سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(211) مندرجہ زیل حدیث کسی معتبر کتاب میں مذکور ہے

  • 5999
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 2015

سوال

(211) مندرجہ زیل حدیث کسی معتبر کتاب میں مذکور ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مندرجہ زیل حدیث کسی معتبر کتاب میں مذکور ہے یا نہیں۔ اگر ہے تو صحیح ہے یا موضوع ؟ اگر صحیح ہے تو کیا اس سے یہ نتیجہ اخذ ہوسکتاہے۔ کہ ہر شخص جس نے کلمہ لا اله الا الله کہہ لیا ہے۔ وہ بلحاظ اعمال جنت میں داخل ہوجائےگا۔ "من قال لا اله الا الله خالصا مخلصا دخل الجنة"


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حدیث کے جو الفاظ عربی میں آپ نے  لکھے ہیں۔ یہ تو آئے ہیں۔ مشکواۃ شریف میں بھی یہ حدیث ہے۔ مگر اردو میں جوالفاظ لکھے ہیں۔ کہ بلا لحاظ اعمال کے داخل جنت ہو جایئں گے یہ  ترجمہ ٹھیک نہیں۔ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص خالص دل سے یہ کلمہ پڑھ کر بھی عمل کرے وہ جنتی ہے۔ ہاں اگرایسے وقت پڑھے کہ اس کو عمل کا موقع ہی نہ ملے۔ مثلا مرنے کے وقت یہ کلمہ اسے نصیب ہو جس وقت اسے نماز روزہ کی فرصت نہیں تو ایسے وقت میں اعمال کے بغیر بھی داخلہ جنت ہوجاتا ہے۔ ان شاء اللہ

شرفیہ

لوگ کلمہ  لا اله الا الله  کا مطلب سمجھ کر کجروی کرتے ہیں۔ اس کا معن یہ ہے کہ قائل اقرار کرتا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کا حکم نہیں مانوں گا۔ معبود کے معنی حاکم حقیقی عبادت  کے معنی حکم برداری۔ فرمانبرداری۔ پھر اگر فرمانبرداری نہ کرے گا۔ تو اس کا  ایمان  ایسا ہے۔ جیسا کہ شیطان کا یعنی جھوٹادعویٰ خداکو توشیطان بھی مانتا ہے۔ خَلَقْتَنِي مِن نَّارٍ اور۔ أَنظِرْنِي۔ ۔ اور۔ إِنِّي أَخَافُ اللَّـهَ رَبَّ الْعَالَمِينَ  ۔ قرآن مجید میں اس کے اقوال ثابت ہیں۔ ایمان کے معنی اللہ تعالیٰ کو وحدہ لاشریک جان کر اس کا حکم ماننا۔ اس پر عمل کرنا۔ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ مرتے وقت جس کا خاتمہ کلمہ توحید پر ہوا وہ جنتی ہے۔ دخول اولیٰ ہو یا بعد سزائے اعمال عام ہے۔ (ابو سعید شرف الدین )

لطیف ثنائی1   

خواجہ صاحب (خواجہ حسن نظامی صاحب مراد ہیں۔ )  بارہا اپنا عقیدہ ظاہر کرچکے ہیں۔ کہ میںغیرمقلد ہوں۔ 20 اگست 37ء؁ کے اخبار منادی میں صاف لکھا ہے  کہ

’’مجھے زور سے آمین کہنا اچھا معلوم ہوتا ہے۔ کیونکہ آہستہ کہنے والے سورۃ فاتحہ کو غورسے نہیں سنتے۔ اور زور سے آمین کہنے والے سورۃ فاتحہ کی طرف متوجہ رہتے ہیں۔ اگرچہ میں نماز میں آہستہ آہستہ آمین کہتا ہوں۔ لیکن مجھے بلند آواز سے اآمین کہنا بہت اچھا معلوم ہوتا ہے۔ اور سوچ رہا ہوں کہ ائندہ سے بلند آواز سے آمین کہا کروں۔ کیونکہ اس سے نہ تو کوئی آدمی غیر مقلد بنتا ہے۔ نہ شافعی ص13)

اہل حدیث

مقامی خوشی ہے کہ دہلی کی جامع مسجد میں آمین بالجہر کہنا ممنوع نہیں امید ہے خواجہ صاحب سب سے پہہلے مسجد جامعہ ہی میں اس سنت پر عمل کریں گے۔ (17 ستمبر 1937ء)

----------------------------------------------------------

1۔ ایک اہم تاریخی یاداشت کی حیثیت سے اس کو یہیاں درج کیا گیا ہے ۔ (محمد عمر کاتب)

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ  ثنائیہ امرتسری

جلد 01 ص 389

محدث فتویٰ

تبصرے