السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
گذارش ہے کہ میری قریبا 6سال قبل اپنے سگے ماموں کے گھر شادی ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے ایک بیٹی سے نوازا ۔ 2سال بعد ہی میری بیوی ناراض ہو کر میکے چلی گئی اور قریبا ایک سال بعد بمشکل راضی کر کے میں اسے گھر واپس لایا۔پھر اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک بیٹے کی دولت عطا کی۔ اب دوبارہ قریبا ایک سال مکمل ہونے کو ہے اور وہ پھر سے ناراض ہو کر میکے بیٹھی ہے۔نہائت اختصار کے ساتھ چند ایک باتیں آپ کے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں ۔ پہلی مرتبہ ناراضگی کی وجہ یہ تھی کہ میں اپنے سسر صاحب کے پاس ملازمت کرتا تھا ۔جو میں نے ایک عذر کی بنا پر ملازمت ترک کر دی تو جوابا انہوں نے اپنی بیٹی اور میری ننھی بیٹی کو مجھ سے دورکر دیا۔ایک سال کا وہ وقت بھی میں نے اپنی چند ماہ کی بیٹی کے بغیرسخت آزمائش میں گزارا۔اوراب اللہ نے مجھے بیٹے کی دولت عطا کی ہے تو بدقسمتی سے وہ بھی چند ماہ کی عمر میں ہی مجھ سے جدا کردیا گیا ہے۔ اگرچہ شادی سے قبل میرے سسر صاحب ہماری معاشی حیثیت اور گھریلو نظام سے بخوبی واقف تھے لیکن اس کے باوجود اب معاملہ کچھ یوں ہے کہ انہوں نے میری معاشی کمزوری کی بنیاد پر یہ مسئلہ کھڑا کر دیا ہے کہ مجھے اپنی بچوں کی کوئی پروانہیں ہے اورنہ ہی میں ان پر کچھ خرچ کرتا ہوں۔میری ساری تنخواہ میرے والدین استعمال کر لیتے ہیں اور میرے بیوی بچوں کا 100فیصد خرچ انہیں برداشت کرنا پڑتا ہے۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ میں نے آج تک جو بھی کمایا ہے وہ صرف اپنے بیوی بچوں پر خرچ کیا ہے۔ہزاروں روپے اپنے بیوی بچوں کے علاج معالجے، لباس ،ضروریات زندگی اور غمی خوشی کے مواقع پر خرچ کئے ہیں۔سکول فیس سے لیکر بچوں کے پیمپرز اوردودھ دہی تک کے اخراجات میں اپنی جیب سے ادا کرتا رہا ہوں۔میرے پاس تو اپنے والدین کو دینے کیلئے بھی کچھ نہیں بچتا بلکہ بعض اقات مجھے اپنے اخرجات کے سلسلہ میں قرض بھی اٹھانا پڑتا ہے۔یہاں تک کہ شادی کے بعد 3سال تک میں نے اپنی بیوی کے زیورات جو مکمل طور پر اسکی ملکیت ہیں انکی زکوٰۃ بھی قرض اٹھا کر ادا کی ہے۔ چونکہ میرے سسرصاحب ایک معروف کاروباری شخصیت اور نہایت امیر ترین آدمی ہیں جو وہ اپنی بیٹی پر خرچ کرتے ہیں اس کے مقابلے میں میری کوئی وقعت اور حیثیت نہیں ہے۔ اسی ایک سال کے دوران جب میں اپنی بیوی سے بار بارگھر واپسی پر اصرارکرتا رہا اور اس کے بار بار انکار کی وجہ سے ناراضگی کی حالت میں میرے منہ سے نکل گیا کہ ’’دفع ہو نہ آئو‘‘جلد ہی میں نے اپنی ساس اور بیوی کے سامنے غلطی کا احساس بھی کیا ۔لیکن یہ بات اب بھی میری بیوی کی واپسی کی راہ میں حائل ہے ۔شادی کے بعد سے لیکر آج تک یہ سب سے بڑی بات تھی جو اچانک میرے منہ سے نکل گئی ورنہ بدکلامی اور برا بھلا کہنا تو دور کی بات ہے ، میں نے آج تک اپنی بیوی کو ’’تو‘‘ تک بھی کہہ کر مخاطب کیا۔ اسی دوران میرے سسر صاحب نے ہمارے ایک عزیز کے ساتھ ملاقات میں میرے اور میرے ماں باپ کے باے میں نہایت مبالغہ آمیز گفتگو کر دی ۔جس کے جواب میں صرف نیک نیتی کے ساتھ اور بڑے احترام کے دائرے میں رہتے ہوئے میں نے ان کے اشکالات دورکرنے کی غرض سے ایک خط لکھااوروہ خط میں نے اپنے ماں باپ سمیت کسی کودکھایا تک نہیں ہے تاکہ تمام تر اشکالات و اختلافات کسی دوسرے کے علم میں لائے بغیر ختم ہو جائیں اور میرا گھر دوبارہ آباد ہو جائے۔واللہ میں نے اس خط میں کئی بار اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ میں ایک انسان ہونے کے ناطے غلطی سے مبرا نہیں ہوسکتا۔رزق کی تقسیم کا معاملہ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔البتہ اپنے برخوردارہونے کے ناطے مجھ میں اخلاق ،کردار اور زبان سے متعلق کوئی کوتاہی دیکھیں تو ضرور اسکی نشاندہی کریں میں نہ صرف ان شاء اللہ فوراً اپنی اصلاح کروں گا بلکہ آپ کا احسان مند بھی ہوں گا۔اور اگر میری کسی بات سے آپ کی دل آزاری ہوئی ہو تو میں اسکی معافی چاہتا ہوں۔لیکن میری بھرپور یقین دہانی کرانے کے باوجود وہ میرے والدین کو اس خط کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔حالانکہ انہوں نے خط کی شکل تک نہیں دیکھی۔ انہی دنو ں میں میری بیوی میری عدم موجودگی میں اچانک گھر آئی اورمیرے علم میں لائے بغیر اور گھر والوں کے منع کرنے کے باوجود اپنا اور بچوں کا سامان لیکر چلی گئی۔اور جب ماموں جان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے نہ صرف فون سننے سے انکار کردیا بلکہ یہ پیغام بھی بھیج دیا کہ ’’میں نے جلد ہی بقیہ سامان بھی لے جانا ہے‘‘ ۔اس معاملے کے بعد میری والدہ نے شدید ذہنی ٹینشن لی تو وہ بیمار پڑ گئیں اور ہمیں لاکھوں روپیہ قرض لیکر انکا علاج کرانا پڑا۔ پھر جب میری والدہ ایک ماہ سے زائد کا عرصہ شدید تکلیف میں ہسپتال داخل رہنے کے بعد گھر واپس آئیں تو میں نے بذات خود ماموں جان کے پاس جاکر صرف اللہ کی رضا کیلئے اپنے ہر کردہ وناکردہ جرم کا اقرار کرکے ان سے معافی مانگ کر درخواست کی کہ ’’ آپ کی بڑی ہمشیرہ اور میری والدہ کو اللہ نے نئی زندگی بخشی ہے،اور وہ آپ کی ماں بجا ہیں جنہوں نے ہماری نانی جان کی وفات کے بعد سب بہن بھائیوں کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھا تھا، آج ان کو آپ کی شفقت کی ضرورت ہے ، آپ میرے بیوی بچوں کو گھر واپس بھیج دیں تاکہ جہاں ہم ازسرنو اپنی زندگی کو خوشگوار طریقے سے گزار سکیں وہاں بچوں کو ہنستا کھیلتا دیکھ کرمیری والدہ اور آپ کی بڑی ہمشیرہ کے دکھ اورتکلیف بھی رفع ہو جائے گی۔‘‘ جس کے جواب میں انہوں نے مجھے یہ آفر کی کہ ’’ بچوں کی چھٹی والے دن خود آکر اپنی بیوی بچوں کو لے جایا کرو اور اگلے دن خود واپس چھوڑ دیا کرو۔اور جہاں تک تمہارے بیوی بچوں کے مستقل گھر واپسی کا سوال ہے تو وہ قطعی طور پر ناممکن ہے۔گھر تو دور کی بات ہے وہ اس محلے میں بھی نہیں رہ سکتی‘‘ اگرچہ مجھے اس آفر سے بچوں کے ساتھ ایک دن بھی نہیں مل سکتا تھاکیونکہ میری چھٹی جمعہ کو اور بچوں کی اتوار کوہوتی ہے اورہفتہ اتوار کو اپنی ڈیوٹی کی وجہ بچوں کو لیکر آنا اور واپس چھوڑنا میرے لئے انتہائی مشکل تھا لیکن اس کے باوجود میں نے اس آفر کو قبول کیا کہ اللہ کرے اسی طرح ہی میری بیوی کے دل میں احساس پیدا ہوجائے۔ جس دن ہماری یہ بات طے ہوئی اسی دن مجھے دوبارہ اپنی والدہ کو لاہور ہسپتال لیجا کر داخل کرانا پڑا۔وہاں سے واپس آتے ہی ماموں جان سے کئے گئے وعدے کے مطابق میں بیوی بچوں کو گھر لیکر آیااور حسب وعدہ میں نے انکی واپسی کا بندوبست بھی کیا۔اس بات کو اب دوماہ گزر گئے ہیں ،میں اپنی بیوی سے مسلسل رابطہ میں رہتا ہوں ، اسے احساس دلاتا ہوں کہ ہمارے چھوٹے بڑے اختلافات دور رہنے سے نہیں بلکہ قریب ہونے اور بات چیت کے ذریعے ہی حل ہو سکتے ہیں جبکہ دور رہنا مزید بدگمانیوں کا سبب بنتاہے ۔لیکن وہ تو میری کسی بات کو سننا بھی گوارانہیں کرتی میں پھر بھی ہر ہفتے اسے خود جاگھر لانے کو کہتا رہا لیکن وہ ہمیشہ ٹال مٹول کرتی رہی ہے ۔ اس نے یہ بھی کہہ دیا ہے کہ ’’ابو نے میری رضا مندی کے بغیر آپ سے وعدہ کرلیا تھا اور میں نے ان سے شدید اختلاف کیا تھا۔‘‘اب مجھے اس کے سوا کوئی اور راستہ نظر نہیں آتا کہ میں صبر کے ساتھ نہایت خاموشی سے یہ سب کچھ برداشت کروں ۔اب اس سے بڑھ کر اور کیا قدم اٹھا سکتا ہوں؟ جب سے میں نے اللہ کے رسول ﷺ کی یہ حدیث سنی ہے کہ ’’ جو شخص حق پر ہونے کے باوجود اللہ کیلئے عاجزی اختیار کرتا ہے میں جنت میں اسکے محل کا ضامن ہوں‘‘ تب سے جس حد تک میرے بس میں تھا،میں نے دل وجان سے کوشش کی ہے۔یہاں تک کہ میرے سسر محترم اور میری بیوی نے اس سارے معاملے میں 100فیصد غلط اور قصوروار مجھے ٹھہرایاہے اور اپنی ایک بھی بات تسلیم نہیں کی ،اور میں ہر بات اپنے ذمہ لیکراپنے سسر کے علاوہ اپنی بیوی سے بھی معذرت کرچکا ہوں کہ ہمارا گھر ٹوٹنے سے بچ جائے۔لیکن میری بیوی پر کسی بات کا کوئی اثر تک نہیں ہوا۔شائد وہ اپنے ذہن میں کوئی اور فیصلہ کرچکی ہے؟لیکن مجھے تو اب خاموشی کے سوا اور کوئی راستہ دکھائی نہیں دیتا۔ اگرچہ اللہ کے فضل سے میرا ضمیر مطمئن ہے لیکن انسان ہونے کے ناطے میری کیفیت کچھ اس طرح سے ہو چکی ہے کہ ایک طرف مجھے احساس کمتری کا شکار اپنے کمسن بچوں کی صحت و تربیت اور انکے غیر یقینی مستقبل کی فکر کھائے جا رہی ہے تو دوسری طرف میری ماں کی دن بدن تیزی سے گرتی ہوئی صحت کا غم مجھے دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔میں رات کی تنہائی میں جب انہیں بلکتا اور کراہتا ہوا سنتا ہوں تو میرے اعضاء شل ہو جاتے ہیں کیونکہ میں انکی زندگی کا واحد سہارا ہوں اور میرے اجڑے گھر کا غم انکے لئے ناقابل برداشت ہی نہیں بلکہ انکو موت کے منہ میں دھکیلنے کیلئے کافی ہے۔اس وجہ سے اب میں ان کے سامنے آنے کی کوشش بھی کم کرتا ہوں کہ ہمارے دونوں کے زخم تازہ نہ ہوں۔اللہ جانتا ہے کہ جن دنوں میری والدہ ہسپتال میں داخل تھیں تو میں نے وہ اپنی زندگی کے تلخ ترین دن گزارے ہیں۔بیوی بچوں سے جدائی ، ماں کی بیماری ، قرض در قرض کے بے پناہ بوجھ اور اپنی جاب کی فکر اور جسمانی وذہنی تھکاوٹ نے مجھے نفسیاتی مریض بنا دیا ہے اور مجھے ہائی بلڈپریشر کا عارضی لاحق ہوگیا ہے۔ اب بھی صورتحا ل یہ ہے کہ دن بھر کی ڈیوٹی سے میں جب واپس گھر پہنچتا ہوں تو بچوں کے بغیر گھر مجھے کھانے کو دوڑتا ہے اور رات کا نصف سے زائد حصہ اپنے بیڈ روم میں تن تنہا جاگ کر گزارتا ہوں۔میرے بوڑھے باپ نے عمر بھر کی جو تھوڑی بہت کمائی تھی وہ میری شادی کی خوشی میں خرچ کردی لیکن میری کتنی بد نصیبی ہے کہ میں آج پھر انکو اجڑا نظر آرہاہوںاور انہیں اس عمر میں بھی میرے قرض اتارنے کیلئے محنت مزدوری کرنا پڑ رہی ہے۔ اگرچہ میں کسی شخص کے سامنے بے بسی کے آنسو نہیں بہاتا لیکن اندر ہی اندر سے کھوکھلا ضرور ہوگیا ہوں کہ یہی وقت ہو تا ہے کھلونوں جیسے جگرگوشوں سے دل لبھانے اورکھیلنے کودنے کا جو دوسری مرتبہ مجھ سے چھین لیا گیا ہے۔ایک طرف میری زندگی کی آرزؤوں، تمناؤں اور حسرتوں کا خون کیا جارہا ہے تو دوسری جانب میرے احساست وجذبات وقت کے ساتھ ساتھ تیزی سے روبہ زوال ہو رہے ہیں۔اللہ کے فضل سے اب بھی مجھے بہت سے رشتے مل رہیں لیکن میں صرف اپنے بچوں کے مستقبل کی خاطراپنے رشتہ کی بحالی کی ا یک اور کوشش چاہتا ہوں۔میرے سسر صاحب خود تو چار چار شادیوں کی سنت پر عمل پیرا ہونے کے سب سے بڑے علمبردار ہیں اور کسی دوسرے کے جذبات کے بارے میں ان کا کیا خیال ہے؟۔اگر ایک انسانی حیثیت کا بھی احساس نہیں تو رشتہ داری اور خونی تعلق کس چیز کا نام ہے۔؟۔۔۔۔۔اگر خدانخواستہ ان حالات میں ،میں کسی شیطانی قوت کے ہاتھوں شکست کھا کر بے راہ روی کا شکارہو گیا تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟ ازراہ کرم میرے لئے دعا بھی کیجئے گا اور کتاب وسنت کے حوالہ سے مکمل راہنمائی بھی کیجئے گاکہ مجھے اس کڑی آزمائش اورامتحان سے نبردآزما ہونے کیلئے کیا کرنا چاہیے؟تاکہ میں پھر سے اپنا گھر آباد کرسکوں اوراپنے ماں باپ کو خوشیاں واپس لٹا سکوں اور اسی میں میراسکون مضمرہے۔والسلام۔؟ الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤالوعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!آپ کی یہ درد بھری کہانی سن کر بہت افسوس ہوا ہے اللہ تعالی آپ کو خوشیاں نصیب کرے ١۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ کو اپنے سے زیادہ امیر گھرانے میں شادی کرنی ہی نہیں چاہئے تھی۔نبی کریم نے شادی میں کفو﴿ہمسری﴾ کا حکم دیا ہے اور یہ مالی معاملات سمیت تمام امور میں چاہئے۔اس پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے آپ کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رھا ہے۔ ۲۔شرعی طور پر آپ کی بیوی کے لئے ایسا کرنا ناجائز اور حرام عمل ہے ،وہ اللہ کے ہاں مجرم اور گناہ گار ہے اس کو اس سے توبہ کرنی چاہئے۔ ۳۔آپ کثرت کےساتھ اللہ تعالی سے دعا کریں ،شايد کہ اللہ تعالی اس مشکل کا کوئی مناسب حل نکال دے۔ اور کثرت کے ساتھ یہ دعا پڑھا کریں۔ اللھم لا سھل الا ما جعلته سھلا وانت تجعل الحزن اذا شئت سھلا۴۔نیز آپ خاندان کے بزرگ لوگوں کو درمیان میں ڈال کر صلح کی کوشش کریں۔اور اپنی بیوی کو قرآن وحدیث کی روشنی میں اس کے گناہ سے آگاہ کریں۔ اگر یہ تمام صورتیں کارگر نہ ہوں تو پھر اللہ کا نام لے کر اسے طلاق دے دیں اور نئی شادی کرلیں تاکہ آپ گناہ میں پڑنےسے بچ جائیں۔ ھذا ما عندی واللہ أعلم بالصوابفتاویٰ ثنائیہجلد 01 |