السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوعلم مغبیات نہیں تھا۔توآیت کریمہ:
﴿فَلَا يُظْهِرُ عَلَىٰ غَيْبِهِ أَحَدًا ﴿٢٦﴾ إِلَّا مَنِ ارْتَضَىٰ مِن رَّسُولٍ فَإِنَّهُ يَسْلُكُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ رَصَدًا ﴾--سورة الجن٢٦-٢٧
جن کاکیامطلب ہے اورآیت میں ﴿استثناء الامن ارتضیٰ من رسول﴾ متصل ہے یامنقطع ؟اورآیت میں اضافت علی غیبہ کونسی اضافت ہے عہدی یااستغراتی یاجنسی اوریہاں غیب سےکیامرادہے۔؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوبعض مغیبات کاعلم بذریعہ وحی تھا نہ کہ کل کا۔ہاں یہ بات باقی رہی کہ بذریعہ وحی جوعلم حاصل ہواس کا نام علم غیب رکھ سکتے ہیں یانہیں۔ سو اس کے متعلق پہلے سوال کےجواب میں تفصیل ہوچکی ہے لیکن یہ یادرکھناچاہیے کہ اس کا نام علم غیب ہویانہ آیت:فلایظہرعلی غیبه احدامیں مستثنی ٰ منہ میں من ارتضیٰ من رسول مستثنیٰ داخل ہے ۔پس استثناء متصل ہوگئی شایدکہاجائے کہ استثناء متصل کےیہ معنی ہیں کہ مستثنیٰ منہ کاحکم یہاں اظہارعلی الغیب (غیب پرمطلع کرنا) کی نفی ہے۔ اس سے مستثنیٰ کوخارج کیاہے ۔تواظہارعلی الغیب اس کےلیے ثابت ہوگیا۔ اوراظہارعلی الغیب کوغیر پر مطلع ہونا لازم ہے اورغیب پرمطلع ہونایہی علم غیب ہے ۔پس استثناء متصل ہونے کی صورت میں ضروری ہے کہ اس کا نام علم غیب ہو۔اس کاجواب یہ ہے کہ جواس کا نام علم غیب نہیں رکھتے ان کےنزدیک صرف علم غیب پرمطلع ہوناعلم غیب نہیں ۔بلکہ ان کے نزدیک یہ بھی شرط ہے کہ کسی کے بتلانےسےنہ ہو۔دلیل ان کی یہ آیت کریمہ ہے ۔
﴿قُل لَّا يَعْلَمُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّهُ ۚ﴾--سورة النمل65
جوپہلے سوال کے جواب میں گزرچکی ہے ۔اس میں مطلقا ً علم غیب کی نفی غیرسے کردی ہے ۔خواہ رسول ہویااور اورخواہ علم وکلی ہویاجزئی ۔اس سے ثابت ہواکہ انبیاء علیہم السلام کوجوکچھ بذریعہ وحی علم ہوتاہے اس کا نام علم غیب نہیں ۔اس کےعلاوہ نورالانواراصول فقہ حنفیہ وغیرہ میں لکھاہے کہ مستثنیٰ میں کوئی حکم ثابت نہیں ہوتا۔ بلکہ وہ مسکوت عنہ کے حکم میں ہوتاہے۔ مستثنیٰ منہ کے حکم کااس لیے نہ اثبات ہوتاہے نہ نفی ملاحظہ ہونورالانوارمبحث اقسام کابیان ص 240 پس یہ کہناکہ اظہارعلی الغیب کی نفی سے مستثنیٰ کوخارج کیا۔تواظہارعلی الغیب اس کے لیے ثابت ہوگیا۔ اصول فقہ حنفیہ کی روسے غلط ہے اور اپنے اصول سے ناواقفی پرمبنی ہے ۔ہاں شافعیہ کے اصول سے مستثنیٰ میں حکم ثابت ہوتاہے مگرحنفیہ کویہ مفیدنہیں۔ پس ان کوکسی اور دلیل سے ثابت کرناچاہیے کہ انبیاء علیہم السلام کوبذریعہ وحی جوکچھ علم ہوتاہے اس کوعلم غیب کہتے ہیں۔یہ تفصیل اسنثناء متصل کی بناء پرہے اوراگرمنقطع بنائی جائے توپھرمعاملہ اورصاف ہوجاتاہے ۔کیونکہ استثناء منقطع میں مستثنیٰ منہ میں مستثنیٰ داخل نہیں ہوتا۔ تو بذریعہ وحی حاصل شدہ علم کا نام علم غیب کس طرح ثابت ہوگا۔
اورکہاجائے استثناء میں اصل متصل ہے نہ منقطع۔ پس اس کواستثناء منقطع بناناٹھیک نہیں۔تو اس کاجوا ب یہ ہے کہ بے شک استثناء متصل اصل ہے مگریہاں استثناء منقطع کاقرینہ موجودہے ۔ وہ یہ کہ اس کے بعدکی عبارت:
﴿فَإِنَّهُ يَسْلُكُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ رَصَدًا --سورة الجن27
میں ’’ف‘‘کوبعض سببیہ بناتے ہیں ۔لیکن سببیت کےمعنی واضح نہیں ۔ہاں من راتضی کامن شرطیہ یاموصولہ متفمن معنی شرط بنایا جائے اور ’’ف‘‘ جزائیہ تویہ بالکل ٹھیک ہے ۔اوراس کی مثال قرآن مجیدمیں موجودہے ۔چنانچہ ارشادہے :۔
﴿ لَّسْتَ عَلَيْهِم بِمُصَيْطِرٍ ﴿٢٢﴾ إِلَّا مَن تَوَلَّىٰ وَكَفَرَ ﴿٢٣﴾ فَيُعَذِّبُهُ اللَّهُ الْعَذَابَ الْأَكْبَرَ ﴾--سورة الغاشية22-23-24
’’آپ کچھ ان پر داروغہ نہیں ہیں-ہاں! جو شخص روگردانی کرے اور کفر کرے-اسے اللہ تعالیٰ بہت بڑا عذاب دے گا‘‘
اس آیت میں الاستثناء منقطع ہے ۔اورآیت الامن ارتضیٰ بھی اسی قسم کی ہے ۔پس اس کواستثناء منقطع بناناہی ٹھیک ہے۔رہاعلی غیبہ کی اضافت کےمتعلق سوال کہ یہ کیسی ہے ۔سوال کا جواب بھی نمبراول میں نکل سکتاہے ۔کیونکہ جب یہ ثابت ہوگیاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوبعض مغیبات کاعلم بذریعہ وحی تھا تومعلوم ہواکہ یہ اضافت جنس ہے۔کیونکہ جنسی ایک فردمیں بھی ہوسکتی ہے اور زیادہ میں بھی اورعہدذہنی بھی ہوسکتی ہے عہدخارجی اوراستغراق نہیں ہوسکتی استغراقی اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوکل مغیبات کاعلم نہیں ۔اورعہدخارجی اس لیے کہ رسول کوکسی معین شئے کی وحی نہیں ہوتی ۔بلکہ حسب ضرورت کبھی کسی شئے کی وحی ہوتی ہے کبھی کسی شئے کی ۔ہاں بایں معنی عہدخارجی ہوسکتی ہے کہ غیب کی دوقسمیں کردی جاتیں ایک وہ جس کومخلوق میں سے بھی کوئی جانتاہوجیسے ہرایک کامافی الضمیرغیب ہے ۔مگروہ خودجانتاہے (دوم )مخلوق میں سےبغیراطلاع خداوندی کوئی نہیں جانتااوراضافت سے اس خاص کی طرف اشارہ ہو۔پس اس معنی سے یہ اضافت عہدخارجی ہوسکتی ہے ۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب