سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(311) حافظ قرآن جنبی ہوگیا ہے

  • 6099
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 882

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

تعاقب

اخبار گوہر بار ’’اہل حدیث‘‘ 18 اگست سنہ رواں جلد 36 مبر  42 کی اشاعت برصفحہ فتاویٰ سوال نمبر 28 میں مندرجہ زیل سوال درج ہے۔ حافظ قرآن جنبی ہوگیا ہے۔ وہ شخص قرآن پڑھے یا نہ اور دوسروں کو پڑھا سکتا ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جنبی قرآن نہیں پڑھ سکتا ۔ حدیث شریف میں آیا ہے۔ "ولا تقرر الحائض ولا الجنب شئا من القران" (ترمذي)  (یعنی حائضہ اور جنبی قرآن نہ پڑھے) سوال مذکور کے جواب میں جو حدیث پیش کی گئی ہے۔ وہ ضعیف ہے۔ اور حدیث ضعیف صحیح حدیث کے مقابلہ میں مرجوح ہے۔ اعلام الموقعین ج2 ص22 میں ہے۔

"وحديث لا تقراء الحائض ولا الجنب شيئا من القران لم يصح انه حديث معلول با تفاق اهل العلم بالتحديث فانه من رواية اسمعيل بن عياش عن موسي بن عقبة عن نافع عن ابن عمر قال الترمذي لا نعرفه الامن حديث اسمعيل بن عياش عن موسي بن عقبه وسمعت محمد بن اسمعيل يقول ان اسمعيلبن عياش يروي عن اهل الحجاز واهل العراق احاديث مناقير كانه يضعف رواية عنهم فيها تفرد به وقال انه حديث اسمعيل ابن عياش عن اهل الشام انتهي وقال عبد الله ابن احمد عرضت علي ابي حديثاحدثنا ه الفضل بن زياد الضبي حدثنا ابن عياشبن عقبة عن نافع ابن عمر مرفوعا لا تقراالحائض ولا التنب شيئا من القران فقال ابي هذا باطل يعني ان اسماعيل وهم اذ لم يصح الحديث لم فبق مع المانعين حجة الاالقياس"

اس تمام عبارت کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ حدیث ضعیف باتفاق اہل علم کے نزدیک صحیح نہیں۔ اور صحیح نہ ہونے کی  توجیح بھی بیان کر دی گئی۔ عیال راچہ میاں۔ اور بھی فتح الباری ص303 پ3 باب آداب القراۃ القرآن للجنب ملاحظہ ہو۔

اول ابن عباس رضی اللہ تعا لیٰ عنہ  کا اثر

"ولم يرا بن عياش بالقراة للجنب باسا  اور حدیث مرفوع كان النبي صلي الله عليه وسلم يذكر الله علي احيانه"

 اس حدیث اور اثر سے صاف طور سے جواز قراۃ القرآن للجنب ثابت ہوا سی لئے صاحب اعلام الموقعین نے صاف کہہ دیا۔

واذ لم يصح الحديث لم يبق مع المانعين حجة الاالقياس

  یعنی جب کہ حدیث مابہ الاستدلال صحیح نہیں ہوا۔ تو نہیں باقی رہا۔ مانعین کے لئے کوئی دلیل مگر قیاس اور قیاس نص کے سامنے کوئی چیز نہیں ہے۔ مذید تحقیق فتح الباری مطبع انصاری صفحہ مذکورہ اور اعلام الموقعین صفحہ مذکورہ میں ملاحظہ فرمایئں۔ (العاجز گلزار احمد از شاہزاد پور مفتی 

تعاقب پر تعاقب

حضرت مولانا ثناء اللہ صاحب دامت برکاتہم نے اخبار اہل حدیث بابت 15 اگست 39ء؁ کے جواب میں تحریر فرمایا تھا۔ کہ جنبی قرآن نہیں پڑھ سکتا'' اور دلیل میں ترمذی شریف کی یہ حدیث نقل کی تھی۔

"ولا تقرا الحائض ولا الجنب شيا من القران"

یعنی حائضہ اور جنبی قرآن نہ پڑھے۔ اس فتوے پر ایک صاحب نے تعاقب کیا ہے۔ جو اخبار اہل حدیث مجریہ 8 ستمبر میں شائع ہوا ہے۔ تعاقب کا خلاصہ یہ ہے کہ 1۔ ترمذی شریف کی حدیث مذکور ضعیف  ہے۔ 2۔ اثر ابن عباسرضی اللہ تعا لیٰ عنہ

 ولم يرا بن عياس بالقراة للجنب باسا  اور حدیث مرفوع كان النبي صلي الله علهه وسلم يذكر الله علي كل احيانه  کے معارض ہے۔ کیونکہ ان سے صاف طور سے جواز قراۃ القران للجنب ثابت ہے۔ میں کہتا ہوں بے شک ترمذی شریف کی حدیث مذکور ضعیف ہے علاوہ اس حدیث کے جنبی کے قرآن پڑھنے کی حرمت میں اور بھی ضعیف حدیثیں وارد ہوئی ہیں لیکن بعض کو بعض کے ساتھ ملانے سے قوت حاصل ہوتی ہے اورانکے مجموعہ سے ثابت ہوتا  ہے کہ جنبی اور حائضہ کو قرآن پڑھنا جائز نہیں۔ تحفہ الاحوزی ص123 ج1 میں ہے۔

"والحديث يدل علي انه لايجوز الجنب ولا الحائض قراءة شئ من القران وقد وردت احاديث في تحريم قراءة القران للجنب وفي كلها مقال لكن تحصل القبوة با انضمام بعضها الي بعض ومجموعها يصلح لان يتسك بها"

اور یہی مذہب ہے اکثر اہل علم کا (یعنی صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین  اور  تابعین کا) چنانچہ ترمذی شریف میں ہے۔

"وهو قال اكثر اهل العلم من الصحاب النبي صلي الله علهه وسلم   والتابعين ومن بعدهم مثل سفيان الثوري وابن المبارك والشافعي وحمد وشسحاق قالوا لا تقراالحائض والنجنب من القران شيا الخ"

 اور تحفۃ الاحوذی میں ہے۔ ،اکثر العلما ء علی تحریمہ حضرت مولانا عبد الرحمٰن مبارک پوری شارع  ترمذی نے تحریر فرمایا ہے۔

 "قلت قول الا كثر هوالراجع يدل عليه حديث الباب"

 یعنی اکثر علماء کا قول راحج ہے۔ کیونکہ  ترمذی شریف کی حدیث اس پر دلالت کرتی ہے۔ اب رہا ابن عباس رضی اللہ تعا لیٰ عنہ  کا اثر سو وہ حدیث مرفوع کے مقابلہ میں بے اثر ہے۔ اوسرحدیث مرفوع

"كان النبي صلي الله علهه وسلم يذكر الله علي كل احنانه"

پس واضح  ہو کہ زکر اللہ سے غیر تلاوت قرآن مراد ہے۔ چنانچہ قرات قرآن کے ٖغیر مستثنیٰ ہونے پر یہ حدیث صاف دلالت کرتی ہے۔

"عن علي قال كان رسول الله صلي الله علهه وسلم يقرئنا القران علي كل حال ما لم يكن حنبا"   (رواہ  ترمذي وقال ہذا حدیث حسن صحیح)

یعنی حضرت علی رضی اللہ تعا لیٰ عنہ  کہتے ہیں کہ ر سول اللہﷺ  ہم کو  ہر حال میں قرآن پڑھاتے  تھے مگر حالت جنابت میں نہیں۔

تحٖفۃ الاحوذی ص136 میں اس اشکال کا ہی جواب دیا گیا ہے۔ الحاصل مولانا ثناء اللہ صاحب کا فتویٰ میرے نزدیک صحیح ہے۔

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ  ثنائیہ امرتسری

جلد 01 ص 519

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ