سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(486) مسلمان تین طریق سے نماز پرھتے ہیں..الخ

  • 6283
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-14
  • مشاہدات : 906

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مسلمان تین طریق سے نماز پرھتے ہیں اول بطریق اہل حدیث یا شافعی یا حنبلی دوم بطریق حنفی۔ سوم بطریقمالکی یا شعی اارسال یدسے کیا تینوں طریق پر نماز ہوجائے گی ؟اگر نہیں تو صحیح طریقہ کونساہے؟اختلاف کب سے شروع ہوا؟باغی کون تھا۔ ؟ خصوصا طریقہ حنفیہ کا بلا رفع الیدین و آمین بالجہر افسوس جمع احادیثسے اتنا فائدہ بھی نہ ہوا ہ نماز بطریق صحیح بلا اختلاف معلوم ہوجاتی۔ (قاسم علی لدھیانوی)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حدیث شریف میں آیا ہے۔ صلوا كما رايتموني اصلي (میری طرح نماز پڑھو۔ ) اس حدیث کے موافق جوفرقہ مطابق صحیحہ کے پڑھے گا اس کی صحیح ہوگی۔ سنت صحیح کیا ہے۔ ؟ اس کی تحقیق آسان ہے کتب حدیث باب صفۃ الصلواۃ سامنے رکھ کر دیکھ لیں۔ جس کی نماز اس باب کے مطابق ہوگی۔ وہ صحیح ہوگی۔ اختلاف صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین کے ملکوں میں انتشار ہونے سے پیدا ہوا ہے۔ حنفی طریقہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت پر مبنی ہے جس میں رفع دین وغیرہ کا زکر نہیں۔ حنفی عدم زکر عدم شے سمجھتے ہیں اہل حدیث وغیرہ عدم زکر سے عدم شے نہیں سمجھتے یہ نتیجہ فہم کا ہے۔ اس معمولی اختلاف سے آپ جمع اھادیث پر افسوس کرتے ہیں۔ تو اہل قرآن کے اختلاف پر کیا کہیں گے۔ جو باوجود قرآن موجود ہونے کے اشد اختلاف میں پھنسے ہوئے ہیں ایک فریق پانچ پڑھتا ہے۔ تو دوسرا تین ایک فریق دو رکعتیں پرھتا ہے تو دوسرا ایک ایک فریق دوسجدے کرتا ہے ۔ تو دوسرا ایک اسی طرح اشد ترین اختلافات ان اہل قرآن میں ہیں۔ جو قرآن مجید کو یجا جمع پاتے ہیں۔ اور دعویٰ کرتے ہیں۔ کہ قرآن مفصل اور مبین ہے۔ اصل یہ ہے کہ اختلاف فہم بھی ایک حد تک موجب اختلاف عمل ہوتا ہے۔ جو اپنی حد پر رہے تو قابل معافی ہے۔ (8 جولائی 1932ء)

تشریح۔ از قلم حضرت مولانا حمید اللہ صاحب سراوی میرٹھی رحمۃ اللہ علیہ

رفع الیدین کی بات یوں ہے کہ تکبیر تحریمہ میں اور رکوع جاتے ہوئے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کرنا نبی کریم ﷺ سے متفق علیہ حدیث سے ثابت ہے۔ لفظ یہ ہیں۔

"عن ابن عمر كان رسول الله صلي الله عليه وسلم يرفع يديه حذو مشكبيه اذا افتتح الصلوة واذاكبر للركوع واذا راسه من الركوع" (متفق علیہ)

سبل السلام مطبوعہ فاروقی جلد اول صفحہ 104 اور یہ بات ہے الحمد کے مسئلے میں بیان ہوچکی ہے۔ کہ متفق علیہ حدیث کا درجہ صحت وقوت میں سے سبے اعلیٰ ہے اس لئے علی بن مدینی نے کہا ہے۔ کہ رفع الیدین کی حدیث سب کے اوپر حجت ہے کیونکہ اس کی سند میں کسی کو کوئی موقع کس طرح کے عذر کا نہیں ہے۔ دیکھو تلخیص صفحہ 81 اور رفع یدین کی حدیث صحیح سند کے ساتھ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت سے بیہقی میں اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دارقطنی میں اور حضرت ابو ہریرہ 8 سے ابو دائود میں اور حضرت عبداللہ بن زبیر و عبد اللہ بن عباس و ابو مو سیٰ الاشعری وبراء بن عازب رضوان اللہ عنہم اجمعین سے دارقطنی ونسائی وابن ماجہ وبہیقی وغیرہ میں آئی ہیں۔ دیکھو تلخیص صفحہ 82 اورحضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ترمذی جلد دوم کتاب الدعوات صفحہ 199 میں اکئی ہے امام شافعی کہتے ہیں کہ جس قدر صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین رفع الیدین کی حدیث کے راوی ہیں غالبا کسی حدیث کے اتنے راوی نہ ہوں گے۔ ابن منذر نے کہا کہ اہل علم نے اس بات میں اختلاف نہیں کیا کہ رسول اللہﷺ رفع یدین کیا کرتے تھے۔ امام بخاری نے کہا ہے کہ صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین میں سے سترہ شخص سے رفع الیدین کی روایت آئی ہے۔ بیقی نے تیس کی شمار کی ہے۔ حاکم نے کہا کہ ا س روایت پر عشرہ مبشرہ کا اوردیگر بڑے بڑے صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کا اتفاق ہوا ہے۔ اوربخاری نے بیان کیا ہے کہ حسن بصری اور حمید بن ہلال نے کہا ہے کہ تھے اصحاب رسول اللہﷺ رفع یدین کرتے ان میں سے کس۔ ۔ ۔ کو بھی مستثنیٰ نہیں رکھا۔ بخاری کہتے ہیں کہ کسی صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بابت یہ ثبوت نہیں ہوتا کہوہ رفع یدین نہیں کرتے تھے۔ اور بہقی نے اس حدیث میں یہ لفظ بھی روایت کیا ہے۔ کہ نبی کریم ﷺ ہمیشہ وفات تک اسی طور نماز پڑھتے رہے ہ سب بیان تلخیص صفحہ 81۔ 82۔ ونیل الاوطار جلد دوم صفحہ 68 میں ہے۔ آپ صاحبوں نے جو فرمایا ہے کہ جب روایت عدم رفع الخ اس کا تو ھال یہ ہے۔ کہ عدم رفع میں بہت اعلیٰ درجہ کی روایت ترمذی والی ہے جس کو امام ترمذی نے حسن بھی کہا ہے۔ سو اس کا مقابلہ ایک تو یہ ہے کہ خود ترمذی نے اسی باب میں عبد اللہ بن مبارک کا یہ قول نقل کیاہے۔ کہ رفع یدین کی حدیث ثابت ہے۔ اور عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ والی حدیث عدم رفع یدین کی ثابت نہیں ہوئی۔ پھر ترمذی نے اس پر کچھ کلا م نہیں کیا۔ دیکھو ترمذی جلد نمبر ا صفحہ 36 دوسرے یہ کہ ابن ابی حاتم نے اپنے باپ سے نقل کیاہے۔ کہ یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔ اور امام احمد بن حبنل اور ان کے استاد یحیٰ بن آدم اور بخاری اور ابو دائود اوردارقطنی اور ابن حبان نے بھی اس کو ضعیف او ر غیر ثابت کہا ہے۔ دیکھو تلخیص صفحہ 83 پس ایک دو امام کا قول اتنے اماموں کے مقابلے میں اور وہ بھی جو ترمذی کے استادوں کے استاد ہیں۔ مستند نہیں ہوسکتا۔ اور دوسری روایت محمد بن جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سند سے ہے سو اس کو امام رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کوئی شے نہیں ہے۔ اورا بن جوزی نے کہا کہ موضوع ہے۔ دیکھو تلخیص صفحہ 83 غرض عدم رفع کی کوئی حدیث ایسی نہیں ہے۔ جس کو دو چار حفاظ و آئمہ حدیث نے بھی صحیح کہا ہو۔ اور دوسروں نے اس پر جرح نہ کی ہو۔ اور جب یہی حال ہوا تو سنت یہ ہے کہ رفع یدین کیا جاوے اور اگر کوئی نہ کرے تو بوجہ دوسری جانب کی روایات ضعیف کے اس پر کچھ اعتراض نہ کیاجاوے۔ اور یہ جو آپ نے فرمایا کہ حسب روایات نسخ کے سو نسخ کی یہ بات ہے۔ کہ معتمد و مستند حفاظ و ائمہ حدیث میں سے کسی نے رفع الیدین کی حدیث کو منسوخ نہیں کہا ہے او ر جس حدیث کو حنفی صاحب اس کا نسخ بتلاتے ہین۔ وہ وہ ا لتحیات کے سلام کے بارے میں ہے۔ اس کو اس کے نسخ سے کچھ تعلق نہیں ہے۔ جیسا کہ محمد بن اسماعیل میرے اور امام نووی نے اور ھافظ ابن حجر نے کہا کہ دیکھو سبل السلام جلد او ل صفحہ104 وصحیح مسلم مع نووی جلد نمبر 1 صفھۃ 181 اور تلخیص صفۃ 82 اور بخاری رحمہ اللہ علہ نے کہا ہے۔ جو اس حدیث کو مسلم ...مالي اراكم رافعي ايديكم الخ سے منسوخ بتلاتے ہیں۔ ان کو علم کا کوئی حصہ نصیب نہیں ہوا۔ چونکہ تمام اہل علم کا اتفاق ہے۔ کے وہ حدیث تشہد کےبعد سلام پھیرنے کے بارے میں ہے۔ دیکھو تلخیص صفحہ 83 پر الخ۔ حررہ حمید اللہ 20 زی الحجہ 1316ہجری۔ فتاویٰ نزیہ ج 1 صفحہ 259 ۔ (1)

شرفیہ

جس روایت سے حنفی استدلال کرتے ہیں۔ یعنی ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت اس  روایت مین تو پوری نماز ہی نہیں بیان کی گئی پھر ناقص شے سے استدلال چہ معنی اول تو روایت سند کے لہاظ سے صحیح نہیں۔ دوم اس میں صرف اتناہے۔ کہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا میں تم کو رسول اللہ ﷺ کی نماز پڑھ کردکھائوں۔ پھر جب شروع کی تو اول رفع یدین ایک مرتبہ کیا پھر آگے قیام قراۃ رلوع سجود قومہ جلسہ قعدہ تسبیحات وغیرہ کچھ بھی نہ کیا تو اس کا یہ مطلب ہوا کہ حضور ﷺ کی نماز بس اسی قدر تھی باقی قیام قرات رکوع سجود وغیرہ سب منسوخ۔ اوراگر یہ مطلب کہ صرف رکوع وقومہ کے علاوہ رفع یدین کا نسخ مقصود تھا۔ تو معلوم ہوا یہ امر صرف ابن مسعود ہی کو معلوم تھا باقی ساری دنیا تمام صحابہرضوان اللہ عنہم اجمعین تابعین ان کے خلاف تھے۔ یہ امر بداہتہ باطل ہے ۔ اور اگر یہ بات ہے کہ رفع یدین اول ایک مرتبہ ہے بار بار یعنی دو تین چار نہیں۔ تو اہل حدیث بھی اول ہیں۔ ایک ہی بار کرتے ہیں۔ پھر بوقت رکوع پھر بوقت قومہ پس اس سے تو ہر صوت سے استدلال باطل ہے۔ (ابوسعید شرف الدین دہلوی)

--------------------------------------------

1۔ یہ مضمون ایک طویل سوال کے جواب میں تفصیل کےلئے حوالہ مذکور دیکھو 12 منہ راز

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ  ثنائیہ امرتسری

جلد 01 ص 633

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ