سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(105) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خداکودیکھاہے ؟

  • 606
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 1213

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہ کا فتوی ٰ ہے کہ جوشخص یہ دعوی ٰ کرے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خداکودیکھا ہے وہ جھوٹا ہے اوردلیل آیت "لاتدرکه الابصار" یعنی اس کوآنکھیں دیکھ نہیں پاتیں پیش کی ہے۔اورحضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اورحضرت انس رضی اللہ عنہ کامسلک یہ ہے کہ رای محمدربه (محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کودیکھا) اوردلیل اس کی آیت "قاب قوسین اوادنیٰ" (وہ کمان قدربلکہ اس سے نزدیک ترہوگیا) پیش کی ہے ۔حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ اس آیت سے مرادجبرئیل علیہ السلام لیتےہیں۔ جولوگ جواز روئیت کے قائل ہیں وہ آیت "لاتدرکه الابصار" کامعنیٰ  "هوالاحاطة بالشئی وهوقدرزائدعلی الرویة" کے کرتے ہیں (شئے کااحاطہ جوروئیت سے زائدچیز ہے)لیکن بفحوائے "واصحابی اعرف بالمرادمن غیرہ" (فتح جلد3 ص 291 مصری)آیت سے مرادسے زیادہ  واقف ہے۔عائشہ رضی اللہ عنہاکی دلیل عدم جواز روئیت کےلیے قوی ہے اورحدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ جوکہ مرفوع ہے اس میں یہ لفظ "فیقال له هل رأیت اللہ فیقول ماینبغی لاحدان یراللہ" (مشکوة ص 26)اس کوکہاجائے گا۔کیاتونے خداکودیکھاہے پس کہے گا کسی کو لائق نہیں کہ خداکودیکھے ) بھی قول عائشہ رضی اللہ  عنہاکی تقویت کرتی ہے۔عرض یہ ہے کہ آپ ان تمام اولہ پرغورفرماکراصل حقیقت سے آگاہ فرمائیں ۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

اس مسئلہ میں صحابہ رضی اللہ عنہم کا اختلاف مشہورہے ایک طرف حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا،حضرت عبداللہ بن مسعوررضی اللہ عنہ وغیرہ ہیں دوسری طرف عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ وغیرہ ہیں ۔لیکن عبداللہ بن عباس رضی اللہ  عنہ سے مروی ہے ۔راہ بفوأدہ ۔یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خداکو اپنے دل سے دیکھاہے۔

دل کے دیکھنے سے بظاہرکشف مرادہے ۔اس صورت میں صحابہ رضی اللہ عنہمامیں اختلاف نہیں رہتاکیونکہ جوانکارکرتے ہیں وہ روئیت بصری سے انکارکرتے ہیں ۔اگربالفرض اختلاف تسلیم کرلیاجائے تواس کافیصلہ مرفوع حدیث سے ہوناچاہیے۔

«فلمااختلف الصحابة وجب الرجوع الی المرفوع »         (فتح الباری جزء 4 ص 486)

جب صحابہ رضی اللہ عنہم کااختلاف ہوگیا تومرفوع کی طرف رجوع واجب ہوا۔اور وہ مرفوع حدیث سے عدم روئیت ہی ثابت ہوئی ہے ۔

ابوذررضی اللہ عنہ کہتےہیں :

’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا:آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کودیکھاہے فرمایا:’’نوراانی ارادہ‘‘ (مشکوة باب رؤیة اللہ تعالیٰ) نورہے میں کس طرح دیکھ سکتاہوں۔‘‘ جوحدیث آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوال میں ذکرکی ہے وہ بھی اس کی مؤیدہے۔ پس ترجیح اسی کوہے کہ دنیا میں خدا کوکوئی نہیں دیکھ سکتا۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اہلحدیث

کتاب الایمان، مذاہب، ج1ص203 

محدث فتویٰ

 

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ