السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
علماء دین ومفتیان شرح متین اس مسئلہ میں اللہ اور اس کے ر سولﷺ کا کیا حکم ہے۔ کہ ایک شخص مسمیٰ زید کہتا ہے۔ کہ مقتدی ہوکر سینہ پر ہاتھ باندھنا اور مقتدی ہوکر رفع الیدین کرنا اور مقتدی ہوکر آمین بالجہر کہنا آپ ﷺ کے قول وفعل سے ہرگز ثابت نہیں ایک دو قت مقتدی ہونے کے بعد باوجود بھی آپ نے ان افعال مذکورہ سے کسی ایک کو بھی نہیں کیا۔ بکر کہتا ہے اللہ تبارک تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے آپ کو اچھا نمونہ بنا کے آپ کے نقش قدم پر چلنے یعنی اپ کی پوری اتباع کرنے کی ہمیں تاکید شدید مطابق آیت کریمہ لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّـهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ
کی ہے۔ علاوہ ازیں حدیث شریف سے یہ بات ثابت ہوتی ہے۔ کہ آپﷺ نے فرمایا ہے۔ حدیث شریف ؛؛صلوا كما رايتموني اصلي'' تم نماز پڑھو۔ جس طرح مجھ کو نماز پڑھتا ہوا دیکھتے ہو یعنی تم میرے نماز جیسی نماز پڑھو۔ پس ہر ایک مقتدی اور امام کے لئے آپ کا یہ حکم شامل ہے۔ اور عام ہے۔ اس سے کوئی مستثنیٰ ہو نہیں سکتا۔ اب میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ ان دوشخصوں یعنی زید وبکر میں سے کس کہنا شرع شریف کے مطابق ہے نصوص شرعیہ کے ساتھ ارقام فرمایئں۔ (العاجز عبد رزاق عفی عنہ مدرس پنشن خوار محلہ سید داژی قصبہ جن پتن ضلع بنگلور
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
زید کہتا ہے۔ کہ بحالت اقتداء سرور کائنات ﷺ سے ان امور مزکوررہ کا صدور کہیں ثابت نہیں۔ من ادعي فعليه البيان اور حضور ﷺ کا عدم رفع یدین وعدم جہر بالا میں حدیث سے ثابت ہے ۔ دیکھو ترمذی شریف ان افعال کا نہ کرنا بھی اسوہ حسنہ اور "صلوا كما رايتموني اصلي'' میں داخل ہے۔ اور تاریخ فعل وعدم فعل کی کسی کو معلوم نہیں تاکہ ایک دوسرے کو ناسخ ومنسوخ کہا جائے۔ اب البتہ ترجیہات ہیں۔ لہذا مناقشہ فضول ہے۔ (ریاض الدین مفتی دارالعلوم دیوبند)
کسی فعل کے سنت یا مستحب ہونے کے لئے یہ کافی ہے۔ کہ رسول اللہ ﷺ نے وہ کام کیا اس پر یہ سوال کے حالت امامت میں کیا حالت اقتداء میں بے جا حجت ہے۔ اس سوال کی صحت نہ قرآن وحدیث سے ہوتی ہے۔ نہ کتب اصول سے کیونکہ علمائے اصول نے کہیں یہ شرط نہیں لگائی کے فعل نبوی ﷺ اقتداء میں ہو۔ یاامامت میں پس جو فعل ثابت ہے۔ وہ ہر حال میں قابل اتباع ہے۔ عدم رفع اورعدم جہر کی روایات صحیح نہیں۔ در صورت صحت بطریق علم اصول مسئلہ بالکل صاف ہے۔ کیونکہ مسنون امر کی تعریف یہ ہے کے اس کور سول اللہ ﷺنے کبھی ترک بھی فرمایاہو۔ پس ترک نبوی ماہیت سنت میں ددخل ہے۔ کیونکہ متبع سنت کے لئے اس فعل کا ترک کرنا اتباع سنت نہیں بلکہ نقص ثواب ہے۔ مثلا ہر نماز کے لئے وضو مامور بہ ہے۔ لیکن وضو ہونے کی صورت میں ترک ووضو سے نماز پڑھنی جائز ہے۔ مگر وضو کرنے کا ثواب نہیں ٹھیک اسی طرح رفع ترک ثواب ہے ترک فعل سنت نہیں ۔ فافہم (9 صفر 1350ہجری)
سوال میں جو صورت بتائی ہے۔ کے اقتداء میں حضور ﷺ فلاں فلاں امور ثابت نہیں لہذا وہ قابل عمل نہیں اس پر خدشہ ہے کہ حضورﷺ سے بحالت اقتداء نماز کی تفصیل بھی ثابت نہیں ۔ مثلا پہلے تحریمہ پھر ثناء پھر پہلارفع یدین پھر قیام وقراۃ پھر ر کوع پھر رکوع میں تسبیحات پھر قومہ پھر قومے کا زکر سمع اللہ لمن حمدہ یا حرف ربنا لک الحمد پھر دو سجدے اور تسبیحات پھر قعدہ اولیٰ اخری اور تشہد ودرود وغیرہ پھر ان امور کا جوابجوہوگا وہی او ر امور مثلارفع یدین ثلاثہ وغیرہ کا ہوگا اصل یہ ہے کہ ایک مرتبہ آپ سے قول سے فعل سے کسی امر کا ثبوت عمل کےلئے کافی ہے۔ تاوقت یہ کہ اس کی نفی ثابت نہ ہو۔ اور یہاں تعارض ہے نہیں اس لئے کہ تعارض میں مساوات شرط ہے۔ جو یہاں مفقود ہے۔ اور بغرض تسلیم قول سائل جب تعارض نہ ہوا تو پھر دونوں صورتیں قابل عمل نہ رہیں۔ لہذا فریقین کا عمل غلط ہوا۔ "لا حول ولا قوة الا با لله" کیا بیہودہ استدلال ہے۔ لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں۔ (ابوسعید شرف الدین دہلوی)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب