السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہم لوگوں کو مسجد توڑکر سخت آفت میں جان پھنسی ہے۔ سخت پس وپیش میں پڑے ہوئے ہیں۔ کہ گورستان میں مسجد بنانااور نماز پڑھنا جائز نہیں مگرچھ ہڈیاں نکلی ہیں۔ وہ ڈیڑھ سال پہلے کی گورشدہ ہیں۔ اب اس پر گورستان کا حکم عائد کر کے مسجد بنانا جائز ہے۔ یا نہیں؟اور یہ بات بھی قابل ٖغور ہے کہ جس زمانہ میں مسجد بنی تھی اس وقت ان اطراف میں کوئی مسجد نہین تھی۔ اور پہلے لوگ بھی غالباًمشرک تھے لہذا ایسی حالت میں بھی وہاں مسجد ناجائز ہے یا نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مسجد نبوی کی جگہ پہلے مشرکین کا قبرستان تھا۔ اس لئے صورت مرقومہ میں مسجد بنانا جائز ہے منع نہیں۔
یہ قیاس یا استنباط صحیح نہیں اس لئے کہ مشرکین کے مردوں کا احترام نہیں ہے۔ جیسے کہ مشرکین کی لاشوں کو کنویں میں ڈلوادیا تھا کنواں بھی گندے پانی کا تھا متفق علیہ مشکواۃ ص 345 اوراہل اسلام کی لاشوں اور مردوں کا احترام ہے۔ ان کے مردے کی ہذی توڑنے کا اتنا ہی گنا ہ ہے جیسے زندہ کی
"ان رسول الله صلي الله عليه وسلم قال كسر عظم الميت ككسره حيا رواه ابوداود واسنا د علي شرط مسلم وزاده ابن ماجه من حديث ام سلمة في الاثم انتهي كزافي بلوغ المرام ص40وعن عمر بن حزم قال راني النبي متكيا علي قبره فقال لا توز صاحب هذا القبر الحديث رواه احمد مشكواة ص 149) قال الحافظ في الفتح امناده" (صحيح كزافي تنقيح الرواة ص)333
پس اہل اسلام کو قبروں کوکھود کر ہڈیاں نکا ل کر مسجد بنانا قطعا ً ممنوع ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب