السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
خظبہ جمعہ بجواب ’’حمایت اسلام‘‘ لاہور
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اخبار حمایت اسلام لاہور میں ایک سوال چھپا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں۔ علماء کرام توجہ فرمایئں۔ حمایت اسلام کے کسی صفحے پر یہ عنوان''خطاب ترک زبان میں'' یہ خبر درج ہے کہ قسطنطنیہ کے پانچ علماء ایک جمعیت نے بزبان ترکی کی عیدین اور جمعہ کے 58 خطبے تیارکیے ہیں۔ جن کو آئندہ خطیب مساجد میں پڑھیں گے۔ ان خطبات وعالیات میں واحادیث حمد وشکر کے بعد مسلمانوں کو شرعی احکام کی بنا پر اس امر کا جوش دلایا گیا۔ کہ وہ ہوئی کمیٹی یتیم خانوں شہدا کے بچوں جمعت حمایت اطفال۔ اور جمیعت ہلال۔ احمر وغیرہ نیک کاوں کی طرف متوجہ ہوں۔ کہا جاتا ہے کہ وزیر دینیات کی منظوری کے بعد ہی عنقریب ہی سرکاری فرمان جاری کردیئیے جایئں گے۔ کہ تمام قلمر وئے ترکیہ میں متذکرہ خطبے پڑھے جایئں۔ اس خبر سے دو باتیں واضح ہوتی ہیں۔
1۔ علماء ترکیہ کے نزدیک خطبوں کا اس زبان میں ہونا لازمی اور لاابدی ہے۔ جس کو سامعین سمجھ سکیں۔
2۔ خطبات میں ضروریات کا بیان ضروری جزو ہے۔ ہم اپنے علماء کرام کی خدمت اقدس میں بصد آداب ونیاز گزارش کرتے ہیں۔ کہ وہ اس امر پر غو ر فرمایئں۔ کہ وہ ان دونوں باتوں میں سے ایک یا دونوں ہی اپنے ملک میں رائج کرسکتے ہیں یا نہیں؟ یہ خیال ہے کہ یہاں خطبہ اردو زبان میں ہونا چاہیے یا عربی زبان میں اس کا تعلق عالموں سے ہے۔ ظاہر ہے کہ انسان مادری زبان میں زیادہ آسانی سے سمجھ سکتا ہے۔ معاملہ بالکل صاف ہے۔ ہمارے دینی پیشوا اگر تھوڑی سی توجہ مبذول کرایئں تو وہ چند ہفتوں میں ایسے خطبات تیار کراسکتے ہیں۔ جو قوم کی موجودہ مشکلات کے حل اور ضروریات کی تکمیل پر راغب و مائل کرسکتے ہیں۔ امید ہے کہ دیگر علماء کرام بالعموم اور جمعیت علماء بالخصوص ہماری عاجزانہ اور عامیانہ درخواست کو اپنی توجہ مبارکہ سے مشرف فرمایئں گے۔ (حمایت اسلام 13 جنوری 37 ص5)
مسلمانوں کی خوش قسمتی سے خطبہ کے متعلق بھی اختلاف پیدا ہوچکا ہے۔ کہ اس میں دیسی زبان میں خطاب کرناجائز ہے یا نہیں؟ حالانکہ خطیب کی ہیت کو قبلہ کی طرف پیٹھ اور سامعین کی طرف منہ ہاتھ میں اعصا سروقد کھڑے ہوکر ایھالناس یھالناس کہنا۔ اس پر شریعت کا یہ حکم کہ اثناء خطبہ میں خاموش ہو کر سنتے رہو۔ جو بولے وہ سخت گناہ گار قطع نظر اوردلیل کے یہ صورت کزائی ہی بتارہی ہے۔ کہ خطیب کا خطبہ بغرض تفہیم ہے۔ اس شہادت اور قرینہ حالیہ کے بعد ہم اسوہ حسنہ (سنت نبویہ ﷺ) پر نظر کرتے ہیں۔ تو وہاں ایک عجیب طریق خطبہ کا پاتے ہیں۔ حدیث صحیح میں وارد ہے۔
"كانت لرسول الله صلي الله عليه وسلم خطبتان يقراء القران ويذكر الناس" (مشکواۃ باب الخطبہ)
’’یعنی آپﷺ کے دو خطبے ہوتے تھے۔ ان میں آپ قرآن شریف پڑھتے۔ اور لوگوں کو وعظ فرماتے تھے۔ ‘‘
یہ حدیث اپنا مضمون بتا نے میں صاف اور صریح ہے۔ جوکسی مزید تشریح کی محتاج نہیں صاف الفاظ سے سمجھ میں آتا ہے کہ ہم خطبہ میں رسول اللہﷺ قران مجید پڑھ کر وعظ فرماتے تھے۔ ''
یہ تو ہرایک واقف اور ماہر قرآن پر واضح ہے۔ کہ قرآن مجید میں ہر ضرورت کو پورا کیا گیا۔ اور ہر مرض کی دوا بتائی گئی ہے۔ کہ پس خطیب کو چاہیے جیسا موسم اور جیسی ضرورت ہو اسی کے مطابق قرآن مجید سے حکم اور حکمت کی آیات پڑھ کر خطبہ میں وعظ فرمادیں۔ اور بس چنانچہ اہل حدیث کی مساجد میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ بہت سے علماء کرام نے سال بھر کےخطبے بھی بنائے ہیں۔ لیکن جن خطبیوں نے قرآن شریف با معنے پڑھا ہوا ان کو کوئی ضرورت نہیں۔
ما قصہ سکندر دولھا نخواندہ ایم ازما بجز حکایت مہرووفا سپرس
ایڈیٹرصاحب ''حمایت اسلام'' سے امید ہے کہ اس جواب کو اپنے پرچے میں نقل کریں گے۔ (23رجب 1345ہجری)
مذاکرہ علمیہ بابت مسئلہ وعظ جمعہ مندرجہ اہل حدیث نمبر 13 ج9 مورخہ 5 صفر 1330ہجری اس مسئلے میں جہاں تک مجھے معلوم ہے۔ یہی ہے کہ رسول اللہ ﷺ خطبہ جمعہ میں قرآن مجید پڑھتے۔ اور تزکیر فرماتے۔ یعنی وعظ کہتے۔ جابر بن سمرہرضی اللہ تعالیٰ عنہ سے صحیح مسلم میں مروی ہے۔
"كانت لرسول الله صلي الله عليه وسلم خطبتان يجلس بينهما يقراء القران ويذكر الناس (الحدیث)
اور میری نظر سے یہ کہیں نہیں گزرا ہے۔ کے رسول اللہﷺ نماز جمعہ کے بعد وعظ کہتے اور لوگوں کواس کے لئے ٹھیراتے اورصیغہ امر آیت کریمہ
فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلَاةُ فَانتَشِرُوا﴿١٠﴾سورة الجمعة
میں ویسا ہی ہے۔ جیسا کہ آیت کریمہ
وَإِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوا﴿٢﴾سورة المائدة
میں ہے۔ یعنی اباحت کےلئے وجوب کےلئے نہیں ہے۔ پس بعد نماز جمعہ ہر شخص کو مباح ہے کہ چلاجائے یا ٹھرا رہے نہ چلاجانا ہی واجب نہ ٹھر جانا ہی واجب اور نہ کوئی ان میں سے ممنوع وعظ وتذکیر بعد نماز جمعہ کا وہی حکم ہے۔ جو اور وقتوں کا ہے۔ تو جس طرح اور وقتوں میں وعظ وتذکیرجائز ہے اسی طرح بعد نماز جمعہ بھی جائز ہے۔ تو اگرکوئی شخص بعد از نمازجمعہ محض جواز کے خیال سے وعظ کہے اور دوسرے لوگ سننے کےلئے ٹھر جایئں تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ لیکن جو شخص اس وعظ میں شامل نہ ہو اور بعد از نماز جمعہ چلا جاوے۔ اس کو زجر کرنا البتہ بے وجہ اور ناجائزہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب