السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
نوٹ!علماء اسلام خصوصاً علماء اہل حدیث اس سوال کو بنظر غورسے پڑھیں۔ اور اندازہ کریں کے آج اسلام اور قرآن مجید پر کیسے کیسے اعتراضات ہوتے ہیں۔ پرانے زمانے کا علم کلام آج اسی طرح تقویم پارینہ ہوگیا ہے۔ جس طرح پرانے زمانے کا فلسفہ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ ؒ کا ارشاد مجھے ہر وقت یاد رہتاہے۔ کہ جو عالم اپنے زمانے کے اہل بدعت اور اہل الہاد کا جواب نہ دے سکے۔ اس کو علم سے حصہ نہیں ہے۔ موصوف اپنے زمانہ کے جید متکلم تھے۔ جنھوں نے اپنے ہم عصر معترضین کو کافی شافی جوابات دیئے ہیں۔ اگرآپ اس زمانہ میں زندہ ہوتے تو متقضائے حال کے ما تحت اپنے طرزتحریر میں ضرور کچھ تبدیلی فرماتے۔ خیر مجھے اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔ مقصود صرف یہ بتانا ہے کہ جس طرح کوئی حملہ آور اور اسلحہ جنگ میں تبدیلی کرتا ہے۔ اسی طرح مدافعت کرنے والا بھی تبدیلی پر مجبور ہوجاتا ہے۔ آجکل کی جنگ یورپ اس تبدیلی کا واضح نمونہ ہے۔ اور ہمارے دعوے کا ثبوت بہر حال (یہ ) سوال معترضین کے صرف ما فی الضمیری کو ظاہر نہیں کرتا۔ بلکہ مخالفت کی نوعیت بھی بتاتا ہے۔ اس لئے ہم اس کو بہ تمام ہی نقل کرتے ہیں۔ جویہ ہے۔
1۔ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ میں اکمال دین سے کیا مراد ہے۔ اصول دین کے اعتبار سے اکمال ہو یا فروع کے لہاظ سے یا دونوں پہلووں سے اگر فرمایئے کہ اصول دین کے لہاظ سے اکمال ہوا ہے۔ تو ایسا کمال بہت عرصہ پہلے ہوچکا ہے۔ (الیوم) یعنی آج کی تخصیص کیا ہے۔ وہ آیات قرآن جو اصول دین کے متعلق ہیں۔ آج یعنی اس آیت کے کے نزول سے فکافی عرصہ پہلے نازل ہوچکی ہیں۔
کیا یہ واقعہ نہیں ہے۔ اصول دین کے لہاظ سے تو اکمال دین ظہور محمدیﷺ سے بھی پہلے دیگر پیغمبروں کے زریعے ہوچکا ہے۔ دینی اصول میں سے وہ کون سی بات ہے۔ جو پہلے نازل ہوچکی ہو۔ اور اب قرآن مجید میں نازل ہوئی ہو۔ قرآن مجید میں صاف صاف ارشاد ہے۔ کہ حضرت محمد رسول اللہﷺ کوئی نئی بات نہیں لائے۔ اصول دین میں وہی باتیں آپ سکھاتے ہیں۔ جو پیغمبروں نے بتائی ہیں۔ اوراگر کسی عالم کے خیال میں اصول دین کی کوئی تعلیم ایسی ہے۔ جو قرآن مجید میں نازل ہوئی ہے۔ وہ پہلی کتب آسمانی ہیں۔ وہ بالکل موجود نہیں تو عنایت فرما کر ایسی تعلیم بحوالہ کلام الہٰی پیش کرنی چاہیے۔ لیکن ایسی تعلیم پیش کرتے وقت ان آیا ت قرآن کو بھی یاد رکھا جائےھ جس میں صراحت سے یہ بیان ہے۔ کہ رسول اکرم ﷺ کوئی نئی تعلیم نہیں لائے۔ وہی تعلیم لائے ہیں۔ جو پہلے پیغمبروں کے زریعے دنیا کو دی گئی ہے۔ اور جوکچھ قرآن مجید می ہے۔ وہی صف اول میں درج ہے۔ اور رسول کریم ﷺ کو خدا نے حکم دیا۔ کہ ملت ابراہیم ؑ کی پیروی کیجئے۔
2۔ ہ سوال تو اس پہلو سے ہے۔ کہ اکمال دین اس اصول کے اعتبار سے تسلیم کیا جائے۔ اب اصول چھوڑ کر صرف فروعی لہاظ سے اکمال دین مانا جائے۔ تو اس میں دونوں خرابیاں ہیں۔ ایک تو یہ کہ صرف فروعی لہاظ سے اکمال تسلیم کرنا اور اصولی لہاظ سے عدم اکمال ماننا۔ یہ تو عدم اکمال کا اقرار کرنا ہے۔ جب ایک کتاب میں اصول ہی نامکمل ہوں۔ تو وہ کتاب ہرگز مکملل نہیں کہلاسکتی۔ بلکہ فروع کامکمل ہونا تو اصول کی تکمیل پر موقوف ہے۔ بغیر تکمیل اصول تکمیل فروع کی کوئی حقیقت ہی نہیں اور کوئی عاقل ایسا تسلیم ہی نہیں کرسکتا۔ کہ اصول نا مکمل ہوں اور فروع مکمل ہوں لہذا اصول کو چھوڑ کر صرف فروع کی تکمیل تو آیت أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ میں مراد ہر گز نہیں ہوسکتی۔ لہذا فروعی پہلو سے بھی اکمال دین قابل غور ہے۔ علماء کرام مہربانی فرماکر شریعت السلام کا وہ مسئلہ معین فرمادیں جو صرف قرآن مجید میں بیان ہوا ہے۔ اوراس سے قبل کسی شریعت میں قطعا موجود نہیں کتب سابقہ کی شریعتوں کو بھی مد نظررکھیں۔ اور جب یہ یقین ہوجائے کہ فلاں مسئلہ شریعت صرف قرآن مجید مں ہے۔ دوسری کسی شریعت میں موجود نہیں ہے۔ تو دیکھنا چاہیے کہ اس ایک یا چند فروعی مسائل کی بنا پر آج تکمیل کا اعلان کیا جارہا ہے۔ کیا وہ چند مسائل واقعی مدار تکمیل قراردیئے گئے ہیں۔ ؟اور کیا انہیں پر تکمیل دین کا انحصار تھا یہ سب باتیں نہایت دقیق نظری سے دیکھنے کے قابل ہیں۔ علماء کرام سے پوری توجہ کی درخواست کرتا ہوں۔
3۔ اب رہی یہ صورت کہ اصول وفروع دونوں کے اعتبارسے تکمیل مرا دہے۔ اس پر ہمیں غور کرناچاہیے۔ اس اصول کے اعتبار سے تو مسلم ہے کہ دین ظہور محمدی سےف پہلے ہی مکمل تھا ورنہ بتایا جائے کہ آپ ﷺ نے کون سا امر اصول دین میں بالکل نیا ظاہر فرمایا ہے۔ جو پہلے پیٖغمبروں اور کتابوں نے قطعا ظاہر نہ فرمایا تھا ۔ اگر کوئی نئی بات اصول دین میں بالکل نہیں ہے تو پھر اس لہاظ سے آج تکمیل دین ہوئی اس کے کیا معنی ہوئے۔
فروع کے لہاظ سے دیکھا جائے وتو بھی نہایت تدبر کی ضرورت ہے۔ تاریخ ادیان اور کتب آسمانی کا مطالعہ اس بات کوروشن کرتا ہے۔ کہ اسلامی شریعت میں جو احکام نماز رزہ حج۔ ذکواۃ۔ میراث ۔ نکاح ۔ طلاق۔ حلال حرام ہیں۔ وہ بحثیت مجموعی ادیان سابقہ اور شرائع قبل میں موجود ہیں۔ (پیامبر دہلی۔ بابت مئی 1941ء)
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
لفظ الیوم کی تشریح ہم پہلے سوال کے جواب میں کرچکے ہیں کہ اس سے مراد آج کادن نہیں۔ بلکہ اب ہے۔ آج کے مضمون میں اکمال دین پر بحث ہوگی۔ اصل بات یہ ہے کہ معترض صاحب اپنے منصب سے غافل ہو رہے ہیں۔ ہم ان کے منصب پر ان کو اطلاع دےکر جواب پر توجہ کرتے ہیں۔ بہائی دعویٰ کرتے ہیں کہ قرآن مجید الہامی کتاب او ر وحی الہیٰ ہے۔ اورشیخ بہاء اللہ کے ظہور سے پہلے کل دنیا کے لئے یہی واجب العمل تھا۔ بہاء اللہ 1817ء میں پیدا ہوئے تھے۔ اور بعد بلوغت تعلیم سے فارٖغ ہوکر آپ نے دعویٰ کیا۔ تو بقول بہایئاں ان کی کتاب اقدس سے قرآن مجید منسوخ ہوگیا۔ اب ہم بہائی معترضین کوکتاب اقدس کے ظہور سے پہلے زمانہ میں لے جا کر کسی وقت مخاطب کر کے پوچھ سکتے ہیں کہ اس آیت قرآنی کا کیا مطلب ہے۔ کیونکہ اس وقت بہایت کا اثر آپ کے دماغوں پر نہیں تھا۔ پس اس وقت اس سوال کے مخاطب جیسے ہم تھے ویسے ہی بہائی بھی تھے پس ہم کہیں گے۔
آ عندلیب مل کے کریں آہ وزاریاں تو ہائے گل پکار میں چلائوں ہائے دل
بہائی دوستو!ہماری پیش کردہ تصویر محض فرضی نہیں ہے بلکہ واقعی ہے۔ یہ تصویر ہم نے اس لئے دکھائی ہے۔ تاکہ اگر جواب الجواب میں ہمارے جواب کی تغلیط کریں۔ تو اس زمانہ سابق میں اپنے اعتقاد کی بھی تفصیل بتادیں۔ کہ آپ لوگ اس وقت قرآن مجید کی اس آیت کے کیا معنی سمجھتے تھے۔ کیونکہ ع
ماو مجنوں ہم سبق بودیم وردیو ان عشق
ہم اپنے سوال کو پھر دہراتے ہیں۔ تاکہ اچھی طرح سمجھ میں آجائے۔ بہاء اللہ کی پیدائش سے پہلے قرآن مجید ہم جملہ کلمہ گویان و جن میں بہائی بھی شامل ہیں۔ کے نزدیک بطور الہامی کتاب واجب العمل تھا۔ اور اس کا ہر لفظ اس کے معنی بتانے میں صحیح تھا اور اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا تھا۔ اس زمانہ میں ہم دونوں گروہ محمدی اور بھائی یا یوں کہہیے کہ سائل اور مجیب اس آیت پر غور کرے اس کے معنی سمجھتے تھے۔ تو صحیح پاتے تھے۔ وہ صحیح معنی کیا ہیں۔ ؟ سائل اگر جواب الجواب پر قلم اٹھائے تو ہمارے سوال کاجواب بھی دے کیونکہ بہائوں کااعتراض اگر قرآن شریف پر ہو تو وہ آریوں کیطرح نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ آریوں نے کسی زمانے میں بھی قرآن مجید کو الہامی تسلیم نہیں کیا۔ اور بہائی شیخ بہاء اللہ کے دعوے سے پہلے تسلیم کرتے آئے ہیں۔ فاختلف ۔ بہائی دوستو!
مشکل بہت پڑے گی برابر کی چوٹ ہے آئینہ دیکھئے گا زرا دیکھ بھال کر
اب سنئے ہمارا جواب اس بحث میں تین لوگ قابل غورہیں۔ 1۔ الیوم۔ 2۔ اکمال۔ 3۔ دین پہلے لفظ الیوم کے معنی ہم پہلے بتا آئے ہیں کہ اس سے مراد آج کا دن نہیں۔ بلکہ عہد رسالت مراد ہے۔ اسی طرح دین کے معنی بتا آئے ہیں۔ کہ اس سے مراد کل احکام متعلقہ عقائد و اعمال ہیں۔ آج کے جواب میں ہملفظ اکمال پر بحث کریں گے۔ معترض نے اکمال کے جو معنی سمجھے ہیں۔ وہ غلط ہیں۔ کیونکہ اکمال کے معنی میں نسبت داخل نہیں ہے یعنی یہ بات ضروری نہیں کہ آج ہم جس چیز کی تکمیل کادعویٰ کریں۔ اس سے پہلے اس نوعیت کی کوئی چیز تکمیل یافتہ نہ ہو۔ مثلا لاہو ر کے ٹائون ہال میں سو کوٹھیاں 40 ء) تک مکمل ہوچکی ہیں۔ 41ء میں ہم نے بھی ایک کوٹھی بنائی۔ جس میں سب سامان مہیا کیا گیا۔ مثلا غسل خانہ۔ باورچی خانہ۔ مہمان خانہ۔ اور پانی بجلی وغیرہ۔ سب چیزوں کا انتظام کرکے مستری ہم کو اطلاع دیتا ہے۔ کہ لیجئے حضور اب کوٹھی مکمل ہو گئی۔ مستری کی اس اطلاع کوسن کر کوئی شخص یہ اعتراض نہ کرے گا۔ کیوں صاحب پہلی سو کوٹھیوں میں کچھ نقص تھا ہر شخص جانتا ہے۔ کہ اکمال یا تکمیل کے مفہوم میں نسبت الی الغیر داخل نہیں ہوتی۔ بلکہ فی نفسہ اس کا مکمل ہونامراد ہوتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح قرآن مجید کی آیت کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کا دین خدا ن مکمل کردیا۔ یعنی جن چیزوں کی ان کو بحیثیت مذہب ضرورت تھی ان کے متعلق ان کو احکام بتادیئے گئے ازقسم عقائد ہوں یا از قسم اعمال۔ اب ہمارے بیان کے متعلق ادبی شہادت سنئے۔ عرب جاہلیت کا مشہور شاعر طرفہ بکری معلقہ ثانیہ میں اپنی نائو کی تعریف میں کہتا ہے۔
لھا فخذ ان اکمل النھض فیھا کانھا بابا منیف مصرد
میری اونٹنی کی ہردور انہیں ایسی ہیں۔ کہ ان میں گوشت مکملل بھرا ہوا ہے۔ گویا وہ کسی بڑی حویلی کے دروازہ کے دو بازو ہیں۔ اس شعر میں میری نظر لفظ اکمل پر ہے۔ جس کے ساتھ شاعر اپنی ناقہ کی تعریف کرتا ہے۔ یعنی بتاتا ہے کہ میری ناقہ کی رانوں میں گوشت مکمل طور پر بھرا ہوا ہے۔ کوئی شخص اس سے یہ نہیں سمجھے گا۔ کے کسی اور اونٹنی میں یہ وصف نہین ہے۔ چاہے واقعہ میں نہ ہو۔ ٹھیک اسی طرح آیت کریمہ کے معنی میں یہ مفہوم داخل نہیں ہے۔ کہ غیر اسلام ادیان میں نقص ہے۔ چاہے واقعہ میں ہو۔ مگرآیت اس مفہوم کی مستلزم نہیں بلکہ اس کا مطلب وہی ہے۔ جو ہم بتا آئے ہیں۔ کہ مسلمانوں کو جن چیزوں کی ضرورت تھی۔ وہ ہم (خدا) ے پوری کردی ہے۔ اس دعوے کا ثبوت ہم قرآن مجید سے پیش کرتے ہیں کہ قرآن مجید کی تعلیم نئی نہیں ہے۔ مندرجہ زیل آیات ملاحظہ ہوں۔
1۔ قُلْ مَا كُنتُ بِدْعًا مِّنَ الرُّسُل﴿٩﴾سورة الأحقاف
2۔ مَّا يُقَالُ لَكَ إِلَّا مَا قَدْ قِيلَ لِلرُّسُلِ مِن قَبْلِكَ﴿٤٣﴾ سورة فصلت
3۔ وَلَقَدْ وَصَّيْنَا الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ وَإِيَّاكُمْ أَنِ اتَّقُوا اللَّـهَ﴿١٣١﴾سورة النساء
4۔ وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّـهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاءَ وَيُقِيمُوا الصَّلَاةَ وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ ۚ وَذَٰلِكَ دِينُ الْقَيِّمَةِ﴿٥﴾سورة البينة
''ترجمہ۔ 1۔ ’’آپﷺ اے رسول خدا لوگوں کو کہہ دیجئے کہ میں نیا رسول نہیں ہوں۔ رسول مجھ سے پہلے بھی آتے رہے۔‘‘
2۔ ’’اے رسولﷺ! آپ کو خدا کی طرف سے وہی بات کہی جاتی ہے۔ جو پہلے نبیوں کو کہی گئی۔‘‘
3۔ ’’ہم نے تم (مسلمانوں ) کو اور تم سے پہہلے لوگوں کو بھی یہی حکم دیاتھا۔ کہ اللہ سے ڈرتے رہو۔‘‘
4۔ ’’ان اہل کتاب کو بزبان رسالت محمدیہﷺ یہی حکم دیا گیا ہے کہ اللہ کی عبادت کریں۔ اخلاص نیت سے اس کی طرف جھک کر اور نماز قائم کریں اور ذکواۃ دیتے رہیں یہی پختہ دین ہے۔‘‘
یہ آیت بصراحت بتاتی ہے کہ بے شک قرآن مجید نئے احکام لے کر نہیں آیا۔ بلکہ وہی احکام ہیں جو سابقین انبیاء کرام کووقتا فوقتا ملتے رہے۔ اب سوال یہ ہوسکتا ہے کہ قرآن مجید کی نئی شکل میں آنے کی ضرورت کیا ہے۔ اس اعتراض میں عیسائی بھی بہائیہ کے ساتھ مل جایئں گے۔ بلکہ یہود بھی۔ اس کا جواب ہم دینے کو حاضر ہیں۔ مگر بہائیہ خود سوچ لیں کہ شیخ بہاء اللہ کے دعوے سے پہلے وہ بھی ہمارے ساتھ بوریہ نشین تھے۔ اس لئے اس اعتراض کے پیدا کرنے والے نہیں ہوں گے۔ بلکہ ہمارے ساتھ مورد اعتراض ہوں گے۔ پس ان کواپنی پوزیشن سمجھ کر عیسایئوں کی تا یئد حاصل کرنی چاہیے۔
اس کا جواب قرآن مجید نے دیا ہے۔ پس وہی کافی ہے۔ وہ جواب سننے سے پہلے مدعیان کے حالات سنتے جایئں۔ جو خود قرآن مجید میں موجود ہیں۔ توحیدکی بجائے تثلیث اختیار کی گئی۔ بزرگان دین حضرت عزیر ؑ وغیرہ کو خدا کا شریک بنایا گیا۔ مریمؑ کو ملکہ آسمانی اور مسیح ؑ کو ابن اللہ کہا گیا۔ ہر قسم کے بدعات مذہب میں داخل کئے گئے۔ صحف مقدسہ میں تحریف و تبدیل کی گئی۔ يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَن مَّوَاضِعِهِ اس کا اظہار کر رہا ہے۔ بناوٹٰ مسئلے لکھ کر آسمانی حکم بتائے جاتے تھے۔ يَكْتُبُونَ الْكِتَابَ بِأَيْدِيهِمْ ثُمَّ يَقُولُونَ هَـٰذَا مِنْ عِندِ اللَّـهِ
بعض باتیں ظاہر کی جاتیں اور بہت سی چھپائی جاتیں۔ تُبْدُونَهَا وَتُخْفُونَ كَثِيرًا ۖ رومن کیتھولک اور پروٹسٹنٹ فرقوں کے عقائد مخصوصہ سے نظر اٹھا بھی کی جائے تو اس سے نظر نہیں اٹھ سکتی۔ کہ ان دونوں گرہوں کی مسلمہ الہامیہ کتب میں بھی فرق ہے۔ جو صاحب اس فرق سے واقف نہ ہوں۔ وہدفتر اہل حدیث میں تشریف لا کر ملاحظہ کر جایئں۔ (حیف در چشم زون۔ صحبت یارآخر شد۔ آہ ثم اہ ۔ ۔ ۔ راز)
مختصر یہ ہے کہ اہل کتاب یہود ونصاریٰ اپنے کتب مطہرہ سے بہت دور جا پڑے تھے۔ اورکبھی راہ راست پر نہیں آسکتے تھے ۔ جب تک قوت قدسیہ والی ذات کوئی آکر نہ سمجھائے۔ وہ قوت قدسیہ والی ذات ستو وہ صفات صحف مطہرہ کے مضامین کو الہامی شکل میں بیان کرے تب کہیں جا کر یہ قومیں ہدایت یاب ہوں گی۔ ہمارے اس بیان کا ثبوت قرآن مجید کی مندرجہ زیل آیات کریمہ سے ملتا ہے۔
لَمْ يَكُنِ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَالْمُشْرِكِينَ مُنفَكِّينَ حَتَّىٰ تَأْتِيَهُمُ الْبَيِّنَةُ ﴿١﴾ رَسُولٌ مِّنَ اللَّـهِ يَتْلُو صُحُفًا مُّطَهَّرَةً﴿٢﴾ فِيهَا كُتُبٌ قَيِّمَةٌ سورة البينة
یہ آیت بہت سی مشکلات کا حل اپنے اندر رکھتی ہے اس کا ترجمہ یہ ہے کہ سابقہ کتاب والے اورمشرک اپنے خیالی مذہب سے نہ سنتے ۔ یہا ں تک کہ ان کے پاس بینہ۔ یعنی اللہ کا رسول ﷺ آجائے۔ جو الہامی فرشتے ان کو پڑھ کر سناتے۔ جن میں مظبوط مسائل جو انسانی دست بردے محفوظ ہوں۔ اس آیت میں رسول اللہ کو البینہ کا خطاب دیا گیا ہے۔ البینہ مثبت دعویٰ کر کہتے ہیں۔ یعنی شہادت حقہ سے بتایا گیا ہے۔ کہ اہل کتاب مشرک اور یہود اپنی ضد سے کبھی نہ ہٹ سکتے۔ کسی پادری یا عالم کا کہناان پر اثر نہیں کرسکتا تھا۔ جب تک قوت قدسیہ والا رسول آکر ان کو نہ سمجھائے۔
کسی کالج کی بی اے اور ایم اے کی جماعت اس قدر کمزور ہوکہ امتحان میں جانے کے لائق نہ سمجھی جائے۔ منتظمین کالج کی درخواست پر یونیورسٹی کی طرف سے کوئی ایسا تجربہ کار پرنسپل بھیجا جائے۔ جو اس جماعت کو اچھی طرح تربیت دے کر امتحان میں کامیاب کرادے۔ تو کون کہے گاکہ اس پرنسپل کا آنابیکار ہے۔ نہیں ہرگز نہیں۔ بلکہ طلباء کی خستہ حالی اور نالائقی مقضی ہے کہ کوئی لائق پروفیسر یا پرنسپل آئے۔ اور ان کی اصلاح کرے۔
ٹھیک اسی طرح یہود ونصاریٰ اور مشرکین عرب وٖغیرہم بحکم آیت موصوفہ کبھی ٹھیک نہ ہوئے۔ جب تک کہ رسول البینہ ان کے پاس نہ آئے۔ یہ آیت جہاں اہل کتاب کی خستہ حالی بتاتی ہے۔ قرآن اوررسولﷺ ۔ قرآن کی تشریف آوری کی ضرورت بھی ثابت کرتی ہے۔
بس ۔ قرآن مجید اور رسول کریمﷺنے آکر جو کام کیا۔ اس کا خلاصہ یہی ہے کہ کل انبیاء کی تعلیم کو سھترا اور صاف کر کے الہامی شکل میں دنیا میں پیش کیا۔ جب وہ الہامی شکل میں آگیا۔ تو ارشاد ہوا۔
اتَّبِعُوا مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ﴿٣﴾سورة الأعراف
’’تم اس کلام کی پیروی کرو۔ جوخدا کی طرف سے تمہاری طرف اترا ہے۔ اوراس کے سوا کسی دوسرے یار دوست کی مت سنو۔‘‘
ہماری گزشتہ تقریر سے کئی ایک باتیں ثابت ہوتی ہیں۔ اول دین محمدی مکمل ہے۔ دوم دین محمدی ﷺ انبیائے کرام کی اصل تعلیم کا مجموعہ ہے سوم۔ جو کچھ خرابیاں اہل کتاب نے دین میں پیدا کی تھیں۔ اسلام نے دین الہیٰ سے ان کو پاک صاف کردیا۔ اور ان خرابیوں کوان کے بانیوں کی طرف منسوب کر کے اپنے مخاطبوں کو فرمایا۔
وَلَا تَتَّبِعُوا أَهْوَاءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوا مِن قَبْلُ وَأَضَلُّوا كَثِيرًا وَضَلُّوا عَن سَوَاءِ السَّبِيلِ ﴿٧٧﴾ سورة المائدة
’’تم ان لوگوں کی خواہشوں کے پچھے مت چلو۔ جو تم سے پہلے گمراہ ہوئے۔ اور انھوں نے بہتوں کوگمراہ کیا۔ اور سیدھے راستہ سے بھٹک گئے۔‘‘
یہاں تک تو ہم نے ادیان سابقہ کومکمل تسلیم کیا۔ اب ہم اس بات کا بھی ثبوت رکھتے ہیں۔ کہ ادیان سابقہ اسلام جیسے مکمل نہیں ہیں۔ اسلام
کیا جانے تجھ میں کیا ہے کہ لوٹے ہے تجھ پہ جی
یوں اور کیا جہاں میں کوئی حسین نہیں
قرآن مجید کتب سابقہ کی نسبت واقعی ایک مکمل کتاب ہے۔ پہلے ہم اس کی ایک مثال پیش کرتے ہیں۔ ''ہم نے ایک مکان بنایا جس کی حالت یہ ہے۔ کہ اس کی چار دیواری پر صرف چھت ڈالدی اور کواڑ لگادیئئے۔ نہ دیواروں پر پلستر کرایا اور نہ سفیدی کرائی نہ پانی اور روشنی کا انتظام کیا بلکہ محض سکونت کے قابل بنادیا۔ جس میں گرمی سردی سے حفاظت تو کافی ہوسکتی ہے۔ مگر ضروریات زندگی کا انتظام مکمل نہیں کیا گیا۔ اس کے مقابلے میں ہم نے ایک اور مکان بنایا۔ جس میں ان ضروریات کوملحوظ رکھ کر انتظام مکمل کردیا۔ یہ دوسرا مکان پہلے مکان کی نسبت بے شک اکمل ہے۔ اس مثال کی روشنی میں بے شک ہم بتاناچاہتے ہیں کہ قرآن مجید کتب سابقہ کی نسبت بلاشبہ اکمل ہے۔ یعنی اس میں کچھ امزیت ہے ۔ جوکتب سابقہ میں نہیں ہے۔ پس ناظرین کرام خصوصاً بہائی معترضین توجہ سے سنیں۔
عیسائیوں نے قرآن مجید کے مقابلے میں کتب سابقہ سے مضامین پیش کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی۔ کہ جو کچھ قرآن میں ہے۔ وہ سارے کا سارا ہماری کتب مقدسہ میں موجود ہے۔ محنتاور جانفشانی میں انھوں نے یہاں تک ترقی کی کہ انبیاء کرام کے صحف کے علاوہ مسیح ؑ کے حواریوں کے معملوی تبلیغی خظوط کو بھی صحٖف انبیاء میں شامل کرلیا۔ جن کو اہل اسلام صحٖف انبیاء میں داخل نہیں سمجھتے ہیں۔ کیونکہ ان کے ہاں غیر نبی کی کوئی تبلیغی تحریر نبی کی الہامی تحریر کے برابر نہیں ہوتی۔ مثلا مکوبات مجدد صاحب الف ثانی کو وہ قرآن کی طرح ان کو الہامی نہیں مانتے۔ اور نہ مان سکتے ہیں۔ عیسائی لوگ اگر پولوس اورپطرس وغیرہ کے خطوط کو صحف مقدسہ میں شامل سمجھیں تو ان کو اختیار ہے۔ مگر وہ مسلمانوں کو ازروئے قرآن اس کا قائل نہیں کر سکتے کیونکہ قرآن مجید ہمیں ان صحف کو ماننے کا حکم دیتاہے۔ جن پر یہ آیت صادق آتی ہے وَمَا أُوتِيَ مُوسَىٰ وَعِيسَىٰ وَمَا أُوتِيَ النَّبِيُّونَ مِن رَّبِّهِمْ ۔
باوجود اس کے کہ ہم کہنے میں باک نہیں سمھتے کہ عیسائی اپنی کوششوں میں کامیاب نہیں ہوئے۔ قرآن مجید بزبان حال ان کو للکار کر کہتا ہے۔ کہ میرے مقابلے پراپنی جنگجو فوج کے علاوہ ریزروفوج بلکہ زنگروٹ بھی لے آئو۔ تو بھی مقابلہ میں میں ہی غالبررہوں گا۔ کیوں۔
نام میرا سن کے مجنوں کو جمائی آگئی بھید مجنوں دیکھ کر انگڑایئاں لینے لگا
دین یا مذہب کی تعلیم کے چار حصے ہوسکتے ہیں۔
1۔ خدا کی ذات کے متعلق عقیدہ صحیحہ کی تعلیم جو اس کی شان الوہیت کے لائق ہو او ر نبوت و رسالت کے متعلق اس حسن اعتقاد کی تعلیم کہ حضرات انبیاء کرام ہر حیثت سےعام انسانی افراد سے برترو ممتاز ہوتے ہیں۔
2۔ عبادت الہٰی کے متعلق تعلیم 3۔ اخلاق فاضلہ کی تعلیم۔ 4۔ قیامت یا جزاسزا کی ضرورت اور اثبات۔
ہمارا دعویٰ ہے کہ قرآن مجید ن ان چاروں حصوں کی تکمیل نہایت عمدہ پیرایہ میں بڑی وضاحت سے کی ہے۔ جو کتب سابقہ میں نہیں ملتی۔ اس کی تفصیل بہت طوالت چاہتی ہے۔ ہم بطورنمونہ ایک ایک مثال بیان کرتے ہیں۔ خدا کی ذات وصفات کے متعلق بائبل نے بہت کچھ بتا یاہے۔ اس وقت ہم بائبل سے دو مچالیں پیش کرتے ہیں۔
1۔ چھ دن میں خداوند نے آسمان اورزمین کو پیدا کیا۔ اور ساتویں دن آرام کیااور تازہدم ہوا۔ (خروج باب 31۔ فقرہ 17)
یہ فقرہ صاف باتا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمان وزمین بنا کر تھگ گیا۔ اس لئے اس نے ساتویں دن آرام کیا۔ اور تازہ دم ہوا۔ قرآن مجید نے اس اصلاحی یا تکمیلان آیات میں فرمائی۔
1۔ أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّ اللَّـهَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَلَمْ يَعْيَ بِخَلْقِهِنَّ بِقَادِرٍ عَلَىٰ أَن يُحْيِيَ الْمَوْتَىٰ﴿٣٣﴾سورة الأحقاف
’’کیا ان لوگوں نے یہ نہیں سمجھا کہ وہی اللہ جس نے آسمانوں کو اور زمین کو پیدا کیا اورانکے پیدا کرنے سے تھکانہیں اس پ بھی قادر ہے کہ مردوں کوزندہ کردے۔‘‘
2۔ آیت وَلَقَدْ خَلَقْنَا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ وَمَا مَسَّنَا مِن لُّغُوبٍ ﴿٣٨﴾سورة ق
’’یقیناً ہم نے آسمانوں کو اور زمین کو اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے۔ اس کو چھ دن میں پیدا کیا۔ اور ہم کو کوئی تکان محسوس نہیں ہوئی۔‘‘ یہ دونوں آیتیں دراصل بائبل کی اس کمی تکمیل کے واسطے نازل ہوئیں۔ جو عبارت منقولہ پائی جاتی ہے۔ ناظرین زرا غور کریں۔ خدا کے حق میں تازہ دم ہونے کا زکر تھک جانے کی طرح ہے۔ اور تھک جانا ضعف قوی پر دلالت کرتا ہے۔ جو خدا کی شان کے شایاں نہیں۔ اس لئے قرآن مجید نےھ اس نقص کو رفہ کر کے پایا تکمیل کا فرض اد اکردیا۔
خدا کی شان کے متعلق بائیبل میں لکھا ہے کہ میں (خدا ) باپوں کے گناہوں کا ان کے فرزندوں سے تیسری چوتھی پشت تک بدلہ لیتا ہوں۔ (خروج باب34 فقرہ 716)
یہ حوالہ خدا کے عدل وانصاف پر سخت دھبہ ہے۔ کے باپ کے گناہوں کی سزا اس کی تیسری چوتھی پشتوں کو جو بے گناہ ہیں دی جاتی ہے۔ اس کی اصلاح کے لئے قرآن مجید میں کئی آیا ت آئی ہیں۔ ان سب کا مفہوم اس آیت میں آجاتا ہے۔ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ ۚ﴿٧﴾سورة الزمر ’’کسی کاگناہ دوسرے پر نہیں پڑے گا۔‘‘ یہ دو مثالیں بڑی وضاحت کے ساتھ بتا رہی ہیں۔ کہ خداوند قدوس کا جو تصور قرآن مجید نے کرایا ہے ۔ وہ اس تصور کی نسبت جو بائبل نے کرایا ہے اعلیٰ و اکمل ہے۔
کی طرف جو واقعات بائبل نے منسوب کئے ہیں۔ اس کا نموبہ صرف حضرت لوط ؑ کے قصے سے ملتا ہے۔ کہ آپ نے شراب پی کر اپنی بیٹیوں کو بار آور کیا (معاذ اللہ) (کتاب پیدائش 19 تا 30)
دنیا میں اس فعل قبیح کی ایسی مثال کوئی نہ ملے گی۔ قرآن مجید نے حضرات انبیاء کرام کی شان میں فرمایا۔
1۔ أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ هَدَى اللَّـهُ ۖ فَبِهُدَاهُمُ اقْتَدِهْ ۗ ۔﴿٩٠﴾سورة الأنعام ’’یہ انبیاء کرام وہی لوگ ہیں۔ جن کو اللہ نےراستہ دیکھایا۔ پس اے رسولﷺ تم بھی انہی کے راستے پر چلو۔‘‘
2۔ إِنَّا أَخْلَصْنَاهُم بِخَالِصَةٍ ذِكْرَى الدَّارِ﴿٤٦﴾ سورة ص
نَّهُمْ عِندَنَا لَمِنَ الْمُصْطَفَيْنَ الْأَخْيَارِ ﴿٤٧﴾سورة ص
’’ہم نے ان کو عاقبت کی یاد کے واسطے خالص کرلیا تھا۔ اور وہ ہمارے نزدیک برگزیدہ اور نیک بندے تھے۔‘‘
عبادت کے متعلق بائبل میں بے شک احکام ملتے ہیں۔ مگر عبادت کس طرح کی جائے اور کن اوقات میں کی جائے۔ اوراس کے داخلی اور خارجی شرائط کیا ہیں۔ ان باتوں کا کوئی زکر نہیں۔ ہاں اتنا ملتا ہے کہ خداواند کے نام کی مدح کرو۔ اے خداوند کے بندو اس کی ستائش کرو(ذبور 113) ہاں یہ بھی زکر ہے کہ خدا وندکی ستائش کرنا اور اس کے نام کی ستائش کے گیت گانا اے حق تعالیٰ بھلا ہے۔ صبح کو تیری شفقت کااور را ت کوتیری امانتداری کا تذکرہ کرنا(زبور 91) قرآن مجید نے عام طور پر امیر غریب سب کو نماز روزے کا حکم دیاہے۔ اور روزہ رکھنے کے لئے رمضان کا مہینہ مقرر کیا ہے۔ اورصبح کی سفید دھاری سے لے کر رات کی سیاہی نمودار ہونے تک اس کا ظرف زماں (وقت ) ٹھیرادیا۔ ارشاد ہے۔ ۖ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ
’’نماز کے لئے بھی دن رات میں پانچ اوقات مقررہ فرمادیئے۔‘‘ صبح و شام اور عشاء کی نمازوں کے اوقات کے متعلق فرمایا ۔ وَأَقِمِ الصَّلَاةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِّنَ اللَّيْلِ
’’نماز ظہر ک لئے سورج ڈھلنے کاوقت مقرر کردیا۔‘‘ أَقِمِ الصَّلَاةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ’’نماز عصرکے وقت اس آیت میں معین فرمایا۔‘‘
حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَىٰ
’’یعنی پانچ نمازوں کی خصوصاً درمیانی نماز کی حفاظت کیا کرو۔‘‘ اس لئے حج کے لئے بھی وقت مقرر کردیا۔ چنانچہ ارشاد ہے۔ الْحَجُّ أَشْهُرٌ مَّعْلُومَاتٌ ۚ حج کے مہینے معلوم ہیں۔ علی ھذا لقیاس ذکواۃ کی تفصیل بھی بتادی۔ ارشاد ہے۔ إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ
یہ سب کچھ اصلاح و تکمیل کے سلسلہ میں ارشاد ہوا ہے۔
4۔ اخلاقی حیثیت سے و ہ فعل ایسے برے ہیں۔ جو تمدن کو خراب کردیتے ہیں۔ 1۔ زنا۔ چوری۔ ڈکیٹی۔ زنا کی بابت حضرت مسیحؑ کا قول ہے۔ ''تم سن چکے ہو کہ پہلے لوگوں سے کہا گیا تھا۔ کہ زنا نہ کرو۔ مگر میں تم سے کہتا ہوں کہ جس کسی نے برُی خواہش سے کسی عورت پر نگاہ کی۔ وہ اپنے دل میں اس سےزنا کر چکا۔ پس اگر تیری دہنی آنکھ تجھے ٹھوکرکھلادے۔ تو اسے نکال کر اپنے پاس سے پھینک دے۔ کیونکہ تیرے ئے یہی بہتر ہے۔ کہ تیرے اعضاء میں سے ایک جاتا رہے اورتیرا سارا بدن جہنم میں نہ ڈلا جائے۔ (متی 5۔ 27) بہت اچھی تعلیم ہے۔ مگر قرآن نے اس کی تکمیل کرنے کو زنا کی سزا بھی مقرر فرمائی چنانچہ ارشاد ہے ۔ الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ ۖ۔ ’’زانی مردہو یا عورت ہر ایک کو سو کوڑے مارو۔‘‘ یہ حکم مسیحی ارشاد کی تکمیل ہے۔ یعنی مسیحی ارشاد محض واعظانہ نہ رنگ میں ہے۔ مگرقرآن مجید نے اسکو بغرض تکمیل تعزیر کی شکل میں پیش کیا۔ جنابمسیح ؑ کے کلام میں بھی سزا کا زکر ہے۔ مگر یہ سزا فاعل (ذانی ) کے اپنے اخیتار میں ہے چاہے وہ اسکو اپنے اورپر جاری کرے یا نہ کرے۔ مگر قرآنی سزا حکومت کافعل ہے۔ جسکا نفاذ یقینی ہے۔ بس یہی تکمیل ہے تمدن کے لئے ۔ دوسرا برافعل چوری اور ڈکیتی ہے ان کی سزایئں بھی قرآن مجید میں صراحتاً مذکور ہیں آیات زیل ملاحطہ ہوں۔
1۔ وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا۔ ﴿٣٨﴾سورة المائدة
’’چور مرد اور چور عورت دونوں کے ہاتھ کاٹ دو۔‘‘
2۔ إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا أَن يُقَتَّلُوا أَوْ يُصَلَّبُوا أَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُم مِّنْ خِلَافٍ أَوْ يُنفَوْا مِنَ الْأَرْضِ ۚ۔ ﴿٣٣﴾ سورة المائدة
’’اس کے سوا کیا جزا ہے۔ ان لوگوں کی جواللہ اور اس کے رسول سے لڑتے ہیں۔ اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیں۔ کہ وہ قتل کردیئے جایئں۔ یا ان کے ہاتھ اور پاؤں ایک دوسرے کے مخالف کاٹ دیئے جایئں۔ یا وہ اپنے ملک سے جلا وطن کردیئے جایئں۔ ‘‘
قیامت یا روز جزا کی تفصیل ملاحظہ ہو۔ بائبل میں قیامت کے متعلق صرف اتنا زکر ملتا ہے۔ کہ نرسنگھے کی آواز کے ساتھ اپنے فرشتوں کو بھیجے گا۔ جو اس کے برگزیدوں کو چاروں طرفسے آسمان کے ایک سرے سے اس سرے تک جمع کردیں گے۔ (متی 24۔ 31)
قرآن مجید نے جس تفصیل کے ساتھ قیامت کا زکر کیا ہے۔ بائبل میں اس کا عشر عشیرہ بھی نہیں۔ قرآن مجید نے ہر ایک واقعے کی تفصیل بتائی اور جنت اوردوزخ کا مفصل زکر کیا۔ جو قرآن دانوں سے مخفی نہیں ہے۔ پس مختصر یہ ہے کہ قرآن مجید کتب سابقہ کی نسبت ہر لہاظ سے مکمل ہے۔ دین اسلام کی مزید تکمیل وتفصیل اس کے مبلغ اول علیہ اسلام نے اپنی سیرت پاک سے پاک کردی۔ اس لئے ہمارا یہ دعویٰ ناقآبل تردید ہے۔
مگر مصور صورت آں دلربا خواہد کشید حیرت وارم کی نازش راچناں خواہد کشید
توقع ہے بہائیہ کا دعویٰ ہے۔ کہ قرن مجید باوجود وحی الہٰی ہونے کے کتاب اقدس کے زریعے منسوخ ہے۔ اس لئے ہم منتظر ہیں کہ وہ قرآن مجید کے مقابلے میں اقدس کی تعلیم کی برتری ثابت کریں۔ اگر ایسا نہیں کر سکتے تو دعویٰ نسخ کوواپس لیں۔
ادھر آئو پیارےہنرآزمایئں تو تیر آزما ہم جگر آزمایئں
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب