سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(524) مردوں اور عورتوں کی نماز میں فرق

  • 6167
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-27
  • مشاہدات : 1029

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مجھے عورتوں کی نماز کے متعلق معلومات چاہئے۔ میں نے آج تک جو کچھ سنا یہی تھا کہ عورتوں اور مردوں کی نماز میں صرف ستر کا فرق ہوتا ہے۔ ایک عورت نے مجھے کشمکش میں ڈال دیا ہے جس میں بیہقی اور دوسری احادیث کی کتابوں کی روایات تھیں۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

درست یہی ہے کہ ادائيگی کے اعتبار سے عورت اور مرد کی نماز میں کوئی فرق نہیں ہے۔جس طرح مرد قیام، رکوع ،سجدہ اور تشہد ادا کرتے ہیں ،اسی طرح عورت بھی کرے گی۔کیونکہ نبی کریم کی یہ حدیث مبارکہ ﴿صلوا کما رأیتمونی أصلی﴾ عام ہے اور مردوں اور عورتوں تمام کو شامل ہے۔

شیخ ابن باز کا بھی یہی فتوی ہے ۔اور دونوں کی نماز میں فرق کے حوالے سے کوئی صحیح حدیث ثابت نہیں ہے۔"فتاوى نور على الدرب" (2/799) .

تکبیر تحریمہ سے سلام تک مردوں اور عورتوں کی نماز ہیئت ایک جیسی ہے سب کیلئے تکبیر تحریمہ قیام، ہاتھوں کا باندھنا، دعاء استفتاح پڑھنا، سورہ فاتحہ، آمین، اس کے بعد کوئی اور سورت، پھر رفیع الیدین رکوع، قیام ثانی، رفع یدین، سجدہ ، جلسہ استراحت ، قعدہ اولیٰ ، تشہد، تحریک اصابع، قعدہ اخیرہ ، تورک، درود پاک اور اس کے بعد دعا، سلام اور ہر مقام پڑھی جانے والی مخصوص دعائیں سب ایک جیسی ہی ہیں عام طور پر حنفی علماء کی کتابوں میں جو مردوں اور عورتوں کی نماز کا فرق بیان کیا جاتا ہے کہ مرد کانوں تک ہاتھ اٹھائیں اور عورتیں صرف کندھوں تک ، مر دحال قیام میں زیر ناف ہاتھ باندھیں اور عورتیں سینہ پر ، حالت سجدہ میں مرد اپنی رانیں پیٹ سے دور رکھیں او ر عورتیں اپنی رانیں پیٹ سے چپکا لیں یہ کسی بھی صحیح و صریح حدیث میں مذکور نہیں ۔

چنانچہ امام شوکافی رحمہ اللہ فرماتے ہیں

اور جان لیجئے کہ یہ رفع یدین ایسی سنت ہے جس میں مرد اور عورتیں دونوں شریک ہیں اور ایسی کوئی حدیث وارد نہیں ہوئی جوان دونوں کے درمیان اس کے بارے میں فرق پر دلالت کرتی ہو ۔ اور نہ ہی کوئی ایسی حدیث وارد ہے جو مرد اور عورت کے درمیان ہاتھ اٹھانے کی مقتدار پر دلالت کرتی ہو اور احناف سے مروی ہے کہ مرد کانوں تک ہاتھ اٹھائے اور عورت کندھوں تک کیونکہ یہ اس لئے زیادہ سا تر ہے لیکن اس کیلئے ان کے پاس کوئی دلیل شرعی موجود نہیں ''۔

( نیل الا وطار ۲/۱۹۸)

شارح بخاری امام حافظ ابن حجر عسقلانی اور علامہ شمس الحق عظیم آابادی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں

مرد اور عورت کے درمیان تکبیر کیلئے ہاتھ اٹھانے کے فرق کے بارے میں کوئی حدیث وارد نہیں ۔

(فتح الباری۲٢/۲۲۲، عوں المعبود ۱/۲۶۳)

مردوں اور عورتوں کے حال قیام میں یکساں طور پر حکم ہے کہ وہ اپنے ہاتھوں کو سینے پر باندھیں خاص طور پر عورتوں کیلئے علیحدہ حکم دینا کہ وہ ہی صرف سینے پر ہاتھ باندھیں اور مرد ناف کے نیچے باندھیں اس لئے حنفیوں کے پاس کوئی صریح و صحیح حدیث موجود نہیں ۔

علامہ عبدالرحمن مبارکپوری ترمزی کی شرح میں فرماتے ہیں کہ

پس جان لو کہ امام ابو حنیفہ کا مسلک یہ ہے کہ مرد نماز میں ہاتھ ناف کے نیچے باندھے اور عورت سینہ پر امام بو حنیفہ اور آپ کے اصحاب سے اس کے خلاف کوئی اور قول مروی نہیں ہے ۔

(تحفہ الا حوذی ۱/۲۱۳)

محدث عصر علامہ البانی حفظہ اللہ فرماتے ہیں

اور سینہ پر ہاتھ باندھنا سنت سے ثابت ہے اور اس کے خلاف جو عمل ہے وہ یا تو ضعیف ہے یا پھر بے اصل ہے ۔

(صفۃ صلاۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم /۸۸)

ھذا ما عندی واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ  ثنائیہ

جلد 01

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ