سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(545) سال میں ایک دفعہ یا دو دفعہ یک یک مشت زکوۃ دینا؟

  • 6343
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 972

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

یہاں اور بعض دوسرے شہروں میں بھی بعض بعض سیٹھ مال زکواۃ کو ہفتہ وار غرباء ومساکین ۔ اور عام سائلین کو ایک ایک دو دو پیسے یا ایک ایک دو دو مڑی کر کے دیتے ہیں۔ علی العموم اس خیرات کا دن جمعہ کا دن ہوتا ہے۔ سینکڑوں ہزاروں کی تعداد میں علی اختلاف البلاد والاحوال سائلین جمع ہوتے ہیں۔ اور یہ خیرات وصول کرتے ہیں۔ دو بجے دن سے شام تک چکر لگانے پر آنے دو آنے چار آنے پاتے ہیں۔ زید کہتا ہے کہ زکواۃ کا مال اس طرح تقسیم نہیں کرناچاہیے۔ کیونکہ اس طرح سال میں لاکھوں روپے خرچ ہوجاتے ہیں۔ مگر اس سے نہ کسی ضرورت مند کی ضرورت پوری ہوتی ہے۔ اور نہ اس سے مسلمانوں کی قومی یا اقتصادی فائدہ ہوتا ہے۔ مال زکواۃ کی یہ تقسیم منشاء اسلام کے خلاف ہے۔ لہذا ا س طریقے کو بند کر کے غرباء ومساکین اور جملہ مستحقین کو سال میں ایک دفعہ یا دو دفعہ یک یک مشت رقم دینی چاہیے۔ تاکہ یہ مال صحیح مصرف میں آئے۔ اور لوگوں کی قومی واقتصادی حالت درست ہوسکے۔ ہاں جولوگ مروجہ طریقہ پر خیرات کرناچاہیں انہیں چاہیے کہ اپنے ذاتی مال سے اس طرح خیرات کریں۔ مگر مال زکواۃ اس طرح خرچ نہ کریں۔ اب سوال یہ ہے کہ آیااس طرح کامالذکوۃ خرچ کرنا یعنی ہفتہ وار دہیاڑی پیسہ دینا جائز ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بہ نیت نیک جائز ہے۔ کیونکہ ادائے زکواۃ کا حکم عام ہے۔ اس میں کسی قسم کی تقید کرنے کی ضرورت نہیں۔

شرفیہ

یہ صحیح ہے مگر طریق مذکور فی اسوال عہد نبوی ﷺ اور عہد خلفاء راشدین وغیرہ صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین تابیعن سے ثابت نہیں۔ لہذا وہی بہترہے جو عہد نبوی ﷺ وصحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین میں تھا۔

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ  ثنائیہ امرتسری

جلد 01 ص 696

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ