السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اکثر لوگ فجر کی نماز چھوڑ کر دو سنتیں شروع کردیتے ہیں اور پھر اکثر ایسا ہوجاتا ہے کہ جماعت کی نماز سے محروم ہو جاتے ہیں۔ کیا یہ فجر کی دو سنتیں فرضوں کے بعد نہیں ہوتیں۔ (محمد حنیف کوہاٹ)
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جب نماز باجماعت کھڑی ہوجائے تو پھر سنن نوافل پڑھنے جائز نہیں۔ بعد نماز فرض سنتوں کا پڑھنا جائز ہے۔ سنن ابی دائود میں ہے۔
"عن قيس بن عمرو راوي رسو ل الله صلي الله عليه وسلم رجلا يصلي بعد صلوة الصبح فقال رسول الله صلي الله عليه وسلم صلوة الصبح ركعتان فقال رجل اني لم اكن صلينت الركعتين اللتين قبلهما فصليتهما الان فسكت رسول الله صلي الله عليه وسلم"
’’یعنی قیس بن عمرو سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک مرد کو دیکھا۔ جو بعد نمازصبح دو رکعت نماز پڑھ رہا تھا آپ نے فرمایا صبح کی نماز دو رکعت ہے تو اس مرد نے کہا میں نے صبح کی دو سنتیں نہیں پڑھی تھیں۔ (اس وقت وہ میں نے پڑھی ہیں آپ چپ رہے۔)‘‘ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ جوشخص فجر کی نماز میں امام کے ساتھ شامل ہوجائے تو بعد نماز صبح سنتیں پڑھ لے۔
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ جب جماعت نماز فجر کی کھڑی ہو جائے اس وقت دو رکعت سنت فجر کی پڑھ لے یا شامل ہوجاوے۔ اور اگر شامل جماعت ہوگیا۔ تو بعد نماز فرض کے طلوع آفتاب سےف قبل نماز سنت کو پڑھے یا نہیں؟بینوا توجروا
الجواب۔ اس وقت سنت نہ پڑھے۔ جماعت میں شامل ہوجائے۔ بموجب فرمودہ رسول اللہﷺ کے ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سےروایت ہے کہ حضرت ﷺ نے فر مایا۔
"اذا اقيمت الصلوة فلا صلوة الا المكتوبة"
ترجمہ۔ ’’جس وقت نماز کھڑی ہوجاوے۔ تو اس وقت سوائے نماز فرض کے اور کوئی نماز نہیں‘‘
دوسری حدیث
"ثم زاد اقيمت الصلوة فلا صلوة الا المكتوبة قيل يا رسول الله صلي الله عليه وسلم لا ركعتي الفلجر قال لا ركعتي الفجر اخرجه ابن عدي بسند حسن"
اور قیس سے روایت ہے۔
"خرج رسول الله صلي الله عليه وسلم ف اقيمت الصلوة فصيلت معه الصبح ثم انصرف النبي صلي الله عليه وسلم فوجد في اصلي فقال مهلا يا قيس اصلاتان معا قلت يا رسول الله اني لم اكن ركعت ركعتي الفجر قال فلا اذا"
’’قیس سے روایت ہے کہ قیس نے کہا کہ حضرت ﷺ باہر تشریف فرماہوئے اور نماز فجر کی جماعت کھڑی ہوئی تو میں نے حضرت ﷺ کے ساتھ فجر کی نماز فرض پڑھی۔ بعد سلام پھیرنے کے حضرت نے مجھ کو نماز پڑھے دیکھا تو فرمایا ٹھیر جا۔ اے قیس کیا تو دو نمازیں اکھٹی پڑھتاہے۔ میں نے عرض کیا کہ میں نے فجر کی سنت کی دو رکعت نماز پڑھی تھی۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا۔ اگر ایسا ہے تو کچھ مذائقہ نہیں۔‘‘
ان روایات مذکورہ بالاسے وقت کھڑی ہوجانے جماعت فرض کے شامل ہونا جماعت میں ضرور ہے۔ اور پڑھنا سنتوں کا بعد جماعت کے قبل طلوع آفتاب کے یہ بھی ثابت ہوگیا اگر کوئی بعد طلوع آفتاب کے سنتیں پڑھے گا تو بھی درست ہے ۔ واللہ اعلم (کتبہ محمد عبید اللہ و عبدالحق
الجواب صحیح۔ محمد یاسین صاحب الرحیم آبادی نے بہت ہی عمدہ جواب دیا ہے۔ حقیقت میں اقامت ادائے سنت فجر ناجائز ونادرست ازروئے ازروئے حدیث صحیح السندکے ہے۔ اور کتب فقہ میں بھی اس طرح سنت پڑھنے کو کہ جس طرح آجکل فی زماننا جہاں پڑھتے ہیں۔ یعنی قریب صف کے اور مسجد میں ممنوع لکھا ہے اور فتح القدیر میں لکھا ہے۔ کہ اس طرح سے جیسا کہ آجکل مروج ہورہا ہے۔ سنت فجر پڑھتے ہیں۔ بہت سخت مکروہ ہے۔ اور وہ بڑے اجہل ہیں۔ اور ہدایہ میں لکھا ہے کہ سنت فجر وقت اقامت مسجد میں ممنوع ونادرست ہے۔ اگر پڑھے تو خارج از مسجد پڑھے۔ اور مولوی عبد الئی صاحب لکھنوی حنفی نے عمدۃ الرعایہ صفحہ 238 وتعلیق الممجد ص86 میں خوب واضح کر کے لکھا ہے۔ کہ ازروئے احادیث صحیہ مرفوعہ سنت فجر وقت تکبیر نہ پرھنی چاہیے۔ فقط واللہ اعلم بالصواب ۔ حررہ العاجز ابو محمد عبد الوہاب الفنجابی نزیل الدہلی (خادم شریعت ابو محمد عبد الوہاب 1300)
الجواب صحیح۔ محمدطاہر۔ اکثر جاہل لوگ جو وقت ااقامت فرض صبح کے سنتیں پڑھتے ہیں یہ درست نہیں پس جماعت میں شامل ہوناچاہیے۔ عبد الطیف حنفی واعظ جامع مسجد دہلی۔ (سید محمد نزیر حسین۔ محمد تلطف حسین۔ سید محمد عبد السلام )
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب