السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک مولوی صاحب کبھی کبھی صبح میں دعائے قنوت پڑھتے ہیں۔ اس میں "اللهم اهدني في من هديت وعافني في من عافيت" الخ پڑھتے ہیں۔ اور کہتے ہیں لفظ مفرد سے پڑھنا اولیٰ و اٖفضل و سنت ہے۔ اور رسول اللہ ﷺ سےانہی الفاظ میں پڑھنا ثابت ہے۔ اوراسی پر صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین نے عمل کیا۔ لہذا یہ گزارش ہے کہ یہ قنوت جمع کے صیغے سے پڑھنا اافضل ہے۔ یا مفرد؟صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین و خلفاء محدثین کا اس میں عمل در آمد کیا رہا؟ (سائل مذکور)
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ایک حدیث میں وارد ہے کہ جو امام بصیغۃ مفرد دعا کرے۔ اس نے متقدیوں کی حق تلفی کی حدیث مرفوع کے مقابلے میں کسی امام یا کسی صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول یا فعل نہ پیش کرنا چاہیے۔ حدیث کی سخت بے ادبی ہے۔ (23 جون ۔ 33ء)
دعائے قنوت بصیغہ جمع بھی حدیث میں وارد ہے۔
"اللهم اغفر لنا وللمومنين والمومنات والمسلمين والمسلمات والف بين قلوبهم واصلح ذات بينهم وانصرهم علي عدوك وعدوهم اللهم العن الكفرة الذين يصدون عن سبيلك ويكذبون رسلكويقاتلون اولياءك اللهم خالف بين كلمتهم وزلزل اقدامهم وانزل بهم باسك الذي لا ترده عن القوم المجرمين بسم الله الرحمان الرحيم اخرجه الامام البيهقي في سنن الكبير كذا في الحصن الحصين ص 56...57) "
ایسے اور بھی دعا بصیغہ جمع حصن حسصین میں ثابت ہے۔ ـ (ابوسعید شرف الدین دہلوی)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب