السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
عمارت مسجد میں مشرکین سے امداد لینی جائز ہے کہ نہیں نیز قربانی کی کھال فروخت کر کے اس کی قیمت عمارت مساجد میں لگانی جائز ہے کہ نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مشرک اگر محض للہ امداد دیں تو جائز ہے۔ آپﷺ کی نبوت سے پہلے کعبہ شریف کی عمارت مشرکوں نے اپنی لاگت سے بنائی تھی قربانی کی کھال کا مصرف فقراء مساکین ہیں۔ حدیث شریف میں ایسا ہی آیا ہے۔
محض مخلص حکیم عبد الرزاق صادق پوری اس پرتعاقب کرتے ہیں۔ کہ سوال کے جواب میں فرمان الہیٰ ہے۔
قُلْ أَنفِقُوا طَوْعًا أَوْ كَرْهًا لَّن يُتَقَبَّلَ مِنكُمْ ۖ إِنَّكُمْ كُنتُمْ قَوْمًا فَاسِقِينَ ﴿٥٣﴾ سورة التوبة
اور فرمان نبوی ﷺ "لواستعين بمشرك" ’’ہمیشہ دینی کام میں استعانت کو منع ہے۔‘‘ عمارت بیت اللہ شریف پر قیاس مع الفارق ہے۔ بعد فتح کی کوئی آیت یا حدیث پیش فرمایئں۔ تو مقبول ہے۔
جواب۔ عدم قبول معطی کے حق میں ہے۔ اس سے چندہ لینا ثاتب نہیں ہوتا۔ لواستعين بھی استعانت کو مانع ہے۔ یعنی امداد خواہی نہ کرے ۔ لیکن دینے والا از خود دے۔ تو بحکم حدیث شریف (اذا اعطيت بلا اشراف نفس فخذ) لینا جائز ہے۔ بشرط یہ کہ مال حرام نہ ہو۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب