السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اہل حدیث کے نزدیک گائوں میں خواہ چھوٹا ہو یا بڑا جمعہ پڑھنا جائز ہے۔ مگر کسی حدیث سے ثابت نہیں کے رسول اللہﷺ نے بذات خود کسی گائوں میں جمعہ پڑھایا ہو۔ یا کسی بستی والوں یا گائوں والوں کو جمعہ پڑھنے کا حکم دیا ہو۔ اور نہ آپ کے زمانہ میں مدینہ شریف کے گردو نواح میں نزدیک یا دور کسی گائوں میں جمعہ پڑھنا پایاگیا ہے۔ بلکہ جو لوگ دہیات میں جمعہ پڑھنا چاہتے تھے۔ وہ بھی مدینہ آکر جمعہ پڑھ جاتے تھے۔ اور جب رسول خداﷺ ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو قبا میں تین دن رہے اور ایک مسجد بھی وہاں بنوائی مگر جمعہ کے دن قبا میں جمعہ نہیں پڑھایا وہاں سے روانہ ہو کر مدینہ میں آکر جمعہ پڑھایا بلکہ قبا والوں کو حکم دیا کہ مدینہ میں آک جمعہ پرھا کرو۔ اس سے ثابت ہوا کہ گائوں میں جمعہ پڑھنا جائز نہیں۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
دیہات میں جمعہ کے جواز پر امام بخاری نے دو روایتیں لکھی ہیں۔ ایک ابن عباس رضی اللہ تعا لیٰ عنہ کی روایت ہے۔ کے مسجد نبوی میں جمعہ قائم ہونے کے بعدگائوں میں جمعہ قائم ہوا تھا۔ گو اس روایت میں اس بات کا زکر نہیں کہ بااجازت آپﷺ ہوا تھا مگر عام صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کی عاددت ہ تھی کہ اس قسم کے کام اجازت ہی سے کیا کرتے تھے۔ دوسری حدیث امام ممدوھ لائے ہیں۔ جس کا مضمون ہے کہ تم مسلمانوں میں سے ہر ایک حاکم ہے۔ اور ہر ایک کو محکوم سے وسوال ہوگا۔ میں کہتا ہوں جمعہ کی فرضیت بالاتفاق ہے۔ ہاں اس کو بعض شرائط میں اختلا ف ہے۔ منجملہ شہر کا ہونا بھی شرط لگائی جاتی ہے۔ اس کا ثبوت کسی صحیح حدیث مرفوع سے نہیں ہے۔ لہذا جمعہ ہر مسلمان بالغ مرد پر فرض ہے رہا یہ کہ گائوں واکے مدینہ میں آکر پڑھتے تھے۔ بہ بیت فرض نہ آتے تھے۔ بلکہ بہ نیت حضورﷺ جماعت نبویہ در مسجد نبوی۔ لا غیر ایام قیام قبا میں جمعہ فرض نہ ہوا تھا۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب