سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(223) وہابی کسے کہتے ہیں ان کی کتنی قسمیں ہیں

  • 6011
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 3364

سوال

(223) وہابی کسے کہتے ہیں ان کی کتنی قسمیں ہیں

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

وہابی کسے کہتے ہیں ان کی کتنی قسمیں ہیں۔ ان کے عقائد کیا ہیں وہ کافر ہیں یا مومن  ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ایک عالم محمد بن عبد الوہاب نجد میں پیدا ہوا تھا۔ جو حنبلی مذہب کا پیرو تھا۔ اس نے عرب میں قبر پرستی وغیرہ رسوم شرکیہ اور کفریہ کے برخلاف آواز اٹھائی تھی گو وہ حنبلی مذہب کامقلد تھا۔ مگرمذہب اور رسوم میں فرق کرتا تھا۔ اس زمانے کی رسوم شرکیہ اور کفریہ کی سخت تردید کرتا تھا۔ اورزمانہ کی رسوم مٹانے میں رفتہ رفتہ اس کی جماعت بہت ترقی کر گئی۔ یہاں تک کہ اس  نے حکومت کی شکل اختیارکرلی۔ اس کے اتباع اور فوجیوں کولوگ وہابی کہتے تھے۔ ان کے عقائد گو خراب نہ تھے۔ مگر رسومات  ملکی کی وجہ سے لوگ ان کی مخالفت کرتے تھے۔ اہل حدیث کو اس سے مسئلہ تقلید میں اختلاف تھا اور اب بھی ہے۔ محمد عبد الوہاب مقلد تھا۔ اوراہل حدیث کے نزدیک تقلید جائزنہیں(موجودہ علماء نجد تقلید جامد کے خلاف ہیں۔ راز)

ہندوستان میں جن دنوں دہلی کے خاندان شاہ والی اللہ مرحوم اورآپ کے شاگردوں نےبھی مذہب کو رسوم ملکی سے پاک کرنا چاہا۔ توحامیان رسوم کی طرف  سے ان کو بھی وہابی کا خطاب ملا۔ کیونکہ ان کے نزدیک یہ اصول تھا۔ کہ جو کوئی بھی مذہب کو رسومسے الگ کرکے رسوم کی تردید کرے۔ وہ محمد بن عبد الوہاب کا پیرو ہے۔ حالانکہ یہ اصول غلظ ہے۔ کیونکہ اتباع مذہب میں ہو تو پیرو کہاجائے۔ رسوم کی  تردید کرنا تو ہر ایک دیندار اوراہلل علم کا کام ہے۔ بہر حال اس بانگ بے ہنگام نے بہت شہرت حاصل کی۔ اورشاہ ولی اللہ صاحب کے شاگردوںکا نام بوجہ تردید رسوم شرکیہ وہابی رکھا گیا۔ آگے چل کرشاہ والی اللہ کا سلسلہ دوشاخو ں میں ،منقسم ہوا۔ ایک شاخ حضرت میاںصاحب۔ مولانا سید نزیر حسین۔ مرحوم کی بنی۔ اوردوسری مولا نامحمد احمدعلی۔ صاحب سہارنپوری کی۔ مولاناسید نزیر حسین صاحب کے شاگردوں کی شاخ تو اہل حدیث کہلائے۔ اور مولانا احمد علی صاحب کی شاخ میں مولانا رشید احمد گنگوہی و مولانا محمد قاسم صاحب ناتونویبانیان مدرسہ دیو بندہوئے۔ چونکہ ان دونوںشاخوں کا مخرج ایک ہی تھا۔ یعنی چشمہ شاہ ولی اللہ صاحب اس  لئے سوائے مسئلہ تقلید کےتردید رسومشرکیہ میں دونوںشاخیں ایکددوسرے کے موافق اورموئد ہیں۔ لہذا حامیان رسوم  جب کبھی زیادہ غصہ اور رنج میں آتے ہیں۔ تودونوں شاخوں اہل حدیث اوردیوبندیوں کووہابی کہہ دیتے ہیں۔ جس جی وجہ وہی ہے جو اوپر مذکور ہے۔ ورنہ درحقیقت نہ اہل حدیث وہابی ہیں۔ نہ دیوبندی۔ بلکہ وہابی وہی گروہ ہے۔ جوعلامہ محمد بن عبد الوہاب نجدی کا پیرو۔ آجکل بھی نجد میں ہے۔ (اور جو سلطان بن عبد الرحمٰن کی قیادت میں آجکل حرمین شریفین کی   خدمت سر انجام دے رہا ہے۔ (ادام اللہ اقبالھم۔ راز)

بہر حال وہابی گو ہندوستان میں نہیں تا ہم اپنے مذہبی عقیدہ کی روسے مسلمان ان کو یا ہندوستانی نام نہاد۔ وہابیوں کوکافرکہنے والااپنے ایمان کی خیرمنائے۔ انکومسجدوں سے روکنابحکم وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن مَّنَعَ مَسَاجِدَ اللَّـهِ۔ سخت ظلم ہے۔ جو لوگ ضد اور تعصب اور بلکہ جہالت میں سرشار ہیں۔ وہی ایسے لوگوںسے عداوت رکھتے ہیں۔ (اہل حدیث10 شوال 1336ہجری)

ہمارے عقائد اور اعمال

اشهد ان لا اله الا الله واشهد ان محمد عبده ورسوله اسلام میں جتنے فرقے ہیں۔ وہ سب اپنے آپ کو حق پر کہتے ہیں۔ دوسرے فریق کو اس غلط عقائد کی وجہ سے گمراہ جانتے ہیں۔ جماعت  اہل حدیث کے حق میں بھی غیراہل حدیث لوگوں کا یہی خیال ہے۔ کے ان کے عقائد غلط ہیں۔ اوران کے اعمال بھی غلط ہیں۔ اس لئے میرے دل میں آیا کہ میں اس جلسہ(1) کی تقریر میں اپنے عقائداوراعمال پیش کرکےفیصلہ سامعین اورناضرین پر چھوڑدو۔ پس حاضرین توجہ سے سنیں اور غایبین تک میرا یہ پیغام پہنچا دیں کہ ہمارا یہ پہلا عقیدہ ہے۔ لا اله الا الله محمد رسول الله

اس کلمہ طیبہ کا دو حصے ہیں۔ پہلا حصہ توحید خداوندی  کے متعلق ہے۔ دوسرا حصہ رسالت محمدیہ ﷺ کے متعلق پہلے حصہ کی تشریح ہمارے عقیدہ میں یہ ہے کہ جتنے افعال خدائے تعالیٰ نے  قرآن مجید میں اپنی ذات سے مخصوص رکھے ہیں۔ ان میں کس کو زرہ بھر اختیار نہیں۔ مثلاً پیدا کرنا یعنی نیست سے ہست کرنا۔ چنانچہ ارشاد ہے۔

هَلْ مِنْ خَالِقٍ غَيْرُ اللَّـهِ ’’خالق اللہ کے سوا بھی ہے؟‘‘(یعنی نہیں ہے ۔ بعد پیدائش فناکرنا) جیسے فرمایا ۔ يُحْيِي وَيُمِيتُ  آیت (وہی زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے۔ )

نتیجہ

جوشخص یہ عقیدہ رکھے کے کوئی نبی یا ولی زندہ کرنے پر یا مارنے میں کسی قدر بھی دخل رکھتا ہے۔ تو ہمارے نزدیک وہ مشرک ہے۔ یہاں پہنچ کر میں ایک بڑے بھاری نتیجے پر اطلاع دوں تو بے موقعہ نہ ہوگا۔ کہ مرزا صاحب قادیانی کا قول ہے۔

اوتيت صفة الافناء والاحياء (خطبہ الہامیہ ص23) مجھ (مرزا)  کو زندہ کرنے اور فنا کرنے کی قوت دی گئی۔ ہم ایسے عقیدہ کو شرک سمجھتے ہیں۔ کیونکہ قرآن مجید میں ایسے عقیدہ کے متعلق ارشاد ہے۔ لَيْسَ لَكَ مِنَ الْأَمْرِ شَيْءٌ ۔ (اے ہمارے رسول! تجھے بھی دنیا کے انتظام میں کوئی اختیار نہیں) ۔ نیز فرمایا۔ أَمْ أَبْرَمُوا أَمْرًا فَإِنَّا مُبْرِمُونَ ﴿٧٩سورة الزخرف

’’کیا دنیا کا انتظام کسی اورہاتھ میں ہے۔ ؟نہیں ہم ہی منتظم ہیں۔‘‘ خداکی ان دو سفتوں کا ظہور اتناواضح ہے کہ کسی منکر سے منکر کو بھی جرائت انکار نہیں ہوسکتی۔ مولانا مرحوم نے ایک بند میں خداکی ان دونوںصفتوں کا اظہار یوں کیا ہے۔

خرد اورادراک   رنجور ہیں واں           مہ ومہر ادنیٰ سے مزدور ہیں واں

جہاندار مغلوب و مقہور ہیں واں         نبی  اور   صدیق   مجبور ہیں واں

نہ پرستش ہے   رہبان   وحبار کی  واں

نہ پروا  ہے ابرار   احرار      کی واں

علم غیب

خدا کی تیسری صفت علم غیب ہے۔ جس کی  تفسیر خود قرآن نے بتادی ہے۔ ارشاد ہے

ۚ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ۚ وَمَا تَسْقُطُ مِن وَرَقَةٍ إِلَّا يَعْلَمُهَا وَلَا حَبَّةٍ فِي ظُلُمَاتِ الْأَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَلَا يَابِسٍ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُّبِينٍ ﴿٥٩سورة الأنعام

’’یعنی خدائے تعالی ٰنے خشکی اور سمندر سب جگہ کی پوشیدہ چیزیں جانتا ہے۔ مثلاً ایک بالشت  بھر زمین  سامنے رکھ لو۔ اس کے اندر جب سے وہ بنی ہے۔ کیا کیا چیز اس میں پیدا ہوئی۔ اورآئندہ کیا کیا ہوگی۔ خدا سب جانتا ہے۔ ایسے علم میں کسی کوپورا یاادھوراشرک سمجھنا قرآنی نصوص کے بالکل خلاف ہے۔‘‘

مسلمانوں کا بالاتفاق یہ عقیدہ ہے۔ کہ آپﷺ کل دنیا سے افضل بلکہ افضل الرسل ہیں۔ اس لئے افضل الرسل کو مخاطب کر کے حکم دیا۔ ۔

قُل لَّا أَقُولُ لَكُمْ عِندِي خَزَائِنُ اللَّـهِ وَلَا أَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَا أَقُولُ لَكُمْ إِنِّي مَلَكٌ ۖ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ ۚ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الْأَعْمَىٰ وَالْبَصِيرُ ۚ أَفَلَا تَتَفَكَّرُونَ﴿٥٠ سورة الأنعام

’’کہہ دیجئے کہ نہ میرے پاس خدا کے خزانے ہیں۔ اور نہ میں غیب جانتا ہوں۔ ‘‘

کیسی صفائی سے انکار ہے اورکیسی حق گوئی سے کام لیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی ارشاد ہے۔ وَمَا أَدْرِي مَا يُفْعَلُ بِي وَلَا بِكُمْ ۖ۔ میں نہیں جانتا کے آج سے اگلے دن میں اور اس گھڑی سے اگلی گھڑی میں مجھے کیا پیش آئے گا۔ اور تمھیں کیا اچھا رہوں گا یا بیمار زندہ رہوں گا یا فوت ہوجائوں گا) اس  طرح اللہ کی ایک صفت قاضی الحاجات بھی ہے۔ جس کی بابت ارشاد ہے۔ ۔ ’’أَمَّن يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَاءَ الْأَرْضِ ۗ أَإِلَـٰهٌ مَّعَ اللَّـهِ ۚ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَ﴿٦٢ سورة النمل

’’کون ہے میرے سوا جو عاجزوں کے دعایئں قبول کرے اور تکلیفیں دور کرے۔ پس خدا کے سوا کسی کو قاضی الحاجات یا دافع البلیات سمجھنا ہمارے عقیدہ میں شرک ہے۔‘‘ شیخ عطار مرحوم نے کیا ہی سچ کہا ہے۔

دربلا یاری مخواۃ  از ہیچ کس     زانکہ نبود جز خدافریادرس

بلکہ اس سے بھی واضح کہا ہوا ہے۔

غیر حق راہر کہ خواند اے پسر                 کیست دردنیااز وگمراہ تر

اس لئے ہم اپنے عقیدہ کے رو سے یہ رباعی غلط سمجھتے ہیں۔

امدادکن امداد کن از بند غم آذاد کن    در دین ودنیا شاد کن یا شیخ عبد القادرا

ساری خرابی اس رباعی کے چوتھے مصرعے میں ہے۔ کیونکہ اس میں خالق کی بجائے مخلوق کو پکارا  گیا ہے۔ اگر اس مصرعے کو یوں تبدیل کیاجائے۔ تو ساری رباعی صحیح ہوجائے۔ یعنی یوں کہاجائے۔ حقا مرا امداد کن۔ یہ تو ہمارا عقیدہ کلمہ شریف کے پہلے حصہ کے متعلق کلمہ شریف کا دوسرا حصہ یعنی محمدرسول اللہﷺ ۔ اس کا مختصر مطلب یہ ہے کہ کل انبیاء ۔ کل اولیاء۔ اورکل صلحا ایک طرف ہوں۔ اور محمد رسول اللہﷺ دوسری طرف ہمارا عقیدہ اور عمل یہ ہے کہ ہم اس کی تعلیم کو صحیح مانیں گے۔ جو حضرت رسول خدا ﷺ نے فرمائی ہوگی۔ کوئی شخص ہمارے عقیدہ میں آپﷺ کی تعلیم کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ اور نہ ہم اس کی پیوری کرسکتے ہیں۔ سچ ہے۔

بیچارہ خسرو خستہ   را۔ خوں    ریختن فرمودہ   اند۔  

عالم یہ منت یک طرف ۔ آں شوخ تنہا یک طرف

اس لئے ہمارا عقیدہ اور قول ہے۔

ہوتے ہوئے مصفےٰ ﷺ کی گفتار      مت دیکھ کسی قول وکردار

حضرت محبوب سبحانی شیخ عبد القادر جیلانی ؒ بھی یہی تعلیمدیتے ہیں۔ ''یعنی کتاب وسنت کواپنا امام بنالو۔ اورادھرادھرکی باتوںکومت دیکھو۔ کیونکہ مقولہ مشہور ہے۔ الصباح یغنی عن الصباح (صبح کے نمودار ہوتے ہوئے چراغ کی ضرورت نہیں رہتی۔ )

برادران اسلام!

یہ ہیں ہمارے عقائدان پر بھی کوئی مہربان ہم پر حملہ یا طعنہ کرے تو ہمارا جواب یہی ہوگا۔

مکش بہ تیغ ستم والہان سنت را          نہ کردہ اندبجز پاس حق گناہ وگر

یہ ہے مختصر بیان ہمارے عقائد کا اب میں اپنے اعمال کا زکر بھی تھوڑا سا کرتا ہوں۔ اعمال شرعیہ میں سے سے پہلا عمل نماز ہے  جس کی بابت کہا گیاہے۔

روزمحشر کے جانگداز بود             اولیں پر سش نماز بود

یعنی قیامت کے روز سب سے پہلے نماز کا سوال ہوگا۔ ہماری نماز جس طرح ہم  پڑھتے ہیں۔ ۔ اس کی صحت کامعیار بالکل آسان مل سکتاہے۔ ہماری نماز کے امتیازی مسائل رفع الیدین اورآمین بالجہر ہیں۔ تیسرا مسئلہ فاتحہ  خلف الامام ہے۔ ادھر ہم نماز پڑھتے ہیں۔ ادھرصاحب کوئی مشکواۃ کھول کر باب  صفۃ الصلواۃ پڑھنا شروع کردے۔ اُسے معلوم ہوجائے گا۔ کہ ہماری نماز صفت الصلواۃ کا گویا فوٹو ہے۔ ہمارا جو فعل اس باب میں نہ ملے۔ ہم اس کو چھوڑنے کو ہر وقت تیار ہیں۔ میں بطور تایئد مزید کے دو بزرگوں کی شہادت پیش کرتا ہوں۔ ہمارے پہلے گواہ حضرت شیخ سید عبد القادر جیلانی ہیں۔ حضرت ممدوح نے جو طریقہ نماز غنیہ میں لکھا ہے۔ ہماری نماز بالکل اس کا نمونہ ہے۔ غنیۃ الطالبین طالب علم مطالعہ کریں۔ اور پھر بلارعایت بتایئں کے حضرت ممدوح کی تعلیم کے مطابق نماز کس گروہ کی ہے۔ دوسرے بزرگ وہ ہیں جن کے زریعے کشمیر میں اسلام پھیلا۔ اس لئے حضرات کشامرہ خاص کر امرتسری کشمیری اس گواہ کی تعظیم اور عظمت کو ملحوظ رکھ کرمیرے معروضے کو غور سے سنیں۔ اس بزرگ کا نام علی ہمدانی ہے۔ جن کے خدام اور خدام کی بھی اولاد او ر اوالد کو بھی ہمدانی کہتے ہیں۔ چنانچہ امرتسر میں بھی ایک خاندان ہمدانی کے نام سے مشہورہے۔ میں ان صاحبوں کو حضرت علی ہمدانی کی تعلیم پر توجہ دلاناچاہتا ہوں۔ توجہ دلانے سے پہلے یہ بتاناچاہتا ہوں۔ کہ حضرت ممدوح کی عزت  و توقیر اہل کشمیر کے دلوں میں کہاں تک ہے۔ اس  کا اندازہ مندرجہ زیل واقعہ سے ہو سکتاہے۔

مرحوم کی وفات کشمیر میں نہیں ہوئی۔ بلکہ اپنے وطن میں ہوئی ۔ مگر کشمیر کے شہر سری نگر کے لب دریا ایک مسجد ہے۔ جس میں ایک حجر ہ ہے۔ مغفور اس میں بیٹھا کرتے تھے۔ وہ حجرہ سال بھر بند رہتا ہے۔ ایک مقررہ دن کھلتاہے۔ اس دن مسجدمیں اور اس کے اردگرد اتناہجوم ہوتا ہے۔ کہ تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی۔ منتیں مانی جاتی ہیں۔ اورمرادیں مانگی جاتی ہیں۔ ان حضرات کے چند رسائل کا مجموعہ مجھے ملا۔ میں نے اس سے شرف مطالعہ حاصل کیا۔ یہ مجموعہ کشمیر کے مشہو ر خاندان میر واعظ کے کتب خانہ میں ہے۔ اس میں ایک رسالہ صفت الصلواۃ بھی ہے۔ ممدوح  نے صفت الصلواۃ میں رکو ع میں جاتے ہوئے اور سر اٹھاتے ہوئے رفع الیدین کا مسئلہ بھی لکھا ہے۔ ناضرین اسے مطالعہ فرمایئں۔

افراد اہل حدیث ان دو بزرگوں اوران کے علاوہ اور بے شمار بزرگوں کی موافقت کی وجہ سے یہ شعر پڑھیں تو بالکل بجا ہوگا۔ (17 زی الحجہ 64ہجری)

گدایاں رازیں معنی خبر نیست           کہ سلطان جہاں باماست امروز

---------------------------------------------------------

1۔ اجلاس جمعۃ تبلیغ اہل حدیث پنجاب منعقدہ بمقام امرتسر

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ  ثنائیہ امرتسری

جلد 01 ص 413-419

محدث فتویٰ

تبصرے