السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے پر کے کروٹ پر لیٹنا بعد سنت فجرکے فرض ہے یا واجب یا سنت یا مستحب بینوا توجروا۔ (1)
--------------------------------------
1۔ بعد سنت فجر آپ ﷺ لیٹتے تھے۔ الخ از حضرت مولانا ثناء اللہ مرحوم الحدیث 290 رجب 47 ہجری تفصیلی جواب اوپر مرقوم ہے۔ (محمد دائود راز)
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جاننا چاہیے کہ سنت فجر کے بعد داہنی کروٹ پر لیٹنا آپﷺ سے ثابت
ہے۔ اور ترک بھی ثابت ہے۔ تو یہ فعل مستحب ہوا۔ کیونکہ مستحب اسی فعل کوکہتے ہیں۔ جس کو آپﷺ نے کبھی کیاہو اور کبھی چھوڑدیا ہو۔
"عن عائشة قالت كان النبي صلي الله عليه وسلم اذا صلي ركعتي الفجر اضطجع علي شقه الايمن رواه البخاري عن عائشه ان النبي صلي الله عليه وسلم كان اذا صلي فان كنت مستيقطة حدثني والا اضطجع حتي يوزن با هواه" (رواه بخاري)
پس معلوم ہوا کہ اس فعل کو فرض یا واجب کہنا صحیح نہیں ہے اس طرح اسی فعل کوبدعت کہنا بھی صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ جب آپﷺ سے ترک بھی ثابت ہے۔ تو واجب یا فرض کیونکر ہوسکتاہے۔ واجب اور فرض کا ترک تو ناجائز ہے۔ چنانچہ بخاری نے عدم وجوب کے لئے ایک باب منعقد کیاہے۔
"من تحدث بعد الركعتين فلم يضطجع ...اشاره بهذه الترجمة الي انه صلي الله عليه وسلم لم يكن يدوم عليها وبذالك احتج الائمة علي عدم الوجوب وحملو ا الا مر الوارد بذلك في حديث ابي هريرة عند ابي داود وغيره علي الا ستحباب كذا في" (فتح الباري)
اور ابو دائود وغیرہ میں جو بصیغہ امر ارشاد فرمایاہے۔ تو ضرور ہوا کہ اس امر سے استحباب مراد ہو۔ ورنہ حدیث ماقبل سے تطبیق کیونکر ہوگی۔ اور اسی طرح جب آپﷺ سے یہ فعل ثابت ہے تو بدعت کیونکہ ہوسکتاہے۔ پس جن بزرگان دین نے اس فعل کا انکار ورد ثابت ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کو یہ حدیث نہیں ملی ورنہ کوئی مسلمان آپﷺ ک فعل کا کیونکر رد کرسکتاہے۔
واما انمار ابن مسعود الاضطجاع وقول ابراهيم النخعي هي ضبعة الشيطان كما اخرجها ابن ابي شيبة فهو محمول علي انه لم يبلغهما الا مر بفعله كذا في (فتح الباري)
اور یہ جو بعض نے کہا ہے کہ یہ فعل تہجد خواں کےساتھ خاص ہے۔ یہ بات بلادلیل ہے۔ تخصیص بلادلیل نہیں ہوسکتی۔ (محمد یاسین الرحیم آبادی ۔ محمد حسین خان خوجوی ۔ جواب ہذاصحیح ہے مستحب کو بدعت کہنا نہایت مذموم ہے۔ سید محمد نزیر حسین ۔ عبدالروف ۔ محمد عبدالسلام۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب