سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(493) حاملہ یا مرضعہ روزے ترک کردے..الخ

  • 6291
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-03
  • مشاہدات : 918

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

حاملہ یا مرضعہ روزے ترک کردے۔ (ترمذی) قضا کا ذکر نہیں والعافية عمن سكت نیز ذروني فيما تركتكم زیر نظر رکھتے ہوئے جواب عطا فرمایئں (سائل مذکور)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حاملہ اور مرضعہ بیمارکے حکم میں ہیں۔ اس لئے فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ ۚ ﴿١٨٤سورة البقرة کا حکم ان کو بھی شامل ہے۔

تشریح

دودھ پلانے والی اور حمل والی عورت اگر روزہ نہ رکھ سکے تو وقت پر روزہ توڑ کر بعد کو قضا کریں اس بارے میں بہت سی احادیث اور آثار وارد ہیں۔ ان میں سے کچھ دلائل پیش کیے جاتے ہیں۔ مشکواۃ شریف میں ہے۔

"عن انس بن مالك الكعبي قال قال رسول الله صلي الله عليه وسلم ان الله وضع من المسافر شطر الصلوة والصوم عن المسافر وعن المرضع والحبلي" (رواه ابو داود والترمذي والنسائي وابن ماجه)

’’انس بن مالک الکعبی سے مروی ہے۔ انہوں نے کہا فرمایا رسول للہ ﷺ نے بے شک اللہ تعالیٰ نے مسافر سے نصف نماز اٹھایا ہے۔ اور روزہ مسافراور دودھ پلان والی اور حمل والی عورت سے اٹھایا’’

آیت کریمہ اور حدیث میں بالتصریح یہ بات ظاہر ہے کہ مسافر کو بعد مقیم ہوجانے کے روزہ قضا کرناچاہیے اور جب مرضعہ کاعطف مسافر پر ہے۔ اور حبلی کا مرضع پر تب مرضعہ اور حاملہ کو بھی مسافرقیاس کیاجائے گا۔ موطا امام مالک میں حاملہ کے زکر کے بعد لکھتے ہیں۔

"قال ما لك واهل العلم يريدون عليها القضاء كماقال الله عزوجل(فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ ۚ﴿١٨٤سورة البقرة).....ويريدون ذلك مرضامن الامراض مع الخوف علي ولدها"

 امام مالک نے کہا اہل علم روایت کرتے ہیں کہ حاملہ پر روزے کی قضا ہے۔ جیسا کہ اللہ پاک نے فرمایا پس جو شخص تم میں سے بیمار ہو۔ یا مسافر پس گنتی ہے۔ دوسرے دنوں سے روایت کرتے ہیں کہ وہ جمیع امراض سے ایک مرض ہے ساتھ خوف کرنے اولاد اپنی سے یعنی حاملہ بمنزلہ مریض کےہے۔ اور مریض کو جب بعد المرض روزہ فوت شدہ کو قضا کرنا چاہیے۔ تو اس طرح حاملہ کابھی حال ہے۔ تفسیر خاذن میں آیت مذکور کے تحت میں ارقام فرماتے ہیں۔ ''حمل والی اور دودھ پلانے والی جب اپنی اولاد پر خوف کریں تو افطار کریں۔ اوردونوں پرقضا اور کفار ہ ہے۔ اور امام بخاری بخاری کے جز اٹھارویں میں ارشاد فرماتے ہیں۔ ''یعنی دودھ پلانے والی اور حمل والی کے بارے میں حسن بصری اور اور ابراہیم نے کہا۔ کہ وہ دونوں اگر اپنے نفس پر یا ان کی اولاد پر خوف کریں۔ توافطار کرلیں۔ اور بعد کو وہ روزہ قضا کریں۔ اس کے ما تحت میں ابن حجر فتح الباری میں حسن بصری سےروایت کرتےہیں۔ ''حسن بصری نے کہا دودھ پلانے والی جب خوف کرے اپنی اولاد پر تو افطار کرے۔ اور مسکین کو کھانا کھلاوے۔ اور حاملہ جب اپنے جی پرخوف کرے۔ تو افطار کرے اور بعد کو قضا کرے۔ اور وہ بمنزلہ مریض کے ہے۔ اس سے بھی معلوم ہوا کہ حاملہ بمنزلہ بیمار کے ہے۔ اور بیمار کے بارے میں اللہ تعالیٰ صاف فرماتاہے۔ فعدة من ايام اخر یعنی مریض اگر رمضان شریف میں روزہ نہ رکھ سکے تو پیچھے کو قضا کرے۔ علامہ شمس الحق صاحب فاضل عظیم آبادی عون للمعبود میں شرح ابو دائود میں حدیث مذکورہ الصدر کے تحت بیان فرماتے ہیں۔ ''حاملہ اور مرضعہ اور ان کی اولاد کو باقی رکھنے کےلئے افطار کریں۔ پھر قضا کریں اور کھانا کھلایئں۔ اس لئے کہ ان دونوں کاافطار غیرکےلئے ہے۔  اب رہا وہ قول جو سبل السلام میں ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے۔

"الحاصل والمرضع انهما يفطران ولا قضاء"

حامل اور مرضعہ کے بارے میں عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عبد اللہ ابن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ وہ دونوں افطارکریں۔ اور ان پرقضا نہیں ہے۔ سو جواب اس کا یہ ہے کہ آیت قرآنی اور حدیث نبوی ﷺ رہتے ہوئے قول صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین ہمارے لئے حجت نہیں ہے۔

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ  ثنائیہ امرتسری

جلد 01 ص 647

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ