السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
زید کہتا ہے کہ مسجد میں محراب بنانا درست ہے۔ ااور ثبوت یہ دیتا ہے کہ مسجد نبوی میں بھی محراب ہے۔ بکر کہتا ہے کہ مسجدوں میں محرابیں بنانا بدعت ہے۔ کیوکہ یہ دوسری صدی ہجری میں رائج ہوئیں۔ اور یہ حدیث شریف پیش کرتا ہے کہ فرمایا رسول اللہﷺ نے میری امت ہمیشہ بھلائی میں رہے گی۔ جب تک کہ وہ اپنی مسجدوں میں نصاریٰ کی طرح محراب نہ بنایئں گے۔ (ابن ابی شیبہ فی المصنف)
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
نصاریٰ کا محراب درمیان میں اس طرح کا ہوتا ہے۔ اس میں واعظ کھڑا ہوکر وعظ کہتا ہے۔ مساجد میں محراب ایسے نہیں ہوتے۔ لہذا حدیث مذکور ان محرابوں پر چسپاں نہیں ہے۔ ہاں اس میں شک نہیں کہ زمانہ ر سالت میں محراب نہ تھے۔ جیسے مینا ر بھی نہ تھے۔ پس محراب مثل مینار کے مساجد کی محض علامت ہیں۔
محراب مسجد میں بنانا درست ہے۔ بدعت نہیں جس امر کا ثبوت قرآن وحدیث سے پایا جاتا ہے۔ اس کو بدعت کہنا ناجائز ہے۔ برابر خیر القرون سے اس پر مسلمانوں کا تعامل چلا آتا ہے فَنادَتهُ المَلـٰئِكَةُ وَهُوَ قائِمٌ يُصَلّى فِى المِحرابِ (پارہ نمبر 3)
قال السدي المحراب المصلي ۔ شریعت انبیاء سابقین کی شریعت ہماری ہے مگر ان امور میں جس کو قرآن وحدیث نے منسوخ کردیا۔ بے شک اس پر عمل کرنا جائز ہے۔ محراب کی ممانعت قرآنی آیت واحادیث رسول سے ثابت نہیں۔ آیت مذکورہ میں زکریاعلیہ السلام کا فعل اللہ پاک نے زکر کیا۔ پس اس کا جواب بین طور پر ثابت ہوا۔ دوسری اس امر پر یہ حدیث رسول اللہﷺ دلیل ہے۔
"اخرج البيعقي في السنن الكبري ان طريق سعيد بن عبد الجبار بن وائل عن امه عن وائل بن حجر قال رسول الله صلي الله عليه وسلم خضر الي المسجد فدخل المحراب ثم رفع يديه با لتكبير الحديث"
مولانا شمس الحق صاحب مرھوم ''عون المعبود'' میں لکھتے ہیں۔ "قلت ما قاله القاري المحاريب ن المحدثات ففيه نظر لان وجود المحراب زمن النبي صلي الله عليه وسلم يثبت" من بعض الروايات اور اس پر حدیث مذکور بہیقی کی پیش کی ہے۔ وفي عون المعبود شرح ابي داود ومن ذهب الي الكراهة فعليه البينة ولا يسمع كلام احد من غير دليل وبرهان (انتهي)"
امام احمد بن حنبل ؒ اس کے مجوز ہیں۔ ''کشاف القناع''فقہ حنبلیہ میں بھی اس کی اباھت موجود ہے۔ وہ یہ ہے۔
"ويباح اتخاذ المحراب فصا وقيس لا يتاحب او ما اليه احمد واختار الاجري وابن عقيل يستبدل به الجاهلزانتهي"
مولف کشاف القضاع بھی اباحت بلکہ استحباب ثابت کرتا ہے۔ اور کہتا ہے کہ نص سے ثابت ہے۔ اصطلاح علماء میں نص قرآنی آیات واحادیث کو کہتے ہیں۔ یعنی قرآن وحدیث سے محراب بنانا ثابت ہے۔ جن احادیث سے کراہت بعض لوگ ثابت کرتے ہیں۔ وہ یہ ہیں۔
"وقد اخرج الطبراني والبيهقي عن ابن عمر ان النبي صلي الله عليه وسلم قال اتقوا هذه المذابح يعني المحاريب واخرج ابن ابي شيبة في المصنف عن موسي الجهني قال قال رسول الله صلي الله عليه وسلم لا تزال امتي بخير ما لم يتخذوا في مساجد هم مذابح كمذا بح النصاري"
اس پر نظر ہے بچند وجوہ۔ اولا ان کے راوی زکر کر کے ہر ایک کی توثیق ضروری ہے۔ جرح علت وخفیہ وغیرہ جو نقائص کہ سندوں وغیرہ میں واقع ہوتے ہیں۔ یا متن میں اس سے برائت لابد ہے۔ اور بیان راویوں کا زکر ان کی توثیق جو بذمہ مدعی ہے۔ مفقود ہے۔ ثانیا ممانعت مذابح کی ثابت ہوئی جو حجرے علیحدہ مسجد سے بنایا کرتے تھے۔ نہ محراب۔ ثالثا کسی احادیث سے محراب کی ممانعت نہیں ثابت ہوئی۔ رسول اللہ ﷺ نے مذابح سے منع فرمایا۔ اگ مشاہبت نہ ہو تا جائز ہے۔ رابعا حدیث میں مذابح ہے یعنی المحاریب یہ راوی کی تقریر ہے اپنے فہم کے مطابق نہ حدیث کے لفظ۔
جناب!محراب کے دو معنی ہیں۔ ایک حجرہ وغرفہ۔ دوسرا محراب المسجد حرام نہیں ہے۔ الحاصل محراب المسجد بنانادرست ہے اس کی ممانعت کرنا شریعت میں تنگی کرنا ہے۔ بغیر برہان و بینہ اور جس کی ممانعت آئی ہے۔ وہ اور چیز ہے۔ (حررہ احمد اللہ مدرس رحمانیہ دہلی۔ 4جمادی الاول 42)
الجواب صحیح۔ بیشک محراب بنانا مسجدوں میں جائز ہے۔ اس کے عدم جواز پر کوئی دلیل نہیں۔ البتہ یہود ونصاریٰ کے طریق پر امام کے واسطے بصورت خاص محراب بنانا ناجائز ہے۔ واللہ اعلم (کتبہ ابو طاہر البہاری المدرس اول فی المدرسہ دارالحدیث الرحمانیہ الکائنہ فی بلاد دہلی۔ ) نقش محراب بنانا تو جائز ہے لیکن جیسا کہ آجکل اس میں نقش ونگار کا رواج ہے یہ نہیں ہونا چاہیے بلکہ سادہ ہونا چاہیے۔ (کتبہ عبد الوہاب الاروی مدرس مدرسہ رحمانیہ دہلی (سید ابوالحسن عفی عنہ)
محراب بنانی مسجدوں میں زمانہ ر سالت سے اس وقت تک ثابت ہے۔ لہذا اس کو بدعت کہنا غلط ہے۔ سنن بہیقی کی روایت اس پر دال ہے۔ ہاں نصرانیوں کے گرجے کے مشابہ محراب بنانی منع ہے۔ مذابح کمذابح النصاریٰ سے ممانعت ثابت ہوئی اور مذابح کے معنی مقاصیر کے ہیں۔ (کتبہ عبد السلام المبارکفوری)
الجواب صحیح۔ محمد عبد القدیر مدرس مدرسہ ریاض العلوم دہلی
نفس محراب بنانا جائز ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں(کتبہ عبد الرزاق مدرس اول مدرسلہ ریاض العلوم دہلی)
مسجدوں میں محراب بنانا جائز ہے۔ مگر مشرکین اور اہل کتاب کے محرابوں کی مشابہت جائز نہیں۔ یہاں تک کہ اگر غیر اہل اسلام کی عبادت گاہوں پر مسلمانوں کاقبضہ ہو اور وہ ان کو مساجد بنانا چاہیں تو بناسکتے ہیں۔ مگر ان کے محرابوں میں تغیر وضعی یاذاتی کرنا ضرور ہے۔ (نیل الاوطار ص 31 ج2) (کتبہ محمد اسحاق الاوری مدرس دارلحدیث رحمانیہ دہلی)
مسجدوں میں جو محراب آجکل بنے ہوئے ہیں۔ وہ درست ہیں۔ جیسا کہ حدیث بہقی سے ثابت ہے۔ اس مسئلہ کی تحقیق عون المعبود میں موجود ہے۔ جو اس کوبدعت کہتے ہیں وہ غلط کہتے ہیں۔ (محمد یونس ۔ مدرس مدرسہ حضرت میاں صاحب مرھوم پھاٹک حبش خان دہلی)
جواب صحیح ہے۔ نفس محراب جو آجکل مساجد میں ہے جائز ہے۔ جن روایتوں میں ممانعت ہے وہ اہل کتاب کی مشابہت سے منع فرمایا ہے۔ جو اس محراب میں نہیں پائ جاتی۔ نصاریٰ کے معبد جا کر دیکھو ہرگز اس کے مشابہ نہیں پھر ممانعت اس محراب سے کیسی الٖغرض یہ محراب جائز ہے۔ ابو سعید محمد شرف الدین عفی عنہ مدرس اول)
محراب مسجد میں بنمانا جائز ہے۔ لیکن یہود ونصاریٰ کی طرح بڑا اور منقش مزین نہ ہو جیسا کہ آجکل گرجوں میں دیکھا جاتا ہے۔ اس کا ثبوت زمانہ قدیم سے چلاآتا ہے۔ احادیث میں مذکور ہے۔ اور اصحاب لٖغت بھی زکر کرتے آتے ہیں۔ مدت مدیدہ سے بٖغیر اناکر کرنے کے (عبد الرحمٰن مدرس مدرسہ مسجد حاجی علی جان دہلی)
مسلمانوں میں جو آجکل محراب مروج ہیں۔ وہ یہود ونصاریٰ کی طرح نہیں ہے۔ لہذا بدعت نہیں ہے۔ ہاں اگر مشابہت ہو تو البتہ بدعت ہے۔ ورنہ نہیں (محمد یوسف علی پیر بھومی )
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب