السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
قرآن مجید میں ہے :
﴿أَفَلَا تَعْقِلُونَ -أَمۡ عَلَىٰ قُلُوبٍ أَقْفَالُهَآ﴾
ان آیات سے ثابت ہوتاہے کہ قرآن مجیدکوبھی عقل ہی سے پرکھناچاہیے۔ اگرخدانخواستہ قرآن مجیدکی کوئی بات ہماری سمجھ میں نہ آئے یاہم اسے اپنی عقل کےخلاف سمجھیں توفیصلہ کی کیا صورت ہوگی؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سوال دو ہیں ۔ایک یہ کہ سمجھ میں نہ آئے ۔ایک یہ کہ عقل کےخلاف ہو۔سمجھ میں نہ آنے سے کسی چیزکا انکارنہیں ہوسکتا۔اس کے متعلق قرآن مجیدکافیصلہ موجودہے
﴿ بَلْ كَذَّبُوا بِمَا لَمْ يُحِيطُوا بِعِلْمِهِ ﴾--سورة يونس39
بلکہ انہوں نےاس چیز کوجھٹلا دیا جس کےعلم کا انہوں نے احاطہ نہیں کیا۔اس کی مثال ایسی ہی ہے کہ جیسے ہم روح کوجھٹلادیں ۔صرف اس کی بناء پرکہ ہمیں اس کی حقیقت معلوم نہیں۔ تویہ بالکل غلط ہے۔کیونکہ جب تک کسی چیز کی حقیقت معلوم نہ ہو تواس کا انکارعقل کی کمزوری ہے ۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ قرآن مجیدکی کوئی بات عقل کے خلاف ہو اس کاجواب یہ ہے کہ کئی دفعہ انسان اپنی کمزوری سےکسی بات کواپنی عقل کے خلاف سمجھ لیتاہے اور واقعہ میں وہ عقل کےخلاف نہیں ہوتی۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے کفارکہتے تھے کہ یہ کیسے ہوسکتاہے کہ ہڈی بوسیدہ ہوکرخاک میں مل جائے اورپھر وہ دوبارہ انسان بن جائے جیسے اللہ تعالی سورہ یسٰں میں فرماتے ہیں :
قَالَ مَن يُحْيِي الْعِظَامَ وَهِيَ رَمِيمٌ﴾--سورة يس78
’’یعنی انسان کہتاہے کہ ہڈیوں کوکون زندہ کرسکتاہے جس حالت میں کہ وہ بوسیدہ ہوچکی ہوں ‘‘
البتہ کوئی بات ہرایک کی عقل کےخلاف ہو تو اس کوجھٹلایا جاسکتاہے مگرقرآن مجیدمیں کوئی ایسی بات نہیں ۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب