السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
زید کہتا ہے کے رمضان المبارک کی طاق راتوں میں لیلۃ القدر کو تلاش کرنے کےلئے جاگنا سنت ہے۔ خوا ہ وعظ کی مجلس میں شریک ہوکر جاگے یا گھر میں عبادت کرے۔ وعظ بھی عبادت ہے۔ بکر کہتا ہے کہ شرع اسلام نے ہر وقت کےلئے ایک عبادت اور ہر عبادت کےلئے ایک طر ز مقرر کیا ہے۔ لہذا ہر عبادت اپنے مقررہ طرز پر ادا کی جائے تو عبادت ہے۔ ورنہ بدعت۔ سنت نبوی ﷺ اور آثار صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین سے کہیں ثبوت نہیں ملتا۔ کہ ان راتوں میں رات رات بھر وعظ ہوئے ہوں۔ ہاں رسول اللہ ﷺ نے اپنی اذواج مطہرات کو فرمایا کہ اٹھو اور اللہ کی عبادت کرو۔ اس سے صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ راتوں کو ضرورت کے وقت بات کرنا جائز ہے۔ نہ کہ وعظ کا ثبوت نکلتا ہے۔ ہم بھی اگراپنے اہل بیت کو ان راتوں میں اٹھا کر عبادت کرنے کو کہیں تو سنت نبوی ﷺ پر عمل ہوتا ہے۔ اور موجودہ مجالس وعظ اس رات کوعبادت نہیں بلکہ اللہ اور اس کے بندوں کے درمیان ایک حجاب ہے۔ جو لیلۃ القد ر کی برکتوں سے محروم رکھتا ہے۔ ان مجلسوں میں جاگنے والوں سے پوچھو کہ کبھی کسی نے لیلۃ القدر دیکھی براہ مہربانی قرآن وسنت کی روشنی میں بتایا جائے کہ ان دونوں میں کون حق پر ہے۔ ؟ (محمد رفیع از دہلی)
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
وعظ کہنا یا وعظ سننا بھی عبادت ہے۔ حدیث شریف میں ہے۔
تدارس ساعة من اليل خير من احيائه بوقت شب ایک گھڑی علمی بات کرنا ساری رات کی عبادت سے اچھا ہے۔ اس حدیث سے ہمارا دعویٰ ثابت ہے کہ وعظ گوئی یا وعظ شنوی سب عبادت ہے۔ پس زید کا قول صحیح ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب