع کئے ہوئے روپے میں سے نہیں ہے۔ آیا یہ خیال ان کا درست ہے یا نہیں؟
(ج) نیز زیورات میں زکواۃ واجب ہے یا نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
الف۔ ظاہر حدیث ماحول علیہ الحول سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ جو مال اپنے قبضے میں ہوتا ہے۔ اس میں زکواۃ ہے۔ پریذیڈنٹ فنڈ ک رقم اب تک اس کے قبضے میں نہیں آئی۔ جو رقم بنک میں جمع ہے۔ وہ اس کے قبضے میں ہے۔ اور اسی نے جمع کرائی ہے۔
(ب) جو سونا چاندی وغیرہ اس کے پاس ہو اس سے ہر سال زکواۃ دے۔ جب تک نصاب زکواۃ تک مال ہے تب تک زکوۃ ہے۔ میری ناقص تحقیق میں زیورات میں زکواۃ فرض نہیں اگر دے تو اچھا ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب