سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(522) چھاتی کے بال اتارنے کاحکم

  • 6165
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 2810

سوال

(522) چھاتی کے بال اتارنے کاحکم
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا مرد اپنی چھاتی کے بال اتار سکتا ہے۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بال اتارنے كے اعتبار سے ان کی تین اقسام ہیں:

١۔ وہ بال جن كے اتارنے اور كاٹنے كا حكم ديا گيا ہے. اور يہ وہ بال ہيں جنہيں فطرتى سنت كہا جاتا ہے، مثلا زير ناف بال، اور مونچھوں كے بال، اور بغلوں كے بال، اور اس ميں حج اور عمرہ كے موقع پر سر كے بال چھوٹے كرانا اور سر منڈانا بھى داخل ہوتا ہے.

اس كى دليل عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كى درج ذيل حديث ہے وہ بيان كرتى ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

«قص الشارب وإعفاء اللحية والسواك واستنشاق الماء وقص الأظفار وغسل البراجم ونتف الإبط وحلق العانة وانتقاص الماء »
قال زكريا : قال مصعب : ونسيت العاشرة إلا أن تكون المضمضة »

رواه مسلم ( 261 ) .

" دس چيزيں فطرت ميں سے ہيں: مونچھيں كاٹنا، داڑھى بڑھانا مسواك كرنا، ناك ميں پانى چڑھانا، ناخن كاٹنا، انگليوں كے پورے دھونا، بغلوں كے بال اكھيڑنا، زير ناف بال مونڈنا، اور پانى سے استنجا كرنا "

زكريا كہتے ہيں: مصعب نے كہا: ميں دسويں چيز بھول گيا ہوں مگر وہ كلى كرنا ہو سكتى ہے "

۲۔ وہ بال جن كو اتارنے كى حرمت آئى ہے.

اس ميں ابرو كے بال اتارنے شامل ہيں، اور اس فعل كو النمص كا نام ديا جاتا ہے، اور اسى طرح داڑھى كے بال ۔اس كى دليل درج ذيل حديث ہے:

عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو فرماتے ہوئے سنا:

«لعن الله الواشمات والمستوشمات والنامصات والمتنمصات والمتفلجات للحسن المغيرات خلق الله »

رواه البخاري ( 5931 ) ومسلم ( 2125 )

" اللہ تعالى گودنے اور گدوانے واليوں، اور ابرو كے بال اكھيڑنے اور اكھڑوانے واليوں، اور خوبصورتى كے ليے دانت رگڑ كر باريك كرنے واليوں اللہ كى پيدا كردہ صورت ميں تبديلى كرنے واليوں پر لعنت فرمائے "

اور عبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو فرماتے ہوئے سنا:

«خالفوا المشركين وفِّروا اللحى وأحفوا الشوارب »

رواه البخاري ( 5892 ) ومسلم ( 259 ) .

" مشركوں كى مخالت كرو، اور داڑھيوں كو بڑھاؤ، اور مونچھيں پست كرو "

امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" النامصۃ: وہ عورت ہے جو چہرے كے بال اتارے.

اور المتنمصۃ: وہ عورت ہے جو اپنے چہرے كے بال اتروائے، اور يہ فعل حرام ہے، ليكن اگر عورت كو داڑھى يا مونچھيں آ جائيں تو اسے اتارنا حرام نہيں، بلكہ ہمارے نزديك وہ مستحب ہے " شرح مسلم نووى ( 14 / 106 ).

۳۔وہ بال جن سے شريعت خاموش ہے، ان كے متعلق نہ تو اتارنے كا حكم ہے، اور نہ ہى انہيں باقى ركھنے كا وجوب، مثلا چھاتی، پنڈليوں اور ہاتھوں كے بال، اور رخساروں اور پيشانى پر اگنے والے بال.

تو ان بالوں كے متعلق علماء كرام كا اختلاف ہے:

كچھ علماء كہتے ہيں كہ: انہيں اتارنا جائز نہيں؛ كيونكہ انہيں اتارنے ميں اللہ تعالى كى پيدا كردہ صورت ميں تبديلى ہے.

جيسا كہ اللہ تعالى نے شيطان كى بات نقل كرتے ہوئے فرمايا:

﴿ وَلَءامُرَ‌نَّهُم فَلَيُغَيِّرُ‌نَّ خَلقَ اللَّهِ ﴾ النساء / 119

اور ميں يقينا انہيں اللہ كى پيدا كردہ صورت ميں تبديلى كا حكم دونگا۔

اور كچھ علماء كا كہنا ہے: يہ بال ان ميں شامل ہے جس پر شريعت خاموش ہے، اور اس كا حكم اباحت والا حكم ہے، اور وہ انہيں باقى رہنے يا اتارنے كا جواز ہے؛ كيونكہ جس سے كتاب و سنت خاموش ہو وہ معاف كردہ ہے.

مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام نے يہى قول اختيار كيا ہے، اور اسى طرح شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ نےبھى يہى قول اختيار كيا ہے. فتاوى المراۃ المسلمۃ ( 3 / 879 ).

مذکورہ دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ چھاتی کے بال تیسری قسم میں داخل ہیں ،جن کے بارے میں شریعت خاموش ہے ،لہذا انہیں کاٹنا یا نہ کاٹنا دونوں طرح ہی مباح ہے۔

ھذا ما عندی واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ  ثنائیہ

جلد 01

تبصرے