السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
فی زمانہ کثرت سے رواج ہے۔ کہ مسلم حصول انعام کےلئے مثلا آپ شلڈ فٹ بال کھیلاکرتے ہیں۔ اور کھیلنے کےباعث عصر اور مغرب کی نماز ترک کردیتے ہیں۔ بعد میں قضا نماز پڑھ لیتے ہیں کیا یہ جائز ہے۔ (محمد مصطفے)
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
نماز قضا کر کے پڑھنا بلاوجہ اچھا نہیں ہے کھیلنے والوں کو چاہیے کہ پہلے افسروں سے تصفیہ کرلیں کہ نماز کے وقت کھیل کو چھوڑ دیں گے۔ وہ اگر نہ مانیں تو ظہرکے ساتھ عصر ملالیں یا عصرکے ساتھ ظہر ملاکر جمع پڑھ لیں۔
آپ کے جواب پر کونسی قرآنی آیت یا حدیث صراحتا اجمالا دلالت کرتی ہے۔ ؟متبع احادیث سے تو یہ پتہ چلتاہے۔ کہ حاجت کے وقت حضر میں جمع بین الصلاتین دفع حرج کے لئے جائز ہے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ یہ شرط بھی ملحوظ رکھی گئی ہے۔ جمع بین الصلواتین ان کی عادت مستمرہ نہ بن جائے۔ چنانچہ باب ماجا فی الجمع بین الصلواتین کی پہلی حدیث کے متعلق حافظ ابن حجر عسقلانی اپنی کتاب الفتح میں لکھتے ہیں۔
"قد ذهب جماعة من الائمة الي الا خذ بظاهر هذا الحديث فيجوز الجمع في الحضر للحاجة مطلقا لكن بشرط ان لا يتخذ ذلك عادة"
رجا مندی افسران کوئی ایسی چیز نہیں۔ ہے کہ جس کو ہم حاجت اور ضرورت کہہ کر نماز کوجمع کرنے کا حکمدیں۔ اس کے علاوہ عام طور سے یہ دیکھا جاتاہے کہ اس قسم کا کھیل کھیلنے والے حضرات کھیل میں مشغولیت کے باعث اوقات صلواۃ کا قطعا لہاظ نہیں کرتے۔ ایسی حالت میں اگر ان کو جمع بین الصلواتین کا حکم دے دیا جاوے تو یقینی امر ہے کہ وہ اوقات صلواۃ سے صرف غفلت ہی نہیں بلکہ جمع بین الصلواتین ان کی عادت بن جائےگی۔ (ش۔ م۔ اعظمی از جامعہ دارالسلام عمر آباد)
جواب۔ جو شخص ملازمت کی صورت میں افسران کی خفگی کی پرواہ نہیں کرتا۔ وہ بے شک وقت پر نماز پڑھے۔ اور جو اس کو برداشت نہیں کرسکتا۔ وہ بحکم ۔
إِلَّا أَن تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقَاةً﴿٢٨﴾سورة آل عمران
اور بخاری شریف کی حدیث جمع بین الصلواتین پر عمل کرے۔ تو جائز ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب