سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(463) ایک رکعت وتر جائز ہے؟

  • 6260
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 826

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جناب ایسر میں مرقوم ہے۔ کہ رسول اللہ ﷺ۔ ۔ ۔ ایک کعت سے تیرہ رکعتوں تک طاق کے عدد میں نماز گزارتے تھے۔ امام ابو حنیفہ کوفی کے ہاں وتر ایک رکعت جائز نہیں۔ امام شافعی کے ہاں ایک طاق رکعت جائز ہے۔ اس کا باعث کیا ہے۔ ؟صریح طور سے صحیح حدیث کی سند کے ساتھ لکھیں۔ اور جب وتر نماز ہوچکتی ہے۔ تو صبح صادق تک دوسری نماز نفل وغیرہ نہیں ادا کرنا۔ وتر کی نماز نفل ہوچکی اکثر لوگ کہا کرتے ہیں پھر آپ ہی وتر کے بعد تشنیع الوتردو رکعت نماز بیٹھ کے گزارتے ہیں۔ دیگر امام ابو حنیفہ کے ہاں جو نماز تکبیرتحریمہ بیٹھ کر باندھی جائے گی۔ وہ نماز جائز نہیں حالانکہ چند لوگ عشاء میں آخری نفل نماز بیٹھ کر باتکبیر کہتے ہیں۔ یہ جائز ہے یا نہیں؟ (سائل مذکور)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

وتر ایک رکعت جائز ہے۔ امام احمد کا قول تو یہ ہے کہ الواحد اثبت جو امام کسی بات کے منکر ہیں وہ اس لئے منکر ہیں کہ ان کو اس کی روایت نہیں ملی۔ وتر کو خاتمہ نماز کرنے کی روایت آئی ہے اور بعد وتردورکعت پڑھنے کا ثبوت بھی ہے۔ لہذادونوں جائز ہیں۔ بے عذر بیٹھ کر نفل پڑھنے سے نصف ثواب ہے۔ ان مسائل کی تفصیل سفر السعادت اور اس کی شرح میں ہے۔

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ  ثنائیہ امرتسری

جلد 01 ص 619

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ