السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
آلہ آواز جو انگریزی میں لائوڈ اسپیکر کہتے ہیں وعظ اور خطبہ میں جائز ہے یا نہیں؟ (سی اے حمزہ از پالگھاٹ)
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
لائوڈ اسپیکر رکھنا جائز ہے۔ وہ انسانی آوازسے جو بلند ہوا کرتی ہے۔
امور مندرجہ زیل کی اباحت و جواز یا حرمت کے متعلق تشریح فرمادیں۔ جوابات مختصر و نمبردار ہوں۔ بینوا توجروا۔
1۔ موجودہ دور کی ایجادات (جن کے استعمال سے ارکان اسلام کی ادایئگی میں خلل کا اندیشہ نہیں) سے فائدہ اٹھانا کیساہے؟
2۔ بدعت اور سنت میں کیا فرق ہے۔ ؟ اگر زمانہ نبوی کے بعد کی ہر نئی چیز یا نیا کام بدعت ہے تو مسلمانوںکی عہد نبوی ﷺ کے بعد کی اشیاء کا استعمال کیسا ہے۔ اور ہر چیز میں اصل اباحت ہے اس کی وضاحت فرمادیں۔
3۔ مسلمانوں کو زمانہ نبوی سے مختلف زبان ۔ لباس۔ خوراک۔ زرائع تجارت۔ وطریقہ معاشرت اختیار کرنے کے جواز کی کیا دلیل ہے۔ ؟
4۔ دیگر قومیں اپنے خیالات عقائد ومذاہب کی اشاعت کے لئے لائوڈ اسپیکر استعمال کرتی ہیں۔ تاکہ ان کی آواز دور تک زیادہ سے زیادہ لوگوں کے کانوں تک پہنچ سکے۔ اور کچھ عرصہ سے مسلمان بھی اپنے مذہبی جلسوں میں استعمال کرتے ہیں۔ اگر اسے جمعہ و عیدین کے خطبات میں بھی استعمال کیا جائے۔ تاکہ خطبوں کی افادیت وسیع تر ہوسکے۔ تو کیا یہ ناجائز ہے۔ ؟اور کیا لوگوں کا ایسے جلسوں میں جانا بند کردیا جائے جہاں علماء کے وعظ کے لئے لائوڈ اسپیکر لگا ہوا ہو۔ (سائل محمد خلیل مئوی)
جواب۔ منجانب مولانا محمد اسماعیل صاحب مدرس و خطیب جامع مسجد اہل حدیث گجرانوالہ الجواب و باللہ التوفیق۔
1۔ ایجادات سے استفادہ بلاکراہت درست ہے۔ ریل۔ سیارہ۔ تار ۔ ٹیلی فون۔ لائوڈ اسپیکر۔ وغیرہ اسی نوعیت کی اشیاء ہیں جہاں تک اسلام او ر دین کی اشاعت میںاستفادہ ممکن ہو ان کا استعمال بلا درست ہے۔
2۔ سنت اور بدعت میں فرق ایک ملبوط بحث ہے۔ جس کے لئے شاطبی کی الاعتصام اور سید اسماعیل شہید کے رسالہ متعلقہ احکام تجہیز و تکفین کی طرف رجوع فرمایئں۔ مختصر اتنا سمجھ لیجئے کے بدعت کا تصور آپﷺ نے ان الفاظ میں فرمایا ہے۔
"من احديث ف امرنا هذا ما ليس منه فهو رد الحديث"
’’یعنی جو شخص امور دین میں اضافہ کرے۔ اور دین کی متعین مقداروں پر اضافہ کرے۔ اسے بدعت فرمایا گیا ہے۔‘‘ ایجادات حالیہ عن راسہا دین ہی نہیں۔ اس لئے ان سے استفادہ قطعا ً بدعت کی تعریف میں نہیں آسکتا۔ بلکہ ان کا تعلق انتم اعلم باامور دیناکم سے ہے۔ یہ دنیوی چیزیں ہم افادہ دینی امور سے استعمال کرسکتے ہیں۔ سامان حرب میں دنیا بدل چکی ہے۔ آج پرانے ہتھیاروں سے لڑنا اپنی موت کے محضر پر تصدیق کے مراد ف ہے۔
3۔ زبان۔ لباس۔ خوراک طریقہ تجارت میں اسلام کی اساسی ہدایات کو پیش نظر رکھ کر ساری چیزیں استعمال ہوسکتی ہیں۔ آپﷺ کا ارشاد ہے۔
"كل لبس ما شئت ما اخطاتك اثنتان سقر ومخيلة" (بخاری)
کبر واسراف سے بچتے ہوئے ہر جیز استعمال فرماسکتے ہیں۔ الحلال بين والحرام بين وسكت ن اشياء ن غير نسيان البتہ طریقہ معاشرت ایک عام لفظ ہے۔ معلوم نہیں آپ کی کیا مراد ہے۔ ہندوستان کے موجودہ حالات کے پیش نظر اس سے مراد ہندوانہ بودوباش ہے تو یہ درست نہیں۔ اوضاع و اطوار میں دینی اوضاع کی پابندی ضروری ہے۔ دوسرے اوضاع کی طرف رجحان زہنی شکست کی دلیل ہے۔
4۔ لائوڈ اسپیکر کا ستعمال تقاریر اور خطبوں میں یقینا درست ہے ہم لوگ تو یہاں نماز میں اسے استعمال کرتے ہیں۔ بظاہر اس کے خلاف موہوم خطرات کے علاوہ کوئی شرعی دلیل میری نظر سے نہیں گزری سنا ہے بعض علماء دیوبند نے نماز میں استعمال کی مخالفت کی ہے۔ میری نظر سے ان کے دلائل نہیں گزرے۔ والسلام۔ محمد اسماعیل۔ مدرس وخظیب جامع مسجد اہل حدیث گجرانوالہ
جواب۔ از مولانا عبد الجبار صاحب کھنڈیلوی جے پوری شیخ الحدیث مدرسہ احمدیہ سلفیہ لریا سرائے اور بھنگہ
الجواب۔ جواب نمبر 1۔ موجودہ دور کی ایجادات جن کا شرعا استعمال کرنا درست نہ وہ وہ استعمال کرسکتے ہیں۔
هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُم مَّا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا ﴿٢٩﴾سورة البقرة
’’یعنی جو چیزیں زمین میں پیدا کی گئی ہیں۔ وہ سب تمہارے فائدے کےلئے ہیں۔‘‘
دوسری آیت میں فرماتا ہے۔ وَيَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُونَ ﴿٨﴾ سورة النحل
’’ یعنی اللہ تعالیٰ وہ وہ سواریاں اور چیزیں پیدا کرے گا جن کا تم کو علم نہیں۔‘‘ اس آیت میں آئندہ کی ایجادات موٹر۔ ہوائی جہاز۔ ٹینک۔ ریڈیو۔ وغیرہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
جواب نمبر 2۔ بدعت وہ عمل ہے ج دین میں ثواب سمجھ کر کیا جائے۔ ہر نئی ایجادات بدعت نہیں۔
"من احديث ف امرنا هذا ما ليس منه فهو رد الحديث " (بخاری)
’’یعنی بدعت وہ امر ہے جو ہمارے دین میں نیا نکالا جائے۔ جیسے بدعت عید میلاد۔ وبدعات محرم۔ وبدعت تقلید وغیرہ اور سنت و ہ کام ہے۔ جس کونبی ﷺ نے قولاً و عملا ً کیا ہو۔ اور اس کو امت کےلئے دین قرار دیا ہو اور آپ کا اسوہ حسنہ ہو لہذا مطلق نئی چیز بعد نبوت بدعت نہیں۔
جواب نمبر 3۔ ہر ایک لباس خوراک و ذرائع تجارت وطریقہ معاشرت جوشرعا منع نہ ہوں۔ اور ان سے تشبہ کفار لازم نہ آئے درست ہے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُحَرِّمُوا طَيِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللَّـهُ لَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا ۚ إِنَّ اللَّـهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ ﴿٨٧﴾ سورة المائدة
’’یعنی اے ایمان والو! جو پاکیزہ چیزیں اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ ہیں۔ ان کو اپنے پر حرام مت کرو۔ اور حکم خدا سے تجاوز نہ کرو۔ اللہ تعالیٰ حد سے گزرنے والوں کودوست نہیں رکھتا۔‘‘ دوسری آیت میں فرماتا ہے۔ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا ۚ
اسلام کسی ہیت لباس و خوراک وذرائع تجارت و طریقہ معاشرت ملکی سے نہیں۔ روکتا ہے۔ بشرط یہ کہ وہ شرعا کسی صورت ممانعت خاص کے تحت نہ ہو۔ اسلام نے کسی خاص ہیت لباس وخوراک خصوصی و ذرایع تجارت وطریقہ معاشرت کو محدود و معین نہیں کیا ہے۔ ہاں تشبیہ بالکفار والسنون و اسبال وغیرہ سے منع نہیں کیا ہے۔ اس کا خیال
جواب نمبر4۔ لائوڈ اسپیکر کو امتدادصوت کے لئے استعمال کرسکتے ہیں شرعا کوئی ممانعت نہیں ہے۔ جس جلسہ اور وظ میں لائوڈ اسپیکر لگایا گیا ہو ا س میں شرکت کر سکتے ہیں۔ کوئی وجہ ممانعت کی نہیں ہے۔ بیت اللہ میں بھی بفتویٰ علماء لائوڈ اسپیکر کے ذریعے نماز وخظبہ ہوتا ہے۔ لائوڈ اسپیکر سے مقصود وصرف آواذ خطیب وہ واعظ پہونچانا ہے یہ کوئی باجا نہیں ہے۔ فقط واللہ اعلم بالصواب۔ کتبہ ابو محمد عبد الجبار را لکھنڈیولوی الجیفوری المدرس بدار العلوم الحمدیہ السلفیہ لہرا سرائے ہدر پنجہ (نور توحید لکھنوء 25 اکتوبر 1951ء) (1)
-------------------------------------------------------
1۔ حضرت مولانا صاحب عبید اللہ مبارک پوری نے بھی مدلل طور پر جواز کا فتویٰ دیا ہے ملاحظہ ہو نور توحید لککھنو 12 (راز)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب