سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(107) علم غیب ۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوعلم غیب ذاتی ہےیاوہبی ۔علم غیب کی تعریف

  • 608
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 1748

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوعلم غیب ذاتی تھا یاوہبی؟اورعلم غیب کی جامع مانع تعریف کیاہے ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

غیب معنیٰ  مغیب  ہے ۔ جیسے خلق بمعنیٰ  مخلوق  اس کے معنیٰ پوشیدہ  شئے  کےہیں ۔ اس  کےعلم کی دوصورتیں ہیں ۔ ایک یہ کہ  اس کا علم اسباب عادیہ سے ہو۔ دوم یہ کہ اسباب غیرعادیہ  سے  ہو۔ ان دونوں کا ہم الگ الگ بیات کرتے ہیں ۔اس سے علم غیب کی تعریف بھی واضح ہوجائے گی ۔اور اس کے ضمن میں ذاتی وہبی کا مسئلہ بھی حل ہوجائے گا۔ان شاء اللہ

اول الذکرکابیان

            اول الذکرعلم غیب نہیں ۔دلیل اس کی یہ ہے کہ اللہ تعالی فرماتاہے ۔

﴿قُل لَّا يَعْلَمُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّهُ ۚ ﴾--سورة النمل65

’’کہہ دیجئے کہ آسمانوں والوں میں سے زمین والوں میں سے سوائے اللہ کے کوئی غیب نہیں جانتا‘‘

اس آیت میں فرمایاکہ پوشیدہ شئے کوصرف خدا ہی جانتاہے ۔حالانکہ بہت سی پوشیدہ اشیاء ہیں کہ ان کوخداکے سوادوسرے بھی جانتے ہیں ۔مثلاً کسی کے پیٹھ  کے پیچھے کوئی شئے پڑی ہو تو وہ اس سے پوشیدہ ہے ۔ اگر وہ اس کومڑکردیکھ لے تواس کوکا علم ہوجاتاہے ۔ اس طرح  کان میں سوناچاندی وغیرہ پوشیدہ ہوتاہے۔ جب انسان کان کھودتاہے تو اس کو اس کا علم ہو جاتاہے ۔ تو اگرپوشیدہ شئے کا علم مطلقاً علم غیب ہو تو پھریہ بھی علم غیب ہونا چاہیے۔ حالانکہ مندرجہ بالاآیت صاف ہے کہ پوشیدہ  کاعلم صرف خداکو ہے۔ اس سےمعلوم ہواکہ اگرپوشیدہ کا علم ایسے اسباب سے ہو۔جوعام عادت کے موافق ہیں تو اس کوشرعاً علم غیب نہیں کہتے ۔

ثانی الذکرکابیان

قرآن مجیدمیں ہے:

﴿قُلْ إِنْ أَدْرِي أَقَرِيبٌ مَّا تُوعَدُونَ أَمْ يَجْعَلُ لَهُ رَبِّي أَمَدًا ‎﴿٢٥﴾‏ عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَىٰ غَيْبِهِ أَحَدًا ‎﴿٢٦﴾‏ إِلَّا مَنِ ارْتَضَىٰ مِن رَّسُولٍ فَإِنَّهُ يَسْلُكُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ رَصَدًا ‎﴿٢٧﴾‏ لِّيَعْلَمَ أَن قَدْ أَبْلَغُوا رِسَالَاتِ رَبِّهِمْ وَأَحَاطَ بِمَا لَدَيْهِمْ وَأَحْصَىٰ كُلَّ شَيْءٍ عَدَدًا ﴾--سورة الجن٢٥-٢٦-٢٧-٢٨

’’کہہ دیجئے کہ مجھے معلوم نہیں کہ جس کا وعده تم سے کیا جاتا ہے وه قریب ہے یا میرا رب اس کے لیے دور کی مدت مقرر کرے گا۔وه غیب کا جاننے والا ہے اور اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا۔سوائے اس پیغمبر کے جسے وه پسند کرلے لیکن اس کے بھی آگے پیچھے پہرے دار مقرر کردیتا ہے۔تاکہ ان کے اپنے رب کے پیغام پہنچا دینے کا علم ہو جائے اللہ تعالیٰ نے ان کے آس پاس (کی تمام چیزوں) کا احاطہ کر رکھا ہے اور ہر چیز کی گنتی شمار کر رکھا ہے۔‘‘

یہ آیت بظاہرپہلی آیت کےخلاف ہے کیونکہ اس میں ہے کہ علم غیب سوائے خداکے کسی کونہیں ۔اور اس آیت سے ثابت ہوتاہے کہ اللہ تعالیٰ انبیاء علیہ السلام کوبذریعہ وحی غیب پرمطلع کردیتاہے ۔(دونوں آیتوں میں موافقت )

بریلوی فرقہ کہتاہے کہ پہلی آیت میں علم غیب سے مراد ذاتی ہے۔ یعنی بغیرکسی کے دینے کے ہے۔ اور دوسری آیت میں وہبی ہے یعنی خداکے دینے سےہے۔ ہم کہتے ہیں ۔وہبی سے کیا مرادہے؟ اگریہ مرادہے کہ جیسے ظاہری آنکھیں ہیں۔ اس طرح رسول کے لیے خدا تعالیٰ باطنی آنکھیں کردیتا ہے جن سے ہمیشہ کے لیے رسول پرکلی غیب ظاہرہوجاتاہے۔ جیسے خداتعالیٰ کے لیے سب کچھ ظاہرہے۔ تویہ اس پہلی آیت کے خلاف ہے ۔کیونکہ تفسیرخازن وغیرہ میں اس آیت کے تحت لکھا ہے ۔

«نزلت فی المشرکین حین سالوا رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم عن وقت الساعة»      (خازن جلد3ص 417)

یہ آیت مشرکوں کے بارہ میں اتری  ہے۔ جبکہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سےقیامت کے وقت سے سوال کیا۔

اس شان نزول سے معلوم ہوا کہ آپ کوقیامت کے وقت کا علم نہ تھا۔وہبی اورنہ غیروہبی ۔کیونکہ سوال وہبی ذاتی  نہ تھا۔ بلکہ ان کاسوا ل مطلقاً تھا جس کے جواب میں کہاگیاکہ خداکے سواکسی کوغیب کا علم نہیں  اور اس کی تائیدحضرت عائشہ رضی اللہ عنہاکی حدیث سے بھی آتی ہے ۔

«من زعم انه صلی اللہ علیه وسلم یخبرالناس بمایکون فی غدفقداعظم علی الله الفریة والله یقول (قل لایعلم )»الایة (تفسیرفتح البیان ج 7ص 81 بحوالہ بخاري مسلم وغیرہ )

’’جوشخص یہ کہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کل کی بات کی خبردیتے ہیں ۔اس نے خدا پربڑا افتراکیا۔‘‘

اللہ تعالی ٰ فرماتاہے :

﴿قُل لَّا يَعْلَمُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّهُ ۚ ﴾--سورة النمل65

’’کہہ دیجئے کہ آسمانوں والوں میں سے زمین والوں میں سے سوائے اللہ کے کوئی غیب نہیں جانتا‘‘

ظاہرہے کہ کل کی بات جاننے یا خبردینے کےلیے وہبی علم کافی ہے۔ جس سے سب کچھ منکشف ہوجائے ۔ ذاتی کی ضرورت نہیں۔ پس اس پہلی آیت سے معلوم ہوا کہ اس قسم کا وہی علم مراد لیناصحیح نہیں۔ بلکہ یہ دوسری آیت کے بھی خلاف ہے۔ کیونکہ دوسری آیت میں عذاب قریب یا دورہونے سے بے خبری کا ذکرہے ۔ نیز وحی کا ذکرہے جس کے ساتھ پہریدارہوتے ہیں۔گویا ویسے آپ بے خبرہیں ۔جب کسی بات کی بابت وحی ہو جاتی ہے توعلم  ہوجاتاہے ورنہ نہیں ۔اس کے علاوہ  اوربہت سی آیات  و واقعات کےخلاف ہے ۔چنانچہ ارشادہے :

اول:

﴿ ۖ وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ ۖ مَرَدُوا عَلَى النِّفَاقِ لَا تَعْلَمُهُمْ ۖ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ﴾--سورةالتوبة101

’’کئی لوگ اہل مدینہ سےنفاق پراڑے ہوئے ہیں ۔توان کونہیں جانتاہم جانتے ہیں۔‘‘

دوم :

﴿ وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ ۚ ﴾--سورة الاعراف188

  ’’اگرمیں غیب جانتاتوبہت سی بھلائی جمع کرلیتااورمجھے کوئی برائی نہ پہنچتی۔‘‘

سوم :

﴿عَفَا اللَّهُ عَنكَ لِمَ أَذِنتَ لَهُمْ حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَتَعْلَمَ الْكَاذِبِينَ﴾--سورة التوبة43

’’اللہ تجھے معاف فرما دے، تو نے انہیں کیوں اجازت دے دی؟ بغیر اس کے کہ تیرے سامنے سچے لوگ کھل جائیں اور تو جھوٹے لوگوں کو بھی جان لے‘‘

اس قسم کی آیات وواقعات بہت ہیں۔ جیسے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاپرتہمت لگنے کاواقعہ جوسورۃ نورمیں مذکورہے۔اورشہدوغیرہ کاواقعہ جوسورۃ تحریم میں مذکورہے ۔یہ سب اس بات کی واضح دلیلیں ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کواس قسم کا وہبی علم نہیں کہ خدانے اس کے باطن کواس طرح  بنادیا ہوکہ جیسے خداپرکوئی شئے پوشیدہ نہیں۔اس پربھی پوشیدہ نہ ہو۔

اوراگروہبی سے مرادہے کہ خداتعالیٰ بذریعہ وحی رسول کومطلع کردیتاہے تویہ بے شک دوسری آیت کا مطلب ہے۔لیکن اس صورت میں رسول پر دوسرے انسانوں کی طرح غیب پوشیدہ ہوگا۔ ہاں جس بات کے متعلق وحی ہوجائے ۔اس کاعلم ہوگا۔اگروحی نہ ہوتوکچھ بھی نہیں ۔اس قسم کاوہبی سب مانتے ہیں نہ اہل حدیث کو اس سے انکارہے نہ کسی اورکو۔ پس اس میں نزاع ہی فضول ہے ۔ہاں نام کاجھگڑاہوکہ کوئی اس کا نام علم غیب رکھتاہے اورکوئی نہیں رکھتا۔تویہ الگ بات ہے ۔یہ کسی گنتی میں نہیں ۔کیونکہ یہ محض لفظی اختلاف ہے مطلب میں سب متفق ہیں۔پس اس کواہمیت نہ دینی چاہیے ۔

خلاصہ یہ کہ  خداتعالی ٰ کاعلم ذاتی ہے اور انبیاء کوجوکچھ معلوم ہوتاہے خواہ اس کانام کوئی علم غیب وہبی رکھے یاعلم غیب سے خارج کرکے صرف وحی سے موسوم کرے اگراس کوعلم غیب وہبی کہاجائے تواس صورت میں علم غیب کی تعریف ہوگی۔ پوشیدہ شئے کاعلم جوبذریعہ اسباب عادیہ نہ ہو اور اگر اس کوعلم غیب وہبی نہ کہاجائے ۔توپھرعلم غیب کی تعریف مذکورہ میں اتنا اوراضافہ کرنا پڑے گا۔کہ کسی کے بتلانے سے بھی  نہ ہوخواہ بتلانے والا  وحی ہویاغیروحی ۔

بعض لوگ علم غیب کی تعریف کرتے ہیں۔کہ پوشیدہ شئے کاعلم جو بذریعہ حس وعقل  نہ ہو۔یہ تعریف اگرچہ صحیح ہوسکتی ہے ۔مگرجولوگ بذریعہ وحی حاصل ہونے والے علم کوبھی علم غیب کہتے ہیں ۔ان کےنزدیک صحیح نہیں۔کیونکہ وحی کے ذریعہ جوکچھ آتاہے اس کاطریق اکثرحس (سماع )وغیرہ ہے ۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اہلحدیث

کتاب الایمان، مذاہب، ج1ص205 

محدث فتویٰ 

 

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ