السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
زید نے بکر کی تحریری ضمانت مبلغ ایک سو چوراسی روپیہ کی ایک ساہو کار کے پاد دیدی ہے ار کہا کہ وہ قسط میں اداکردوں گا۔ چنانچہ پہلی قسط چوارسی روپیہ ادا بھی کردی۔ دوسری قسط اس خیال سے ادا نہیں کی۔ اور بکر فوت ہوچکاہے۔ اور ایک سو روپییہ اس کا باقی ہے۔ چونکہ قرض کسی حالت میں معاف نہیں ہوتا۔ اس لئے بروئے شریعت محمدی وہ قرض زید ادا کردے۔ یا بکر کے زمہ رہا۔ اس کے وارث ادا کریں۔ زید ضامن ہے۔ اگر زید ہی کو ادا کرناچاہیے۔ کیا زید اپنی زکواۃ یا اپنے رشتہ داروں سے ذکواۃ لے کر اس قرض میں دے سکتاہے۔ یا ساہو کار سے نصف معاف کرالیوے تو بھی جائز ہے اور نصف ادا کردیوے۔ اگرچہ قانون انگریزی کے مطابق وہ قرض زائد المییعاد ہوچکاہے۔ مگر قرآنی قانون کے مطابق اس کی ادایئگی ضروری ہے۔ اس کی باز پرس زید سے ہوگی یا بکر سے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سوال سے معلوم ہوتا ہے کہ زید نے بکر کے قرض کی ادایئگی اپنے زمہ لے لی ہے اس لئے ہر حالت میں زید ہی زمہ دار ہے۔ بکر کی زندگی اور بعد وفات کے زید ہی ادا کرے گا۔ اور بکر زکواۃ سے یہ قرض ادا کرسکتا ہے۔ مصارف ذکواۃ میں غارم (مقروض) بھی ہے۔ اس کے ماتحت زکواۃ سے یہ قرض ادا کرسکتا ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب