سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(493) بیس رکعات والی حدیث کی تحقیق

  • 6136
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-16
  • مشاہدات : 1512

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نماز تراویح کے متعلق   رمضان شریف میں کوئی حدیث قولی رسو ل اللہﷺ کی ہے ۔ جس سے بیس رکعت تراویح ثابت ہو۔ نیز ہمارے پاس ایک کتاب جس کا نام فقہ المتین  فی نور المبین ہے جس میں کہ دو احادیث جو کہ آپﷺ کی قولی ہیں۔

قال قال رسول الله صلي الله عليه وسلم من صلي التراويح عشؤين ركعة يغبر الله  له عشؤين الف ذنوبه واعطي له اجر عشرين شهيدا فكانما زاد عشرين واعتق عشرين رقبة

 دوسری حديث عن ابن عمر رضي الله تعالي عنه انه قال قال عليه الصلوة والسلام من صلي عشرين ركعة من التراويح قبل الوتر اعطي الله له عشرين مدينة في الجنة فكل مدينة ميسرة شهر وكل شهر من ثلثين ايام وكل يوم مقدار سنة

ان ہر دو احادیث سے بیس رکعت تراویح ثابت ہوئی ہیں۔ اور ان احادیث کا راوی کوئی نہیں۔ براہ مہربانی ہر دو احادیث کا حوالہ  تحریر کیا جاوے۔ اور ان احادیث کی صحت وغیرہ بھی تحریر کریں۔ اور جس کتاب میں یہ احادیث درج ہیں۔ اس کا مصنف مولوی نور محمد سکنہ چاند پور ڈاک خانہ مانگٹا نوالہ ضلع شیخو پورہ ہے۔ اور مائی عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا والی حدیث جو کہ ما صلی فی رمضان ولا غیرہ پر اعتراض یہ ہوتا ہے  کہ یہ حدیث تہجد کے بارے میں ہے کیونکہ اس میں غیرہ کا لفظ آیا ہے۔ دوسرا اعتراض یہ ہے کہ محدثین اس حدیث کو تہجد کے باب میں لائے ہیں۔ قیام رمضان میں نہیں لکھا اور غنیۃ الطالبین میں بھی بیس رکعت پڑھنے کی روایت ہے۔ یہ حدیث کس درجے کی ہے۔ سب علمائے اہل حدیث توجہ فرما کر جواب بالصواب سے سرفراز فرمایئں۔ اوراگر اخبار ''اہل حدیث''کسی حنفی عالم کے   پہنچے تو وہ بھی مدلل جواب  تحریر کریں۔ اور جواب نرم الفاظ میں دیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ حدیثیں صحیح نہیں ہیں۔ آج تک کسی مستند کتاب میں نہیں دیکھیں۔ اور حنفی مذاہب کے زمہ دار نے بھی نقل نہیں کی ہیں۔ غنیۃ الطالبین میں ترمذی سے بیس کا قول نقل کیا ہے  مگر ترمذی میں مختلف اقوال ملتے ہیں۔ حتیٰ کہ اکتالیس رکعت کا قول بھی ملتاہے۔ ایک حق پسند کےلئے یہ بات قابل غور ہے۔ کہ جماعت تراویح جو آج اسلامی ممالک میں مروج ہے۔ یہ خلیفہ ثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے زمانے میں جاری ہوئی تھی۔ خلافت اولی کے زمانے میں اس کا نام ونشان تک نہیں پایا جاتا۔ جس خلیفہ راشد کے حکم سے جاری ہوئی تعداد کے متعلق بھی اسی کا ارشاد دیکھنا چاہیے۔ ورنہ کہا جائے گا کہ خلیفہ ثانی کا فعل تو قابل شکریہ ہے۔ مگر حکم قابل رو    ۔ خلیفہ ثانی کا حکم موطا امام مالک میں موجود ہے۔ کہ آپ نے ابن ابی کعب کو حکمدیا تھا۔ کہ نماز  تراویح باجماعت وتر سمیت گیارہ  رکعت پڑھایئں۔ چنانچہ جماعتی حیثیت سے اسی پر عمل ہوتا رہا۔ مگر انفرادی حیثیت سے  کوئی زیادہ بھی  پڑھ لیتا تھا۔ جس کی مختلف تعداد صحیح ترمذی میں اکتالیس تک ملتی ہے مگر جماعتی انتظام کے ماتحت صرف گیارہ  رکعتیں پڑھی جاتی تھیں۔ چنانچہ حنفیہ کی معتبر کتاب فتح القدیر شرح ہدایہ  میں لکھا ہے۔ کہ مسنون تعداد تو آٹھ رکعت ہی ہے۔ مگر نوافل کی حیثیت سے بیس رکعت بھی جائز ہیں۔ وللتفصیل مقام اخر(1) (اہل حدیث امرتسر ص13 25 نومبر 1938ء)

-----------------------------------------------------

1۔ صفحہ 340 ملاحظہ ہو۔

 

 

فتاویٰ  ثنائیہ

جلد 01 ص 550

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ