السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
نماز تراویح دو دو رکعت پڑھنے کا حکم یا چار چار رکعت اگر نماز تراویح چار رکعت ایک سلام سے پڑھی جائے تو دو رکعت کے بعد عمدا قعدہ یعنی تشہد پڑھنے کے لئے بیٹھیں تو کیا یہ نماز صحیح ہوگی۔ (سائل مذکور)
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
حدیث شریف میں رات کی نماز دو دو رکعت آئی ہے۔ مگر چار بھی آپﷺ سےثابت ہیں۔ ایسا بھی آیا ہے کہ آپﷺ نے آخر میں قعدہ کیا ایسےمسائل میں نزاع نہیں کرنی چاہیے۔
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ان سوالات میں کہ زید کہتا ہے نماز تراویح کچھ نہیں بدعت ہے نہ وہ پڑھتا ہے۔ اور نہ کسی کو پڑھنے دیتا ہے۔ جو آدمی نماز تراویح پڑھنے آتا ہے۔ اس کو مسجد سے بھگا دیتا ہے۔ نماز تراویح کو اول رات جماعت سے پڑھنا یہ سب کاموں کو بدعت کہتاہے۔
2۔ نماز فرض کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا بدعت ہے۔ یا درست؟
3۔ مسجد میں محراب بنانا بدعت ہے۔ جس میں محراب ہو قطعا نماز نہ ہوگی۔ ؟کہتا ہے درست ہے یا نہیں؟
4۔ صدقہ فطر غیر صالح یعنی جو لوگ تمام شرعی کاموں ایمان رکھتا ہے۔ مگر عملاً کبھی نماز چھوڑتا ہے گانا سنتا ہے۔ نشہ پیتا ہے وغیرہ اس قسم کے آدمی کودینا درست ہے یا نہیں؟
5۔ رمضان میں رسول اللہ ﷺ تراویح وتہجد دونوں ساتھ پڑھتے تھے۔ یا صرف تہجد اس بارے میں رسول اللہﷺ و اصحاب کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین اجمعین کاکیا عمل تھا۔ بینوا بالدلیل توجروا
الجواب۔ 1۔ زید کہتاہے تراویح کی نماز سنت ہے۔ رسول للہﷺ نے پڑھی ہے۔ جیسا کہ صحاح ستہ کی صحیح حدیثوں سے پتہ چلتاہے۔ بخاری و مسلم میں ہے۔
"عن ابي سملة بن عبد الرحمان انه سال عن عائشة كيف كانت صلوة رسول الله صلي الله عليه وسلم فقالت كا كان يزيد في رمضان ولا في غيره علي احدي عشرة ركعة الخ"
اور حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ابی ابن کعب و تمیم داری کو تراویح کی نماز پڑھانے کے لئے امام مقرر کردیاتھا۔ چنانچہ موطا امام مالک میں ہے۔
"عن السائب بن يزيد انه قال امرعمربن الخطاب ابن بن كعب وتمبم داري ان يقوما للناس باحدي عشرة ركعة"
اور اس نماز کو شب وسطا اور آخر شب میں ہرطرح پڑھنا جائز ہے۔ حضور ﷺ نے اکثر آخر شب میں پڑھی ہے۔ ایک مرتبہ اول شب سے آخر تک بھی پڑھی ہے۔ اور صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین آپ کے پیچھے جماعت سے پڑھتے تھے فرض ہونے کے خوف سے آپ نے منع فرمایا جب آپ کا انتقال ہوگیا (ﷺ) تو صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین نے جماعت سے نماز پڑھی ہے پہلے زمانے میں اس نماز کو قیام الیل کہتے تھے ۔ بعد میں اس کو تراویح کہنے لگے۔ نا م کے بدلنے سے ماہیت نہیں بدلتی۔ اس کی نظیریں بہت سی ہیں۔ اور تراویح پڑھانے والے کو مسجد سے نکال دینا سخت گنا ہ ہے۔ اور نکالنے والا "وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن مَّنَعَ مَسَاجِدَ اللَّـهِ أَن يُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ" کے مصداق ٹھرے گا۔
2۔ فرض نمازوں کے بعد دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا جائز بلکہ سنت ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا!
"ما من عبج بسط كفيه في دبر كل صلوة (الحديث) رواه الحافظ ابو بكر بن السني عن الا سود العامري عن ابيه قال صليت مع النبي صلي الله عليه وسلم الفجر فلما انحرف رفع يديه ودعا الخ رواه الحافظ ابو بكر بن ابي شيبة عن محمد بن يحيي الاسلمي قال رايت عبد الله بن العزيز وراي رجلا رافعا يديه قبل ان يفر غ من صلوة فلما فرغ منها قال ان رسول الله صلي الله عليه وسلم لم يكن يرفع يديه حتي يفرغ من صلوة" (رجاله ثقات كذا قي كتاب فضل الدعا في احاديث رفع اليدين في الدعاء)
3۔ بعض کے نزدیک بدعت ہے۔ مگر راقم کے نزدیک جائز ہے۔ اور جس مسجد میں محراب ہے۔ اس نماز میں بلا کراہت جائزہے۔ واللہ اعلم بالصوب
4۔ دے سکتے ہیں۔ بشرط یہ کہ غریب۔ مسکین۔ ضرورتمند مستحق ہو ۔ زکواۃ تالیف کی حیٖثیت سے جب کہ غیر مسلم کو دے سکتے ہیں تو مسلم فاسق کو بدرجہ اولیٰ دینا جائزہے۔
5۔ اس کا جواب پہلے سوال میں آچکا ہے۔ اگر عشاء کے بعد قیام الیل کر لیا جائے تو یہ تراویح ہے اور سوجانے کے بعد وسط یا آخر شب میں قیام الیل کرے تو یہ تہجد ہے اور دونوں طرح جائزہے۔ جب اول شب میں پڑھ لیا تو آخر شب میں تہجد پڑھنا چاہیے۔ اور اگر آخر شب میں پڑھا تو وہی تراویح ااور وہی تہجد ہوجائے گا۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب