سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(404) لائوڈ اسپیکر پر خطبہ دینا اور امام کا قرات کرنا

  • 6201
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1074

سوال

(404) لائوڈ اسپیکر پر خطبہ دینا اور امام کا قرات کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

لائوڈ اسپیکر پر خطبہ دینا اور امام کا قرات نماز ادا کرنا جائز ہے یا ناجائز نیز اگر کوئی ایسا کرے تو اس کی اور جماعت کی نماز ہوسکتی ہے یا نہ؟ (عبد الخالق سری نگر)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نیک نیتی سے جائز ہے۔ والله يعلم المفسد من المصلح  (19 جمادی الاخر 64ہجری)

شرفیہ

 رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں سب سے بڑا مجتمع حجۃ الوداع کا تھا اس میں  آپﷺ نے عید کے دن خطبہ فرمایا تو آپ ﷺ تقریر فرماتے تھے۔ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  آپ کے ترجمان اور مبلغ تھے۔

"عن رافع بن عمر والمزني قال قرايت رسول الله صلي الله عليه وسلم  ان يخطب الناس بمني حين ارتفع الضحي علي بغلة شهباء وعلي يعبر والناس بينه قالو وفاعد انفهي(سنن ابي داود ص 277 وقال في تنفيح رجاله موثقون واخرجه اييضا النسايئ ج1 ص)138

سنت تو یہ تھی مگر چونکہ اب کل جدید لذیذ کی بلا عموم البلوی ہے اور بعض اصحاب رضوان اللہ عنہم  اجمعین نے جدل سے اباحت بتائی ہے خیر سنت نہ سہی اباحت ہی سہی مگر یہ امر امام کو نماز میں جائز نہیں۔ اس  لئے کہ خظبے میں تو مقصود اسماع سامعین ہے۔ یعنی سب کو سنانا مقصود ہے۔ اور نماز میں قرات یا تکبیرمیں بعض کا اسماء کافی ہے۔ ا س لئے کہ صحیح بخاری میں ہے۔ کے حضور ﷺ کی علالت کے وقت آپ امام تھے۔ اور صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  مکبر تھے۔ ثابت ہوا کہ آپ کی آواز پست تھی۔ تکبیر بھی سبکو نہ سنی جاتی تھی۔ او ر حجۃ الوداع میں تکبیر کا ثبوت نہیں ثابت ہوا کہ امام کی قرات وتکبیر کا سب کوسنانا ضروری نہیں۔ لہذا بلا ضرورت ایک چیز کو مقصد بنانا نماز میں لائوڈ اسپیکر لگانا تشریح جدید ہے۔ نیز آگے چل کر خظرہ ہے۔ کہ لوگ متقدی اور امام اپنے اپنے میں اس کی اقتداء کر کے  مساجد کو معطل کردیں۔ اور نماز کھلیل بن جائے۔ (ابو سعید شرف الدین دہلوی)

لاؤڈ اسپیکر

کے جواز پر علمائے اسلام کا عام طور پر اتفاق ہوچکا ہے۔ عدم جواز کے قائلین اس کا ثبوت نہں دے سکے۔ اور نہ ی اس کے عدم جواز اورممانعت پر کوئی دلیل ملتی ہے۔ (مفتی اہل حدیث سوہدرہ پنجاب پاکستان 24 اگست 1951ء)

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ  ثنائیہ امرتسری

جلد 01 ص 590

محدث فتویٰ

تبصرے